سقوط غرناطہ

ہسپانیہ سے اسلامی حکومت کا خاتمہ

892ھ بمطابق 1492ء میں ہسپانیہ میں مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا اور ان کی آخری ریاست غرناطہ بھی مسیحیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اس واقعے کو سقوط غرناطہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سقوط غرناطہ
بسلسلۂ:استرداد
سلسلہ استرداد  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
آغاز 1482  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 2 جنوری 1492  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک تاج قشتالہ
امارت غرناطہ  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
مسیحی اسپین (قشتالہ اور ارغون) امارت غرناطہ
قائد
فرڈیننڈ چہارم ابو عبداللہ
قوت
100،000 [حوالہ درکار] 300،000 [حوالہ درکار]
نقصانات
3،000 [حوالہ درکار] 150،000 [حوالہ درکار]

ہسپانیہ میں آخری مسلم امارت غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج آراغون کے مسیحی حکمرانوں ملکہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح ہسپانیہ میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن مسیحی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو ہسپانیہ سے بے دخل کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو جبرا مسیحی بنایا گیا جنھوں نے اس سے انکار کیا انھیں جلاوطن کر دیا گیا۔

سقوطِ غرناطہ سے قبل پے در پے واقعات و حوادث اور آخری حکمران ابو عبد اللہ کا شرمناک کردار ترمیم

"جس چیز کی حفاظت تم مردوں کی طرح نہیں کرسکے ، اس کے چھن جانے پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔"

 
مملکتِ غرناطہ کا نقشہ اور اس کے شہروں قشتالہ کے قبضے میں آنے کی تاریخیں دکھائی گئی ہیں۔

یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مسلم ہسپانیہ (اندلس)کے آخری حکمراں ابو عبد اللہ بن مولائے ابو الحسن(محمد بن یوسف المستغنی بالله) کی والدہ نے اُسے اُس وقت کہے جب وہ غرناطہ کی چابیاں مسیحی حکمرانوں کے حوالے کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرناطہ سے جلا وطن ہورہا تھا۔ اس نے جب آخری نگاہ اپنے آبا ؤ اجداد کے ورثے پر ڈالی تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ اس مقام پر جہاں ابو عبد اللہ کی آہ نکلی مسیحیوں نے مسلمانوں کی شکست کی علامت کے طور پر محفوظ کر لیا اور آج اسے مور کی آخری آہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔خیال رہے کہ یورپی تاریخ داں اندلس کے مسلمانوں کے لیے ’’مُور‘‘ Moors کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ابو عبد اللہ، اندلس کی آخری مسلم ریاست، مملکت ِغرناطہ، کا وہ بد بخت حکمران تھا جس نے عین اس وقت اپنے والد ابو الحسن(محمد بن یوسف المستغنی باللہ) اور چچا محمد بن سعد الزاغل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا جب وہ اندلس میں مسیحیوں کے مشترکہ لشکر سے اندلس میں مسلمانوں کی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہے تھے۔

1469 ؁ء کے اندلس کے سیاسی منظر نامے پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے اس داستان کے آخری باب کی طرف چلتے ہیں جس کا آغاز تقریباًآٹھ سو سال قبل جبل طارق یا جبرالٹر کے ساحل پر طارق بن زیاد نے مسیحی گاتھ شہنشاہ راڈرک کو عبرتناک شکست دے کر کیا تھا۔موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد نے جلد ہی ہسپانیہ سے مسیحیوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اسی طرح ہسپانیہ، دمشق کی خلافت کے زیر نگیں آگیا۔ دمشق کے انقلاب کے بعد اسلامی خلافت بغداد منتقل ہو گئی اور اندلس کی حکمرانی اموی شہزادے عبد الرحمن الداخل کو مل گئی۔وقت گزرتا گیا اور اندلس کی حکومتیں بدلتی رہیں اور مسلمان اندلس میں مضبوط اور مستحکم ہوتے چلے گئے۔ آہستہ آہستہ اندلس عالم سلام کا علم و ہنر کا مرکز بن گیا۔ دور عروج میں اندلس نے ابنِ بیطار،ابنِ رشد،ابنِ باجا، الفارابی۔ ابنَ حزم، اسحق موصلی ،اور الخظیب جیسے ہزاروں علما اور فضلاء پیدا کیے۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اندلس کے مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا،پھر قدرت نے یوسف بن تاشفین کی صورت میں اندلس کے مسلمانوں کو سنبھلنے کا بہترین موقع فراہم کیا مگر ان کے نصیب میں زوال لکھ دیا گیا تھا ۔ الداخل کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہو گئی۔ سرقسطہ ، قشطالیہ ،الشبیلہ اور قرطبہ جیسے عظیم علم و ہنر کے مراکز مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے شروع ہو گئے۔ آراغون اور قشتالہ کی مضبوط مسیحی مملکتیں وجود میں آگئیں۔آراغون کی حکمران ازابیلانامی ملکہ تھی جو تاریخ میں ملکہ ازابیلا کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ وہی ملکہ ہے جس کی تحریک پر کولمبس نے اپنی بحری مہم شروع کی تھی۔دوسری طرف قسطلہ کا شاہ فرنڈیڈ (Ferdinand) نامی متعصب مسیحی شخص تھا۔یہ دونوں حکمراں شدت پسند اور مسلمان دشمن تھے۔یہ دونوں اندلس سے مکمل طور پر مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے تھے، اسی مشترکہ مفاد کے تحت ان دونوں حکمرانوں نے 1469 ؁ء میں آراغون اور قسطلہ کی ریاستوں کو باہم مدغم کر لیا اور آپس میں شادی کرلی ۔

1469 ؁ء تک اندلس کے مسلمان غرناطہ کی ریاست تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔سارا اندلس ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا ،مسلمان اندلس بھر سے سمٹ کر غرناطہ میں اپنی بقاء کی لڑائی میں مصروف تھے ۔ غرناطہ کا موجودہ حکمران ایک نڈر اور قابل شخص محمد بن یوسف المستغنی باللہ (ابو الحسن) تھا۔اہل اندلس کو طویل عرصے بعد ایک لائق حکمران نصیب ہوا تھا۔اہل اندلس اسے اپنا نجات ہند تعبیر کر رہے تھے۔سلطان ابو الحسن سے مسلمانوں کی توقعات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان کا بھائی محمد بن سعد الزاغل (جو الزاغل کے نام سے مشہور ہے )مالقہ کے علاقے کا حکمران تھا اور جب اس نے یہ محسوس کیا کہ مسیحی ان دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈلوانا چاہتے ہیں تو الزاغل فوراًغرناطہ پہنچا اور اس نے مالقہ کے تخت سے دست بردار ہوتے ہوئے ابو الحسن کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔اسی طرح ابو الحسن طاقتور ہو گیا اور جب فرنڈیڈ نے ابو الحسن سے خراج طلب کیا تو اس نے وہ تاریخی جواب دیا جو ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوط ہو گیا۔ ابو الحسن نے کہا ’’غرناطہ کے ٹکسال میں مسیحیوں کو دینے کے لیے سکّوں کی بجائے اب فولاد کی وہ تلواریں تیار ہوتی ہیں جو ان کی گردنیں اتار سکیں۔‘‘ یہ جواب سن کر فرنڈیڈاور ازابیلا مبہوت رہ گئے۔ اس وقت قشتالہ اور آراغون کی باہمی ریاست کا رقبہ سوا لاکھ مربع میل کے لگ بھگ تھا۔جبکہ غرناطہ کی ریاست سمٹ سمٹا کر صرف چار ہزار مربع میل رہ گئی تھی۔یہ مختصر رقبہ بھی مسیحیوں کی نگاہ میں کھٹک رہا تھا وہ اندلس سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے۔انھوں نے ابو الحسن سے فیصلہ کن جنگ کا ارادہ کیا اور خاموشی سے جنگی تیاریاں تیز کر دیں۔ ابو الحسن بھی غافل نہیں تھا۔

