سود (انگریزی: Interest) مالیہ اور معاشیات میں ایک ادائیگی ہے جو ایک قرض دار یا کوئی رقمی جمع بندی کا مالیاتی ادارہ اصل رقم سے بڑھ کر دے (یعنی مقروضہ رقم یا جمع کردہ رقم سے بڑھ کر)۔ یہ سود کی ایک شرح ہوتی ہے جو عمومًا کچھ معینہ فی صد ہوتا ہے۔ یہ رقم اس فیس سے الگ ہوتی ہے جو قرض دار کسی قرض دہندے یا کسی تیسرے فریق کو دیتا ہے۔ یہ اس ڈیویڈنڈ سے بھی الگ ہوتا ہے ایک کمپنی اپنے حصص گیرندوں یا شیئر ہولڈروں کو اپنے مناقع یا محفوظ مال سے دیتی ہے۔ حصص کا حساب حسب وقت ہوتا ہے اور پہلے طے شدہ نہیں ہوتا کیوں کہ حصص اس جوکھم اٹھانے کا صلہ ہے، جس میں محصلہ مالیہ کل سرمایہ سے زیادہ ہوتا ہے۔

سود کی تعریف ترمیم

’’ پس سود کی تعریف یہ قرار پائی ہے کہ قرض میں دیے ہوئے راس المال پر جو رقم مدت کے مقابلے میں شرط اور تعین کے ساتھ لی جائے وہ سود ہے ‘‘( مولانا ابواعلیٰ مودودی) ۔یعنی راس المال پر اضافہ ، اضافہ کا تعین مدت کے لحاظ سے کیے جانا اور معاملہ میں اس کا مشروط ہونا ، یہ تین اجزائے ترکیبی ہیں اور وہ معاملہ قرض جس میں تینوں اجزائ پائے جاتے ہوں وہ ایک سودی معاملہ ہے ۔ مولانا ابواعلیٰ مودودی ؒ نے اس تعریف میں سودی معاملہ کے تعین کے لےے تین شرائط کا تعین کیا ہے اور ان شرائط کے مطابق اگر ایک شرط پوری نہ ہو گی تو وہ سودی معاملہ نہیں ہے ۔ کسی رقم پر نفع یا نقصان کا تعین نہ ہو ، اس میں مدت کاتعین ہو اور معاملے رقم سے مشروط ہو۔اس طرح یہ معاملہ حصص کا ہو جائے گا ۔

سود کی قسمیں ترمیم

سود جدید بینکوں کی جانب سے اپنے کھاتہ داروں، میعادی جمع کنندوں وغیرہ کو دیا جاتا ہے۔ اسی طرح لوگ بینک اور مالی اداروں کو قرض کے بدلے سود دیتے ہیں۔ عام طور سے کسی ملک کا مرکزی بینک نقد کے بہاؤ کو بڑھانے یا گھٹانے کے لیے عام جمع کھاتوں کی شرح سود میں اضافہ یا کمی کرتا ہے۔

ملکی شرح سود کی مثال ترمیم

بینک دولت پاکستان (سٹیٹ بینک) کی طرف سے ملک میں شرحِ سود میں اضافہ کیا گیا تھا اور مئی 2019ء میں یہ شرح ڈیڑھ فیصد کے اضافے کے ساتھ 12.25 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ یہ غالبًا ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح سود رہی ہے۔ جنوری 2018ء میں یہ شرح 6 فیصد تھی۔ تاہم صورت حال میں بڑا فرق جولائی 2018ء میں اس وقت آیا جب پاکستان میں عام انتخابات ہوئے اور اس دوران یہ شرح سات فیصد سے کم متعین کی گئی تھی۔مگر انتخابات کے بعد جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے، شرحِ سود میں مسلسل اور زیادہ اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی مختلف وجوہ میں ایک یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند مہینوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیے کی قیمت گر رہی ہے اور اس وقت یہ 150 روپے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے جو اس کی تاریخی اونچی ترین سطح ہے۔ اس سے ملک میں درآمد برآمد کا توازن بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ پاکستان میں اندر لائی جانی والی اشیا مہنگی ہو رہی ہیں۔دوسری جانب حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں جتنے یہ خرچ رہی ہے، مثلاً بڑھتے ہوئے قرضوں کو سود سمیت چکانے میں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر کسی حکومت کا مالیاتی خسارہ تین سے چار فیصد ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں بلکہ اس اضافی پیسے کو معیشت میں مثبت طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔[1] اس سلسلے میں بینک شرح سود میں اضافہ ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم