سوامی شردھانند (1856ء–1926ء) مہاتما منش رام وِج کے نام سے بھی مشہور ہیں، ایک ہندوستانی ماہر تعلیم اور آریہ سماج کے ایک مبلغ تھے جنھوں نے دیانند سرسوتی کی تعلیمات کی اشاعت کی۔ انھوں نے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے مثلاً گروکول کانگڑی یونیورسٹی اور سنگٹھن اور شدھی، 1920ء کی دہائی کی ایک ہندو اصطلاحی تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا۔

پیدائش6 فروری 1856(1856-02-06)
گاؤں ٹلون جالندھر، ہندوستاں
وفات23 دسمبر 1926(1926-12-23) (عمر  70 سال)
دہلی، ہندوستان

ابتدائی زندگی اور تعلیم ترمیم

وہ 22 فروری 1856ء میں ضلع جالندھر، برطانوی پنجاب کے گاؤں ٹلون میں پیدا ہوئے۔ وہ وہ لالہ نانک چند کے خاندان کے سب سے چھوٹے بچے تھے۔ لالہ نانک چند متحدہ صوبوں (موجودہ اتر پردیش) کے ایک پولیس انسپکٹر تھے۔ ان کو ”برہسپتی وِج“ کا نام دیا گیا لیکن بعد میں ان کے والد نے ان کو ”منشی رام وِج“ کا نام دیا، ان کے 1917ء میں سنیاس لینے تک یہی نام رہا۔ ان کے والد تقریبات میں انتظامات اور حفاظت کے کاموں کو کنٹرول کرتے تھے۔

انھوں نے کچھ واقعات کے بعد دہریت اختیار کر لیا تھا، واقعات جیسے کہ جب ایک دفعہ وہ مندر میں داخل ہو رہے تھے تو انھیں روک دیا گیا کیونکہ اندر امیر خاتون پوجا کر رہی تھی۔ وہ کرشن فرقے کے پجاریوں کا ایک جوان عقیدت مند کے ساتھ عصمت دری اور گرجا گھر کے پادری کا نن کے ساتھ ”سمجھوتے“ کے گواہ تھے۔[1] اور مسلم وکیل کے گھر میں ایک چھوٹی بچی کی مشکوک موت۔ ان تمام واقعات کی وجہ سے وہ ملحد ہو گئے۔ انھوں نے مختاری امتحانات پاس کیے اور ایک وکیل بننے کے لیے پڑھائی کا آغاز کیا۔[1] جب وہ بریلی لیکچر دینے جایا کرتے تھے تو ان کی ملاقات دیانند سرسوتی سے ہوئی۔

ذاتی زندگی ترمیم

شردھانند اور ان کی بیوی شیوا دیوی کے دو بیٹے تھے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ان کی بیوی انتقال کر گئیں جب شردھانند صرف 35 سال کا تھا۔ ان کی پوتی ستیاوتی ہندوستان میں برطانوی راج کی مشہور مخالف تھیں۔ [2]

موت ترمیم

24دسمبر 1926 کو اسے عبدالرشید نے قتل کر دیا جس نے کہا کہ اس نے شردھانند کو اسلامی پیغمبر محمد کے بارے میں اس کے تبصروں پر قتل کیا۔ عبد الرشید کو 1927 میں٢٤ موت تک پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ موہن داس کرم چند گاندھی نے اس کے قتل پر اعتراض کیا۔ [3] دہلی، یوپی اور پنجاب کے مسلمانوں نے مقدمے میں گہری دلچسپی لی۔ ہر پیشی پر عدالت میں غازی عبد الرشید سے محبت کرنے والوں کا بے پناہ ہجوم امڈ آتا۔ مقدمے کی ساری رواداد خود مولانا محمد علی جوہر نے شائع کی۔ عدالت نے غازی عبد الرشید کو پھانسی کی سزا دی اور ملت اسلامیہ نے ’’شہید اسلام‘‘ اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطاب سے نوازا۔[4][5]

