سعید بن زید رضی اللہ عنہ (28ق.ھ / 50ھ) حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی تھے۔آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق خاندان قریش سے ہے اور زمانہ جاہلیت کے مشہور موحد زید بن عمرو بن نفیل کے فرزند اور امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہنوئی بھی ہیں آپ جب مسلمان ہوئے تو ان کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسی سے باندھ کر مار ا اور ان کے گھر میں جاکر ان کو اور اپنی بہن فاطمہ بنت الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی مارا مگر یہ دونوں استقامت کا پہاڑ بن کر اسلام پر ثابت قدم رہے ۔جنگ بدر میں ان کو اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ابو سفیان کے قافلہ کا پتا لگانے کے لیے بھیج دیا تھا اس لیے یہ جنگ بدر کے معرکہ میں حصہ نہ لے سکے مگر اس کے بعد کی تمام لڑائیوں میں یہ شمشیر بکف ہو کر کفار سے ہمیشہ جنگ کرتے رہے ۔ گندمی رنگ ،بہت ہی دراز قد ، خوبصورت اور بہادر جوان تھے۔ آپ نے تقریباً 77 برس کی عمر پا کر مقام ”عقیق” میں وفات فرمائی اور لوگوں نے آپ کے جنازہ مبارکہ کو مدینہ منورہ لاکر آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا۔ [1]آپ نے 50ھ میں وفات پائی۔[2][3][4] [5][6]

سعید بن زید
سعید بن زید
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 593ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 671ء (77–78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ فاطمہ بنت خطاب   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب ترمیم

سعید نام ، ابو الاعور کنیت ، والد کا نام زید اور والدہ کا نام فاطمہ بنت بعجہ تھا،سلسلہ نسب یہ ہے،سعید بن زید بن عمرو بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرظ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان القرشی العددی۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلۂ نسب کعب بن لوی پر آنحضرت ﷺ سے اور نفیل پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل جاتا ہے، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد زید ان سعادت مند بزرگوں میں تھے جن کی آنکھوں نے اسلام سے پہلے ہی کفر و شرک کے ظلمت کدہ میں توحید کا جلوہ دیکھا تھا اور ہر قسم کے فسق و فجور یہاں تک کہ مشرکین کے ذبیحہ سے بھی محترز رہے تھے، چنانچہ ایک دفعہ ان سے اور آنحضرت سے قبل بعثت وادی بلدح میں ملاقات ہوئی، آنحضرت کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے انکار فرمایا، پھر انھوں نے بھی انکار کیا اور کہا میں تمھارے بتوں کا چڑھایا ہوا ذبیحہ نہیں کھاتا۔ [7]زید کا دل کفر و شرک سے متنفر ہوا تو جستجوئے حق میں دور دراز ممالک کی خا ک چھانی اور شام پہنچ کر ایک یہودی عالم سے مقصود کی رہبری چاہی، اس نے کہا اگر خدا کے غضب میں حصہ لینا ہے تو ہمارا مذہب حاضر ہے ،زید نے کہا میں اسی سے بھاگا ہوں،پھر اس میں گرفتار نہیں ہو سکتا، البتہ کوئی دوسرا مذہب بتا سکتے ہو تو بتاؤ اس نے دین حنیف کا پتہ دیا ،انھوں نے پوچھا دین حنیف کیا ہے،بولا دین حنیف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب ہے جو نہ یہودی تھے، نہ عیسائی بلکہ صرف خدائے واحد کی پرستش کرتے تھے،یہاں سے بڑھے تو ایک عیسائی عالم سے چارہ خواہ ہوئے،اس نے کہا اگر خدا کی لعنت کا طوق چاہتے ہو تو ہمارا مذہب موجود ہے ، زید نے کہا خدارا کوئی ایسا مذہب بتاؤ جس میں نہ خدا کا غضب ہو نہ لعنت میں ان دونوں سے بھاگتا ہوں بولا میرے خیال میں ایسا مذہب دین حنیف ہے،غرض جب ہر جگہ سے دین ابراہیم کا پتہ ملا تو شام سے واپس ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا خدا یا !تجھے گواہ بناتا ہوں کہ اب میں دین حنیف کا پیرو ہوں۔ [8] زید کو اس کفرستان میں اپنے موحد ہونے کا نہایت فخر تھا،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی ساحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ زید کو دیکھا کہ کعبہ سے پشت لگا کر کہہ رہے تھے، اے گروہِ قریش! خدا کی قسم میرے سوا تم میں کوئی بھی دین ابراہیم پر قائم نہیں ہے۔ [9] ایام جاہلیت میں اہل عرب عموماً اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے،لیکن خدائے واحد کے اس تنہا پرستار کو ان معصوم ہستیوں کے بچانے میں خاص لطف حاصل ہوتا تھا اور جب کوئی ظالم باپ اپنی بے گناہ بچی کے حلق پر چھری پھیرنا چاہتا تھا تو اس کی کفالت اپنے ذمہ لیتے اورجب جوان ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے جی چاہے لے لو یا میری ہی کفالت میں رہنے دو۔ [10][11][12].[13][14]،[15][16][17]

