سمندر اور بوڑھا ہیمنگوئے کا وہ شہر آفاق ناول ہے جو اس نے کیوبا میں 1951ء میں لکھا اور ایک برس بعد 1952ء میں منصۂ شہود پر آیا۔[1] یہ وہ آخری اہم ترین ادبی تخلیق تھی جو ہیمنگوئے کی زندگی میں ہی شائع ہوئی۔

سمندر اور بوڑھا
اصل کتاب کا سرورق
مصنفارنسٹ ہیمنگوے
ملکریاست ہائے متحدہ
زبانانگریزی
صنفادبی فکشن
اشاعت1952 (چارلز اسکربنرز سنز)
طرز طباعتمطبوعہ (سستی اشاعت اور مجلد)
صفحات127
اعزازاتپلٹزر انعام برائے فکشن (1953ء)

1953ء میں بوڑھا اور سمندر ناول کو پلٹزر انعام برائے فکشن ملا جبکہ 1954ء میں ارنسٹ کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔[2]

پس منظر ترمیم

ناول کی کہانی انسان کے عزم و ہمت کی داستان ہے۔ وداع جنگ کی اشاعت کے بعد دس برس تک اس کا کوئی اہم تخلیقی کام نہیں اآسکا۔ ایک عشرے پر محیط اس تخلیق بنجر پن کے دور کے بعد جب اس کا ناول Across the river and into the trees شائع ہوا تو نقادوں نے اس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کتاب میں ہیمنگوئے نے دوسری جنگ عظیم میں اخباری نمائندہ کے طور پر حاصل ہونے والے تجربات کو اس انداز میں جس طرح کہ اس نے جنگ اول اور اسپین کی سول جنگ سے حاصل ہونے والے تجربات کو ناول کی صورت میں کامیابی سے ڈھالا تھا اس کو ناکامی ہوئی۔ بوڑھا اور سمندر کو عدیم النظیر پزیرائی حاصل ہوئی۔ 1953 میں اسے اسی ناول کی بنیاد پر اسے پلٹزر انعام جبکہ اگلے برس ادب کا نوبل انعام سے نوازا گیا۔

کہانی ترمیم

یہ ایک گھاگ اور تجربہ کار ماہی گیر سانتیا گو کے عزم کی کہانی ہے جو کیوبا کی بندر گاہ ہوانا کے قریب سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کا کام کرتا ہے چوراسی دن تک کسی بھی مچھلی کو پکڑنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اس کی تیرہ بختی کے پیش نظر اس کے شاگرد نیک دل منیولن کو اس کے والدین نے بوڑھے سانتیا گو کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا اور کسی کامیاب مچھیرے کے ساتھ وابستہ ہونے کا حکم دیا۔ پچاسویں دن سانتیا گو نے لڑکے مینولن سے کچھ چھوٹی مچھلیاں لیں اور روانہ ہوا۔ بوڑھے کو خود کلامی کی عادت تھی۔ بوڑھا بلا آخر مچھلی پھانسنے میں کامیاب ہو ہی گیا، مچھلی اتنی تھی کہ وہ خود کو اسے کھنچنے سے معذور پاتا تھا۔ سورج غروب ہو گیا لیکن مچھلی اپنے سفر پرگامزن رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ بوڑھا بھی محو سفر رہا۔ وہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا کہ مچھلی میں آخر دم تک تیرے ساتھ رہوں گا اور تیرا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔ اگلی صبح اس کی ڈوری کو جھٹکا لگا اور وہ گھٹنوں کے بل کشتی میں جا گرا۔ اس کے ہاتھ سے خون بہہ نکلا اس نے مچھلی کو اس وقت دیکھا، جب وہ ایک دم اچھلی اور دوبارہ پانی میں چلی گئی۔ بوڑھے کو مچھلی کے شکار میں بڑی ہی مشکلات کا سامنا بھی رہا لیکن اس نے کسی بھی لمحے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اس کو زیر دام لانے کی جستجو کرتا رہا۔ بے شمار مشکلات کے بعد جب وہ شکار میں کامیاب ہوتا ہے اور جنگ جیت جاتا ہے، وہ ڈوری کی مدد سے مچھلی کو کشی کے ساتھ باندھ کر جس کے بارے میں اس کا خیال تھا اس کا وزن کم از کم ڈیڑھ ہزار پونڈ وزنی ہوگا، شاداں و فرحاں گھر کو روانہ ہوا۔ اس دوران میں ایک خونخوار شارک نے مچھلی پر حملہ کیا اور اس کا گوشت نوچنا شروع کر دیا۔ بوڑھنے نے نیزہ اس کے سر پر دے مارا شارک الٹ تو گئی لیکن اس کے ہاتھ سے نیزہ اوررسی بھی چھوٹ گئی۔ دو گھنٹے کے بعد مزید شارکوں نے مچھلی پر حملہ کر دیا۔ بوڑھنے نے چپو کے ساتھ تیز دھار والا چاقو باندھا اوران سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار ہو گیا۔ بوڑھا ان تمام شارکوں کو ختم کرنے میں کامیاب تو ہوا لیکن اس وقت تک وہ مچھلی کا ایک تہائی حصہ کھا چکی تھیں۔ بوڑھا غمگین تھا اوراس کی محنت ضائع ہو رہی تھی۔ رات کو شارکوں کی ایک بڑی تعداد نے بچی کچھی مچھلی پر حملہ کر دیا۔ ان کا مقابلہ کرنا تو سانتیا گو کے لیے کسی بھی طور پر ممکن نہ تھا۔ اس نے چارو ناچار ان کے سروں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیے۔ اس دوران میں وہ ایک ڈنڈے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ بوڑھے کو شکست کا احساس ہوا اور وہ کشتی چلانے لگا۔ رات کے آخری حصے میں شارکوں نے مچھلی کے ڈھانچے پر حملہ کر دیا اور اس کے جسم کا تمام تر گوشت نوچ کر لے گئیں۔ تھکا ہارا بوڑھا جھونپڑی میں پہنچا اورسو گیا۔ ساحل پر دوسرے ماہی گیر حیرت سے بوڑھے کی کشتی اور مچھلی کے عظیم پنجر کو دیکھ رہے تھے۔ اردو زبان میں اس کا ترجمہ ممتاز مترجم شاہد حمید نے کیا۔

ملاحظات ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "From Ernest Hemingway to the Editors of Life"۔ Life۔ Time Inc۔ 33 (8): 124۔ 25 اگست 1952۔ ISSN 0024-3019۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2017۔ Hemingway's work is a 27,000-word novel called The Old Man and the Sea۔ 
  2. "The Nobel Prize in Literature 1954"۔ The Nobel Foundation۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ January 31, 2005 

مآخذ ترمیم

مزید پڑھیے ترمیم

بیرونی روابط ترمیم

اعزازات و فتوحات
ماقبل  نوبل انعام برائے ادب
1954
مابعد