کتابیات ترمیم

  • الجہاد فی الاسلام کتاب: تعارف:برصغیر میں جماعت اسلامی تحریک کے بانی مولانا ابوالاعلی مودودی عظیم اسلام مفکر تھے انھوں نے کئی ایسی کتابیں لکھیں جس میں اسلامی قوانین کے فلسفہ کوتفصیل سے پیش کیا ہے ۔ تفہیم القرآن، خلافت و ملوکیت ، اسلام میں پر دہ اور الجہاد فی الاسلام ان کی مقبول ترین کتابیں ہیں۔یہ کتاب جہاد کے موضوع پر بڑی اہم کتاب ہے۔یہ کتاب سوامی شردھانند کی شدھی تحریک کے وقت سامنے آئی تھی ۔ کیونکہ یہ تحریک مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے شروع کی گئی تھی اور چیخ چیخ کر یہ کہا جارہا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ۔ لوگوں سے مخاطب ہوکر کہاجاتا تھا کہ تمھارے آباء اجداد ڈر پوک تھے کہ تلوار کے ڈر سے مسلمان بن گئے تم بہادر ہو گھر واپسی کرلو ۔ انھیں دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں انھوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوں ۔ اس پر مولانا نے یہ کتاب لکھ دی ۔[6]
  • The Arya Samaj and Its Detractors: A Vindication, Rama Deva. Published by s.n, 1910.
  • Hindu Sangathan: Saviour of the Dying Race, Published by s.n., 1924.
  • Inside Congress, by Swami Shraddhanand, Compiled by Purushottama Rāmacandra Lele. Published by Phoenix Publications, 1946.
  • Kalyan Marg Ke Pathik (Autobiography:Hindi), New Delhi. n.d.
  • Autobiography (English Translation), Edited by M. R. Jambunathan. Published by Bharatiya Vidya Bhavan, 1961

مزید پڑھیے ترمیم

  • Swami Shraddhanand, by Satyadev Vidyalankar, ed. by Indra Vidyavachaspati. Delhi, 1933.
  • Swami Shraddhanand (Lala Munshi Ram), by Aryapathik Lekh Ram. Jallandhar. 2020 Vik.
  • Swami Shraddhanand, by K.N. Kapur. Arya Pratinidhi Sabha, Jallandhar, 1978.
  • Swami Shraddhanand: His Life and Causes, by J. T. F. Jordens. Published by Oxford University Press, 1981.
  • Section Two:Swami Shraddhanand . Modern Indian Political Thought, by Vishwanath Prasad Varma. Published by Lakshmi Narain Agarwal, 1961. Page 447.
  • Chapt XI: Swami Shraddhanand. Advanced Study in the History of Modern India : 1920–1947. by G. S. Chhabra. Published by Sterling Publishers, 1971. Page 211
  • Pen-portraits and Tributes by Gandhiji: '(Sketches of eminent men and women by Mahatma Gandhi)', by Gandhi, U. S. Mohan Rao. Published by National Book Trust, India, 1969. Page 133
  • Swami Shraddhanand – Indian freedom fighters: struggle for independence. Anmol Publishers, 1996. آئی ایس بی این 81-7488-268-5.
  • Telegram to Swami Shraddhanand, (2 October 1919) – Collected Works, by Gandhi. Published by Publications Division, Ministry of Information and Broadcasting, Govt. of India, 1958. v.16. Page 203.
  • An article on Swami Shraddhanand in "The Legacy of The Punjab" by R M Chopra, 1997, Punjabee Bradree, Calcutta,

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Autobiography http://www.vedpedia.com آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ vedpedia.com (Error: unknown archive URL)
  2. Geraldine Forbes (28 April 1999)۔ Women in Modern India, Volume 4۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 148 
  3. V. V. Nagarkar (1975)۔ Genesis of Pakistan۔ Allied Publishers۔ صفحہ: 164 
  4. ":: Welcome To Khatm-e-Nubuwwat Books Section ::"۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2015 
  5. Fact Check:Mahatma Gandhi did not defend Swami Shraddhanand's killer, viral posts are false  https://newsmeter.in/fact-check/fact-checkmahatma-gandhi-did-not-defend-swami-shraddhanands-killer-viral-posts-are-false-680953
  6. "الجہاد فی الاسلام online"۔ www.rekhta.org 

بیرونی روابط ترمیم