اسلام ترمیم

جب رسول اللہ نے دین حنیف کو زیادہ مکمل صورت میں دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور دعوتِ توحید شروع کی،تو اگرچہ اس وقت اس کے سچے شیدائی صفحۂ ہستی پر موجود نہ تھے تاہم ان کے فرزند سعید بن زید کے لیے یہ آواز بالکل مانوس تھی ،انھوں نے جوش کے ساتھ لبیک کہا اور اپنی نیک بخت بیوی کے ساتھ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ سعید کی بیوی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حقیقی بہن تھیں، لیکن وہ خود اس وقت تک اسلام کی حقیقت سے نا آشنا تھے، بہن اور بہنوئی کی تبدیلی مذہب کا حال سن کر نہایت برافروختہ ہوئے اور دونوں میاں بیوی کو اس قدر مارا کہ لہو لہان ہو گئے،[18] لیکن یہاں کچھ ایسی وارفتگی تھی کہ اس تمام زدو کوب کا صرف یہی ایک جواب تھا: من زجاناں گرچہ صدانددہ جان خواہم کشید تانہ پنداری کہ خودرا بکراں خواہم کشید یہاں تک کہ ان بزرگوں کی اسی استقامت و استقلال نے خود حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اسلام کی حقانیت کا جلواہ دکھا دیا اور بالآخر عمر بن الخطاب سے فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنادیا۔[19][20] [21][22][23][24]

ہجرت ترمیم

سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجرین اولین کے ساتھ مدینہ پہنچے اور رفاعہ بن عبدالمنذر انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مہمان ہوئے کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ نے ان میں اور رافع بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بھائی چارہ کرا دیا۔[25][26]

غزوات ترمیم

میں قریش مکہ کا وہ مشہور قافلہ جس کی وجہ سے جنگ بدر پیش آئی ملک شام سے آ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اور طلحہ کو اس تجسس پر مامور فرمایا، یہ دونوں حدودِ شام میں تجبار پہنچ کر کشد جہنی کے مہمان ہوئے اور جب قافلہ وہاں سے آگے بڑھا تو نظر بچا کر تیزی کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری کیفیت سے مطلع کریں، لیکن قافلہ نے کچھ سن گن پاکر ساحلی راستہ اختیار کیا اور کفارقریش کی ایک بڑی جمعیت مدد کے لیے آئی تھی اور پرستاران حق کے درمیان کے میدان میں مشہور معرکہ پیش آیا جس نے اسلام کو ہمیشہ کے لیے سر بلند کر دیا۔ ۔ جس وقت سعید میدان بدر پہنچے اس وقت غازیانِ دین فاتحانہ سرور انبساط کے ساتھ میدانِ جنگ سے واپس آ رہے تھے،چونکہ یہ بھی ایک خدمت پر مامور تھے اس لیے رسول اللہ نے ان کو بدر کے مالِ غنیمت میں حصہِ مرحمت فرمایا اور جہاد کے ثواب میں بھی شامل ہونے کی بشارت دی۔[27] حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ بدر کے سوا تمام غزوات میں مرادنگی و شجاعت کے ساتھ آنحضرت کے ساتھ ہمرکاب رہے،لیکن افسوس ہے کہ کسی غزوۂ کے متعلق کوئی تفصیلی واقعہ نہیں ملتا۔ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں جب شام پر باقاعدہ فوج کشی ہوئی تو حضرت سعید بن زید ؓ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ کے ماتحت پیدل فوج کی افسری پر متعین ہوئے، دمشق کے محاصرہ اور یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں نمایاں شجاعت و جانبازی کے ساتھ شریک کارزار تھے،اثنائے جنگ میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ میں ایسا ایثار نہیں کرسکتا کہ آپ لوگ جہاد کریں اور میں اس سے محروم رہوں، اس لیے خط پہنچنے کے ساتھ ہی کسی کو میری جگہ بھیج دیجئے میں عنقریب آپ کے پاس پہنچتا ہوں ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے مجبور ہو کر حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو دمشق پر متعین کیا اور حضرت سعید بن زید ؓ پھر میدان رزم میں پہنچ گئے۔[28][29][30]