آخر کار غرناطہ کے سرحدی مقام لوشہ میں سلطان ابو الحسن اور فرنڈیڈ (Ferdinand) کا ٹکراؤ ہو گیا ،اہل غرناطہ قوت اور عدد دونوں اعتبار سے مسیحیوں کی مشترکہ افواج کے مقابلے پر کمزور تھے۔مگر ان کو علم تھا کے اندلس میں یہ ان کے پاس یہی آخری خطہ اراضی رہ گیا ہے۔اس کے دفاع کے لیے اہل غرناطہ نے سر دھڑ کی بازی لگادی۔آخر کار لوشہ کے میدان میں طارق بن زیاد کی یاد تازہ کرتے ہوئے ابو الحسن نے فرنیڈنڈ کو شکست فاش سے دو چار کیا۔

ابھی ابو الحسن لوشہ کے میدان میں ہی تھا کہ غرناطہ میں اس کے ولی عہد ابو عبد اللہ نے بغاوت کردی اور غرناطہ کے تخت کا مالک بن بیٹھا۔مسیحیوں سے جہاد میں مشغول مسلمانوں کے لیے یہ خطرناک اطلاع تھی۔لوشہ کی فتح کے بعد وہ ابو الحسن کی سربراہی میں اندلس میں مسلمانوں کی نشاط ثانیہ کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ابو عبد اللہ کی بغاوت نے ان کے ہوش اڑا دئے اور سلطان ابو الحسن کو مجبوراًلوشہ چھوڑ کر مالقہ میں پناہ لینی پڑی۔یعنی اس نازک دور میں جب اہل اندلس اپنے بقاء کی جنگ میں مصروف تھے ،ابو عبد اللہ کی اقتدار کی ہوس نے غرناطہ کی سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔بجائے باپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے ابو عبد اللہ اس کی سلطنت کے درپے ہو گیا۔دوسری طرف مسلمانوں کو منقسم دیکھ کر شکست خورہ فرنڈیڈکو حوصلہ مل گیا اور اس نے مالقہ پر حملہ کر دیا۔مالقہ میں ابو الحسن اور فرنڈیڈ کو بر سر پیکار دیکھ کر ابو عبد اللہ نے بے غیرتی کی انتہا کرتے ہوئے ابو الحسن پر پشت سے حملہ کر دیا۔ابو الحسن تجربہ کار سپہ سالار تھا ،اس نے ایک طرف تو مسیحیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا دوسری طرف ابو عبد اللہ کو واپس غرناطہ جانے پر مجبور کر دیا ۔

اسی دوران ابو عبد اللہ اور فرنڈیڈ کالوشنیہ کے مقام پر آمنا سامنا ہو گیا۔ناتجربہ کار ابو عبد اللہ نے شکست کھائی اور گرفتار ہو گیا ،ابو عبد اللہ کے فرنڈیڈ کی قید میں جانے کے بعد غرناطہ کا تخت خالی ہو گیا ، بیٹے کی بغاوت نے ابو الحسن کو بیمار کر دیا تھا ،اس پر زبر دست فالج کا حملہ ہو گیا تھا،اس نے ریاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے بھائی الزاغل کو غرناطہ کا تخت سنبھالنے اور فرنیڈنڈکا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔الزاغل غرناطہ پہنچا اور اس نے مسلم افواج کی ازسرِنو تنظیم شروع کردی ۔ الزاغل بلاشبہ ابو الحسن کا حقیقی جانشین تھا اور ممکن تھا کہ اپنی دلیری اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اندلس کے مسلمانوں کا نجات دہنرہ بن جاتا مگر اس موقع پر ابو عبد اللہ کا ایک دفعہ پھر مکروہ کردار سامنے آتا ہے۔ دوران قید فرنیڈنڈ نے ابو عبد اللہ کی خصلت پہچان لی۔ وہ سمجھ گیا کہ ابو عبد اللہ کو مسلمانوں سے زیادہ اپنے اقتدار کی خواہش ہے۔اب فرنیڈنڈ نے ابو عبد اللہ کو الزاغل اور ابو الحسن کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس نے ابو عبد اللہ کو یقین دلایا کہ وہ اسے غرناطہ کا وارث تسلیم کرتا ہے اور یہ کہ فرنیڈنڈ غرناطہ کا تخت حاصل کرنے میں ابو عبد اللہ کی مدد کرے گا ۔

ابو عبد اللہ سے ساز باز کرنے کے بعد فرنڈیڈنے اسے اپنی قید سے رخصت کر دیا۔ابو عبد اللہ سیدھا مالقہ پہنچا جہاں الزاغل کا قبضہ تھااہل مالقہ کو یقین دہانی کرائی کہ فرنڈیڈ اس کے ساتھ ہے اور اگر اہل مالقہ ،ابو عبد اللہ کا ساتھ دیں تو وہ ان کی مسیحیوں سے صلح کروا سکتا ہے۔جنگ و جدل سے گھبرائے ہوئے مسلمان اس کی باتوں میں آگئے اور انھوں نے مالقہ پر ابو عبد اللہ کی بالا دستی تسلیم کرلی۔اب ابو عبد اللہ نے الزاغل کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ لوشہ کا قلعہ اس کے حوالے کر دے تو ان دونوں کی صلح ہو سکتی ہے۔اس طرح مسیحیوں کی مشترکہ افواج کا مقابلہ دونوں مل کر کریں گے۔ لوشہ کا قلعہ دراصل غرناطہ کا دفاعی مورچہ تھا ، فرنڈیڈ کئی سالوں سے لوشہ پر قبضہ کرنے کے چکر میں تھا اس طرح اُس کا راستہ غرناطہ تک آسان ہوجاتا ۔ مگر اہل لوشہ نے اپنے علاقے کا دفاع بڑی بے جگری سے کیا ہوا۔لوشہ کی دفاعی اہمیت کے باوجود مسلمانوں میں اتحاد کے خواہش مند الزاغل نے ابو عبد اللہ کا کہا مان لیا اور لوشہ کا قلعہ اس کے حوالے کر دیا۔ لوشہ پر قبضہ فرنڈیڈ کے منصوبے کا حصہ تھا۔ اب ابو عبد اللہ مالقہ اور لوشہ دونوں پر قابض تھا۔ اس نے فوراً فرنیڈنڈ کو لوشہ آنے کی دعوت دے ڈالی۔مسلمان حیران و پریشان ہو گئے جس لوشہ کی حفاظت کے لیے انھوں نے سالوں سے سر دھر کی بازی لگائی ہوئی ہے وہ بغیر کسی خون خرابے کے فرنڈیڈ کو مل گیا ۔

ادھر مالقہ میں جب مسلمانوں نے یہ صورت حال دیکھی تو انھوں نے ابو عبد اللہ کے خلاف بغاوت کردی۔ اس پر فرنڈیڈ نے مالقہ کا محاصرہ کر لیا ۔ اہل مالقہ کی مدد کے لیے الزاغل غرناطہ سے روانہ ہو گیا۔ غرناطہ خالی دیکھ کر ابو عبد اللہ کو سنہری موقع مل گیا ،وہ فوراًغرناطہ پہنچ گیا اور تخت غرناطہ پر قبضہ کر لیا ۔ یہاں سے المناک داستان کا وہ باب شروع ہوتا ہے جس کا انجام مسلمانانِ اندلس کی مکمل بربادی پر ختم ہوا۔وہ لوگ جو آٹھ سو سال قبل اندلس میں روشنی کا پیغام لے کر آئے تھے اور روشنی کی مانند پورے اندلس میں پھیل گئے تھے وہ راستہ بھول گئے ۔ افراد راستہ بھول جائیں تو گھرانے تباہ ہوجاتے ہیں مگر جب قومیں راستہ فراموش کر دیں تو سلطنتیں برباد ہوجاتی ہیں۔اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔غرناطہ پر ابو عبد اللہ کا قبضہ بھی مسلمانان اندلس کے لیے بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہ منظر نامہ دیکھتے ہوئے مالقہ والوں نے فرنیڈنڈ سے صلح کرلی۔اس طرح لوشہ اور مالقہ پر فرنڈیڈ کا قبضہ مکمل ہو گیا ۔