واقعہ یرموک ترمیم

حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ غزوہ پر موک میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 24000 اور رومیوں کی فوج کا لشکر (ایک لاکھ میں ہزار) افراد پر مشتمل تھا۔ وہ ہماری جانب بڑے جاہ و جلال سے بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پہاڑ ہماری جانب چلا آرہا ہو۔ لشکر کے آگے بڑے بڑے پوپ اور پادری صلیب اٹھائے با آواز بلند چل رہے تھے۔ پورے لشکر کی آواز بجلی کی طرح گونج رہی تھی۔ جب ان کی یہ حالت دیکھی تو یہ جاہ وجلال دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔ اس نازک مرحلے میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کو جوش و جذبہ دلانے کے لیے پر جوش انداز میں ارشاد ربانی سناتے ہیں۔ : " ان تنصروا اللہ ينصر كم ويثبت اقدا کم ۔۔۔۔۔ معنی "اگر تم اللہ کی عدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کریگا۔ اور تمھارے قدم جمائے رکھے گا۔۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے بندوں صبر کرو صبر ہی کفر سے نجات اور اللہ رب العزت کی خوشنودی اور عار ود نگ کا زائل کرنے کا باعث ہے"۔ سنو ! اپنے نیزے درست کر لو اور چھپائے رکھو ؛ خاموشی اختیار کرو۔ دلوں کو یاد الہی سے سرشار کرو۔ یہاں تکہ میں تمھیں یکدم حملے کا حکم دوں۔

حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجاہدین میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے ابو عبیدہ بن جراح سے کہا کہ میں نے عزم کیا ہے کہ میں ابھی اپنا فرض انجام دے دوں اور حق کی راہ میں شہید ہو جاؤں۔ کیا آپ نبی کریم ال ایلم کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں ؟ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا نبی کریم میں اسلام کو میرا اور تمام مسلمانوں کا سلام کہنا ! حضرت سعید فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ اپنی تلوار نیام سے نکالتا ہے اور دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہونے کے لیے آگے بڑھتا ہے اور اس کے بعد میں نے شست لگائی اپنا گھٹنا باندھا اور اپنی تلوار کو سنبھالا دشمن کے اس شہوار کو نشانہ بنایا جس نے اسلام کے لشکر کی جانب سب سے پہلے پیش قدمی کی تھی۔ پھر میں جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑا۔ اللہ رب العزت نے دشمنوں کا خوف میرے دل سے بالکل نکال دیا۔ تمام مجاہدین اس وقت تک بر سر پیکار رہے۔ جب تک کہ فتح و نصرت مسلمانوں کو نصیب نہ ہوئی۔ اس کے بعد حضرت سعید بن زید کو فتح دمشق میں شامل ہونے کا شرف ملا۔ جب باشندگان دمشق نے مسلمانوں کی سب سے پہلے پیش قدمی کی تھی۔ پھر میں جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑا۔ اللہ رب العزت نے دشمنوں کا خوف میرے دل سے بالکل نکال دیا۔ تمام مجاہدین اس وقت تک بر سر پیکار رہے۔جب تک کہ فتح و نصرت مسلمانوں کو نصیب نہ ہوئی۔ شرف ملا۔ جب باشندگان و مشق نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی تو حضرت ابو عبیدہ بن جرائخ نے آپ کو دمشق کا گورنر بنایا۔ آپ پہلے مسلمان ہیں جنہیں دمشق کا گورنر بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ [31][32]

حدیث میں ذکر ترمیم

ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:

عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔[33] چنانچہ ایک دفعہ ان سے اورآنحضرت ﷺ سے قبل بعثت وادی بلدح میں ملاقات ہوئی،آنحضرت ﷺ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے انکار فرمایا، پھر انھوں نے بھی انکار کیا اور کہا میں تمھارے بتوں کا چڑھایا ہوا ذبیحہ نہیں کھاتا۔(بخاری باب حدیث زید )

وفات ترمیم

فتح شام کے بعد سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تمام زندگی نہایت سکون و خاموشی سے بسر ہوئی ،یہاں تک کہ 50ھ یا 51ھ میں ستر برس تک اس سرائے فانی میں رہ کر رحلت گزین عالم جاوداں ہوئے،چونکہ نواحِ مدینہ میں بمقام عقیق آپ کا مستقل مسکن تھا، اس لیے وہیں وفات پائی جمعہ کا دن تھا عبد اللہ بن عمر نماز جمعہ کی تیاری کر رہے تھے کہ وفات کی خبر سنی،اسی وقت عقیق کی طرف روانہ ہو گئے، سعد بن ابی وقاص نے غسل دیا، عبد اللہ بن عمر نے نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ لاکر سپرد خاک کیا۔[11][34] [35]

اخلاق و عادات ترمیم

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل دنیاوی جاہ وحشمت سے مستغنی تھا ، صرف مقام عقیق کی جاگیر پر گذراوقات تھی،آخر میں حضرت عثمان بن عفان ؓ نے عراق میں بھی ایک جاگیر دی تھی۔ امیر معاویہ ؓ کے عہد میں اروی نامی ایک عورت نے جس کی زمین ان کی جاگیر سے ملی ہوئی تھی، مدینہ کے عامل مروان بن حکم کے دربار میں شکایت کی کہ انھوں نے اس کی کچھ زمین دبالی ہے،مروان نے تحقیقات کے لیے دو آدمی متعین کیے،حضرت سعید ؓ کو خبر ہوئی تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جواپنے مال کے آگے قتل ہو وہ شہید ہے، پھر مروان سے کہا :کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی ایک بالشت زمین بھی ظلم و زبردستی سے لے گا تو ویسی ویسی ساتھ زمینیں قیامت میں اس کے گلے کا ہار ہوں گی، مروان نے قسم کھانے کو کہا تو یہ اپنی زمین سے باز آگئے اور اس عورت کے حق میں بددعا کے طور پر فرمایا اے خدا! اگر یہ جھوٹی ہے تو اندھی ہوکر مرے اوراس کے گھر کا کنواں خود اس کے لیے قبر بنے ،خدا کی قدرت بددعا کا تیر ٹھیک نشانہ پر لگا وہ عورت بہت جلد بصارت کی نعمت سے محروم ہو گئی اورایک روز گھر کے کنویں میں گرکرراہی عدم ہوئی،چنانچہ یہ واقعہ اہل مدینہ کے لیے ضرب المثل ہو گیا اور وہ عموماً یہ بددعا دینے لگے۔اعماک اللہ کما اعمیٰ اروی حضرسعید ؓ کے سامنے بہت سے انقلابات برپا ہوئے بیسیوں خانہ جنگیاں پیش آئیں اور وہ اپنے زہدو اتقاء کے باعث ان جھگڑوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے؛ تاہم جس کی نسبت جو رائے رکھتے تھے اس کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے،حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے تو وہ عموماً کوفہ کی مسجد میں فرمایا کرتے تھے تم لوگوں نے عثمان ؓ کے ساتھ جو سلوک کیا، اس سے اگر کوہِ احدمتزلزل ہوجائے تو کچھ عجب نہیں۔ [36] حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ امیر معاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے،ایک روزوہ جامع مسجد میں عوام کے ایک حلقہ میں بیٹھے تھے کہ حضرت سعید بن زید ؓ داخل ہوئے تو انھوں نے نہایت تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھایا،اسی اثناء میں ایک دوسرا آدمی اندر آیا اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی شان میں نامناسب کلمات استعمال کرنے لگا، حضرت سعید ؓ سے ضبط نہ ہو سکا ،بولے مغیرہ !مغیرہ! لوگ تمھارے سامنے رسول اللہ کے جان نثاروں کو گالیاں دیتے ہیں اور تم منع نہیں کرتے، اس کے بعد اصحابِ عشرہ ؓ سے آٹھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی ہے اور اگر چاہو تو میں نویں آدمی کا نام بھی لے سکتا ہوں، لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا نواں میں ہوں ۔ [37] حضرت سعید ؓ کے حالات کتب میں بہت کم ہیں تاہم وہ بالاتفاق ان صحابہ کرام ؓ میں تھے جو آسمان اسلام کے مہرو ماہ ہیں، وہ لڑائیوں میں آنحضرت کے آگے رہتے تھے اور نماز میں پیچھے۔ [38][39] [11][40]