 
ابو عبد اللہ ہتیار ڈالنے کے لیے ملکہ ازابیلا اول اور اس کا خاوند تاج آراغون کے بادشاہ فرڈینینڈ کے سامنے پیش ہوتے ہوئے

ابو عبد اللہ کو بیٹا کہنے اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرنے والا فرنڈیڈ اب اپنے اصل روپ میں آگیا ۔ اس نے ابو عبد اللہ کو پیغام بھجوایا کہ اب غرناطہ کی چابیاں مسیحیوں کے حوالے کردی جائیں۔یہ پیغام ملتے ہی ابو عبد اللہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔اپنوں سے غداری کرنے کا انجام اسے نظر آنے لگا۔اس نے اہل غرناطہ سے مشورہ کیا اہل غرناطہ موسیٰ اور طارق کے فرزند تھے۔انھوں نے آخری دم تک جنگ لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا۔اہل غرناطہ اور فرنڈیڈ میں سخت لڑائی لڑی گئی۔مسلمانوں کو علم تھا کہ اندلس میں اب غرناطہ ہی ان کی آخری امید ہے لہٰذا وہ جم کر لڑے اور انھوں نے مسیحیوں کو شکست سے دوچار کر دیا غرناطہ کے مضافات کے علاقے دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔ان میں البشرات نامی پہاڑی علاقہ بھی شامل تھا ۔

قدرت قوموں کو سنبھلنے کے لیے کئی مواقع دیتی ہے۔ یوسف بن تاشفین کی آمد سے لے کر ابو الحسن کی تخت نشینی تک اہل اندلس کو سنبھلنے کے کئی مواقع ملے۔مگر اقتدار کی خواہش اور ہوس میں اپنوں سے غداری نے اہل اندلس کو برباد کر کے چھوڑا۔ اس نازک موقع پر جب مسیحی اندلس میں مسلمانوں کو آخری پناہ گاہ کے سامنے مورچہ زن تھے اس وقت بھی اہل اندلس کی آپس کی نااتفاقی ختم نہ ہوئی۔ اہل غرناطہ کی ابو عبد اللہ کی سربراہی میں مسیحیوں کے خلاف کامیابیاں اس کے چچا الزاغل کو ایک آنکھ نہ بھائی‘ وہی محمد بن سعد الزاغل جو کچھ عرصہ قبل مسلمانوں کے اتحاد کی خاطر اپنے بھائی سلطان ابو الحسن کے حق میں اپنی سلطنت سے دستبردار ہو چکا تھا اس دفعہ اس نے شرمناک حرکت کی۔الزاغل نے اہل غرناطہ کے خلاف فرنڈیڈ کے حق میں اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے فرنڈیڈ کو ابو عبد اللہ پر حملہ کرنے پر اکسایا ۔ فرنیڈنڈ نے یہ سنہری موقع جانے نہ دیا اور ایک دفعہ پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑوادیا۔اب الزاغل نے فرنیڈنڈ کی مدد کے ساتھ ابو عبد اللہ پر حملے کرنے شروع کیے ،غرناطہ کے مضافات کے تمام قلعے ایک ایک کرکے مسیحیوں کے قبضہ میں دوبارہ چلے گئے اور آخر کار اہل غرناطہ محصور ہو کر رہ گئے ۔ غرناطہ کے تخت کا خواہش مند الزاغل کو فرنڈیڈ نے اس کی خدمات کا صلہ دیتے ہوئے اسے ہسپانیہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ الزاغل، فرنڈیڈ کا منہ دیکھتا رہ گیا اور آخر کار مراکش میں جلا وطن کر دیا گیا اور وہیں گم نامی کی موت مرگیا۔ غداروں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔

سقوطِ غرناطہ اور آٹھ سو سال قدیم ہسپانوی مسلم سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ترمیم

اب فرنڈیڈ اور ازابیلا نے فیصلہ کن معرکہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔1492 ؁ء کا سال آگیا اور اسی سال موسم گرما میں مسیحیوں کی مشترکہ ا فواج نے غرناطہ کا محاصرہ کر لیا۔غرناطہ کے شمال میں پہاڑی سلسلہ تھے اور محاصرے کے دوران اہل غرناطہ کو مدد ملتی رہی۔ مگر سردیاں شروع ہوتے ہی پہاڑوں پر برف باری شروع ہو گئی اور غرناطہ کو کمک ملنا بند ہو گئی۔شہر میں اشیاء خورد نوش کی قلت ہو گئی ۔

اہل غرناطہ اب بھی مسیحیوں پر فیصلہ کن حملہ کرنے پر آمادہ تھے۔غرناطہ کا سپہ سالار ’موسیٰ بن ابی غسان‘ افسانوی شہرت کا حامل کردار تھا۔ وہ آخری سپاہی تک لڑنا چاہتا تھامگر ابو عبد اللہ ذہنی طور پر شکست قبول کرچکا تھا۔وہ اور اس کے اکثر امرا فرنڈیڈ سے صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اسی طرح وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات حصل کرسکیں گے۔امراِ سلطنت سازش میں مصروف ہو گئے۔ پس پردہ مسیحیوں سے رابطے قائم کرنے لگے ان سازشی عناصر کا سر غنہ وزیر اعظم غرناطہ ’ابو القاسم‘ تھا۔ فرنڈیڈنے غرناطہ پر قبضے کی صورت میں اس کوغرناطہ کا اہم عہدہ دینے کا وعدہ کر لیا۔۔ابو عبد اللہ کی ذہنی شکست میں ابو القاسم کا مرکزی کردار تھا۔بلاآخر ابو عبد اللہ نے ابو القاسم کو خفیہ سفارتکاری کی اجازت دے دی۔ صلح کی شرائط طے کرلی گئیں۔بظاہر ان شرائط میں مسلمانوں کے لیے ہر قسم کا تحفظ یقینی بتایا گیا تھا مگر بعد میں مسیحیوں نے اس پر کتنا عمل کیا وہ ایک علاحدہ باب ہے۔

معاہدے کے تحت ابو عبد اللہ کو البشرات کے علاقے میں ایک جاگیر دے دی گئی۔آخر کار وہ تاریخی دن آگیا جسے آج تک تاریخ اسلام کا طالب علم سیاہ دن سے تعبیر کرتا ہے۔2جنوری 1492 ؁ء کو غرناطہ کی چابیاں ابو عبد اللہ نے اپنے ہاتھوں سے فرنڈیڈ اور ازابیلا کو پیش کر دیں۔ پادری اعظم نے قصر الحمراء پر لہراتا صدیوں پرانا پرچم اسلامی اتار کر صلیب کو نصب کردیاور اس طرح سقوط غرناطہ کے ساتھ ساتھ اندلس میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ حکمرانی کا سورج بھی غروب ہو گیا۔سو سال کے اندر اند رمسیحیوں کے ظلم و ستم کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے مراکش اور شمالی افریقہ میں آباد ہو گئے ان کے قبائل آج بھی وہاں مہاجر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور بیشمار اہل ایمان مسیحی ظلم و ستم کی تاب نہ لا کر مسیحی بن گئے۔یوں ایک غدار اور بزدل حکمران ابو عبد اللہ کی شامت اعمال کا نتیجہ اہل اندلس کو دیکھنا پڑا۔

[1]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. https:// آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ blog.jasarat.com (Error: unknown archive URL)ےlog.jasarat.com/2017/10/28/saqootegharnata/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ blog.jasarat.com (Error: unknown archive URL)