حلیہ ترمیم

حلیہ یہ تھا، قد لمبا، بال بڑے بڑے اور گھنے تھے۔

اہل و عیال ترمیم

حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں، بیویوں کے نام یہ ہیں فاطمہ،(ام الجمیل) جلیسہ بنت سوید، امامہ بنت الدجیج، حزمہ بنت قیس ،ام الاسود، ضمخ بنت الاصبغ بنت قربہ، ام خالد، بشیر بنت ابی مسعود انصاری۔ ان بیویوں کے علاوہ نیز لونڈیوں کے بطن سے نہایت کثرت کے ساتھ اولاد ہوئی ، لیکن ان میں سے اکثر لاولد ہوئی،جن لڑکیوں اور لڑکوں کے نام معلوم ہو سکے، وہ علاحدہ علاحدہ درج ذیل ہیں۔[41] [42][43]

لڑکے ترمیم

عبد الرحمن اکبر، عبد الرحمن اصغر ، عبد اللہ اکبر، عبد اللہ اصغر ، عمر اکبر ، عمر اصغر ، محمد، اسود ، زید ، طلحہ ، خالد ، ابراہیم اکبر ، ابراہیم اصغر۔[44][45]

لڑکیاں ترمیم

عاتکہ، ام موسیٰ ، ام الحسن ، ام سلمی، ام حبیب کبری ، ام حبیب صغریٰ ، ام زید کبریٰ ، ام زید صغریٰ ، ام سعید ، ام سلمہ ، حفصہ ، ام خالد، عائشہ ، زینب ، ام عبدالحولا ، ام صالح۔ [46]

حوالہ جات ترمیم

  1. (اکمال فی اسماء الرجال، ص596وبخاری شریف ، ج1،ص545 مع حاشیہ )
  2. Hadith - Chapters on Virtues - Jami` at-Tirmidhi - Sunnah.com - Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى الله عليه و سلم)
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 01 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2014 
  4. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 243 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  5. مغلطاي الحنفي۔ إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال۔ 8۔ الفاروق الحديثة للطباعة والنشر۔ صفحہ: 23۔ 16 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  6. أبي الحجاج يوسف بن عبد الرحمن المزي (2018-01-01)۔ تهذيب الكمال في أسماء الرجال 1-11 ج4۔ 4۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 142۔ 17 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  7. (بخاری باب حدیث زید 12 منہ)
  8. (بخاری باب حدیث زید میں مفصل قصہ مذکور ہے)
  9. (ایضاً)
  10. (ایضاً)
  11. ^ ا ب پ شمس الدين الذهبي: سير أعلام النبلاء، الصحابة رضوان الله عليهم، سعيد بن زيد، جـ 1، صـ 125: 143، على مكتبة إسلام ويب، اطلع على هذا المسار في 15 أغسطس 2016 "نسخة مؤرشفة"۔ 9 يونيو 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 أغسطس 2016 
  12. أبي القاسم علي بن الحسن/ابن عساكر (2012-01-01)۔ تاريخ مدينة دمشق 1-37 ج11 (بزبان عربی)۔ دار الكتب العلمية۔ 16 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  13. أبي نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد الأصبهاني (2002-01-01)۔ معرفة الصحابة 1-5 ج1 (بزبان عربی)۔ دار الكتب العلمية۔ ISBN 978-2-7451-3271-0۔ 16 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  14. محمد بن سعد البغدادي: الطبقات الكبرى، ترجمة عاتكة بنت زيد بن عمرو، على موقع نداء الإيمان، اطلع على هذا المسار في 16 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2018-01-17 بذریعہ وے بیک مشین
  15. ابن الأثير الجزري (2012)۔ أسد الغابة في معرفة الصحابة۔ دار ابن حزم۔ صفحہ: 484–486۔ 24 نوفمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  16. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 248، على المكتبة الشاملة، اطلع على هذا المسار في 16 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  17. محمد بن سعد البغدادي (1410 هـ - 1990 م)۔ الطبقات الكبرى (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت: دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 289 – 295۔ 17 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2021 
  18. طبقات ابن سعد قسم اول جزو3:192
  19. صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب حديث زيد بن عمرو بن نفيل، حديث رقم 3616، على مكتبة إسلام ويب، اطلع على هذا المسار في 16 أغسطس 2016 "نسخة مؤرشفة"۔ 11 سبتمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 أغسطس 2016 
  20. صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب حديث زيد بن عمرو بن نفيل، حديث رقم 3614، على مكتبة إسلام ويب، اطلع على هذا المسار في 16 أغسطس 2016 "نسخة مؤرشفة"۔ 11 سبتمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 أغسطس 2016 
  21. معنى عبارة: يبعث يوم القيامة أمة وحده، إسلام ويب: مركز الفتوى[مردہ ربط]، اطلع على هذا المسار في 16 أغسطس 2016
  22. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 244، على المكتبة الشاملة، اطلع على هذا المسار في 24 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-21 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  23. صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب إسلام سعيد بن زيد رضي الله عنه، حديث رقم 3862، على موقع جامع السنة وشروحها، اطلع على هذا المسار في 17 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-08-26 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  24. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 242، على المكتبة الشاملة، اطلع على هذا المسار في 19 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-21 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  25. محمد بن سعد البغدادي: الطبقات الكبرى، باب هجرة عمر وإخائه، على موقع نداء الإيمان. آرکائیو شدہ 2007-09-03 بذریعہ وے بیک مشین
  26. (طبقات ابن سعد تذکرہ سعید بن زید ؓ)
  27. مسند أحمد بن حنبل، مسند العشرة المبشرين بالجنة، مسند سعيد بن زيد بن عمرو، رقم الحديث: 1565، على مكتبة إسلام ويب، اطلع عليه في 20 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  28. يوسف ابن عبد البر (1992)۔ كتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب (1 ایڈیشن)۔ دار الجيل۔ صفحہ: 615۔ 17 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2021 
  29. يوسف ابن عبد البر (1992)۔ كتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب (1 ایڈیشن)۔ دار الجيل۔ صفحہ: 764۔ 17 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2021 
  30. الخلفاء الراشدون مواقف وعبر، لعبد العزيز بن عبد الله الحميدي، صـ 418، على مكتبة جوجل، اطلع على هذا المسار في 25 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-08-28 بذریعہ وے بیک مشین
  31. يوسف ابن عبد البر (1992)۔ كتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب (1 ایڈیشن)۔ دار الجيل۔ صفحہ: 618۔ 17 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2021 
  32. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713
  33. فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب، المؤلف: محمد نصر الدين محمد عويضة، جـ 1، صـ 603 آرکائیو شدہ 2016-09-21 بذریعہ وے بیک مشین، على المكتبة الشاملة، اطلع على هذا المسار في 24 أغسطس 2016 "نسخة مؤرشفة"۔ 21 سبتمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 أغسطس 2016 
  34. أنوار الفجر في فضائل أهل بدر، المؤلف: سيد حسين العفاني، الناشر: ماجد العسيري، سنة النشر: 1426، جـ1، صـ 569، على مكتبة جوجل، اطلع على هذا المسار في 25 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-08-28 بذریعہ وے بیک مشین
  35. (بخاری باب بنیان الکعبہ باب اسلام سعید بن زید ؓ)
  36. (مسند :1/187)
  37. (اسد الغابہ ترجمہ سعید بن زید ؓ)
  38. سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 246، على المكتبة الشاملة، اطلع على هذا المسار في 24 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-21 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  39. فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب، المؤلف: محمد نصر الدين محمد عويضة، جـ 1، صـ 601، على المكتبة الشاملة، اطلع على هذا المسار في 24 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-21 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  40. ابن حجر العسقلاني: الإصابة في تمييز الصحابة، ترجمة فاطمة بنت الخطاب بن نفيل القرشية، جـ 8، صـ 271، على المكتبة الشاملة، اطلع عليه في 23 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-21 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  41. المعجم الكبير للطبراني، مسند النساء، باب الفاء، فاطمة بنت الخطاب بن نفيل تكنى أم جميل، على مكتبة إسلام ويب، اطلع عليه في 23 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  42. ابن حجر العسقلاني: الإصابة في تمييز الصحابة، ترجمة خيرة بنت قيس الفهرية، موقع نداء الإيمان، اطلع عليه في 23 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2020-03-16 بذریعہ وے بیک مشین
  43. رجال حول الرسول: سعيد بن زيد، لمحمد راتب النابلسي، اطلع على هذا المسار في 24 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-08-21 بذریعہ وے بیک مشین
  44. محمد بن سعد البغدادي (1410 هـ - 1990 م)۔ الطبقات الكبرى (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت: دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 1450۔ 13 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2021 
  45. فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر، كتاب الجنائز، على مكتبة إسلام ويب، اطلع على هذا المسار في 24 أغسطس 2016 آرکائیو شدہ 2016-09-14 بذریعہ وے بیک مشین