سونا دو پیسے لو

بھارت حکومت کی اسکیم

سونا دو پیسے لو (Gold Monetisation Scheme) بھارتی حکومت کی ایک اسکیم کا نام ہے جسے مودی سرکار نے 5 نومبر، 2015ء سے شروع کی ہے۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بھارتی عوام کے پاس لگ بھگ 23 ہزار ٹن (یعنی 200 کروڑ تولے) سونا گھروں اور مندروں میں موجود ہے جس کی مالیت 920 ارب ڈالر ہے۔[1] دنیا کے کسی اور ملک کے پاس اتنا سونا موجود نہیں ہے۔ بھارتی حکومت اس سونے کو بینکنگ سیکٹر میں لانا چاہتی ہے ۔[2]

بھارتی حکومت مندروں کا سونا ضبط کرنا چاہتی ہے۔

حکومت ہند نے عوام کو ترغیب دی ہے کہ اپنا سونا بینک میں جمع کر دیں۔ اس پر انھیں 2.25 یا 2.5 فیصد تک سود بھی ملے گا۔ (5 سے 7 سالہ اسکیم پر 2.25 فیصد اور 12 سے 15 سالہ اسکیم پر 2.5 فیصد)۔ مدت پوری ہونے پر سونا واپس نہیں دیا جائے گا بلکہ پیسے اور سود واپس کیا جائے گا یعنی عوام اپنا سونا ہمیشہ کے لیے گنوا دیں گے۔ ایک مہینے میں صرف 35 تولے سونا اس اسکیم کے ذریعہ عوام سے بٹورا جا سکا۔

1999ء میں بھی حکومت نے Gold Deposit Scheme شروع کی تھی جو بُری طرح ناکام رہی تھی۔

ہندوستان ہر سال بہت بڑی مقدار میں سونا امپورٹ کرتا ہے۔ مالی سال 2014ء - 2015ء کے دوران ہندوستان نے 34 ارب ڈالر کا سونا امپورٹ کیا۔[3]

چندرا گپتا کے زمانے کا سونے کا سکہ
1841 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاری کردہ گولڈ مہر۔ اس پر فارسی میں ایک اشرفی لکھا ہے۔ جب انگریز ہندوستان میں آیا تھا تو سونا ہندوستانیوں کے پاس تھا اور کاغذی کرنسی انگریزوں کے پاس تھی۔ جب انگریز یہاں سے گیا تو سونا انگریزوں کے پاس تھا اور کاغذی کرنسی ہندوستانیوں کے پاس تھی۔

عوامی رد عمل ترمیم

بھارتی عوام تاریخ کے تلخ تجربات کے بعد یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سونے کا بینک میں داخلہ تو ہمیشہ بہت آسان رہا ہے مگر اس کی واپسی ہمیشہ بہت ہی مشکل یا بالکل ناممکن رہی ہے۔[4] ریزرو بینک آف انڈیا بھارتی حکومت کے ماتحت نہیں [5][6] بلکہ ایک نجی ادارہ ہے جو آئی ایم ایف کے ماتحت ہے۔
اکنومک افیئر کے سیکریٹری شکتی کانتا داس اور ریزرو بینک کے نمائندوں کے درمیان ہونے والی ایک میٹنگ میں ایک افسر نے واضح طور پر بتایا کہ میں اپنی بیوی تک کو زیور بینک میں جمع کروانے پر راضی نہیں کر سکا حالانکہ وہ شاذ و نادر ہی اُسے استعمال کرتی ہے۔[7]
پچھلے 50 سالوں میں سونے کی قیمت 33 گنا بڑھ چکی ہے جبکہ اس دوران اسٹاک (شیئر) میں اضافہ صرف 21 گنا ہوا۔[8]

مودی سرکار کی یہ اسکیم بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔

سونا اور امریکا ترمیم

ریاستہائے متحدہ امریکا نے 1873ء میں قانون بنایا تھا کہ کاغذی نوٹ کے بدلے مقررہ مقدار میں سونا دیا جائے گا جس پر لوگوں نے سونے کے سکوں کی بجائے کاغذی کرنسی استعمال کرنا شروع کر دی۔ لیکن جب سونا مہنگا ہونے لگا اور لوگوں نے حکومت سے کاغذی کرنسی کے بدلے سونا واپس لینا چاہا تو امریکی صدر روزویلٹ نے (جو ایک بینکار خاندان سے تعلق رکھتا تھا) 1933ء میں ایک نیا قانون بنایا اور اپنے عوام کا سونا ضبط کر لیا (بحساب 20 کاغذی ڈالر فی اونس)۔ اگلے سال سلور پرچیز ایکٹ بنا کر چاندی بھی ضبط کر لی گئی اور چاندی کے مالکان کو بدلے میں امریکی حکومت نے "سلور سرٹیفیکٹ" جاری کیے لیکن 1968 میں حکومت ان سرٹیفیکٹ کے بدلے چاندی واپس دینے کے وعدے سے بھی مُکر گئی۔
31 دسمبر، 1974ء کو امریکیوں کو سونا رکھنے کی اجازت دوبارہ دے دی گئی۔[9]

امریکا نے 1944ء میں بریٹن اوڈز کے معاہدے میں دنیا بھر کے ممالک سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 35 کاغذی ڈالر کے بدلے ایک اونس خالص سونا دے گا۔ مگر 15 اگست 1971ء کو امریکا نے اپنا وعدہ توڑ دیا جسے نکسن شاک کہا جاتا ہے۔

 
امریکی حکومت نے 1934ء میں ایک لاکھ ڈالر کی مالیت کا گولڈ سرٹیفیکٹ جاری کیا تھا لیکن اس کے بدلے سونا واپس نہیں کیا۔

سونا اور جنوبی کوریا ترمیم

نومبر 1997ء میں جنوبی کوریا آئی ایم ایف کے قرضوں کے جال میں بُری طرح پھنس چکا تھا۔ جنوری 1998ء میں حکومت نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنا سونا حکومت کو دے دیں تاکہ قرض اتارا جا سکے۔ عوام کا رد عمل نہایت مثبت رہا اور چند مہینوں میں 227 ٹن سونا حکومت کو مل گیا جس کی مالیت 3 ارب ڈالر تھی۔ تین سال میں حکومت نے آئی ایم ایف کا قرضہ اتار دیا۔[10] نوے سال پہلے جب جنوبی کوریا جاپانی کالونی تھا، اس وقت بھی کوریائی عوام نے اسی طرح سونا جاپان کو ادا کیا تھا۔

آئی ایم ایف کبھی بھی قرضہ سونے کی صورت میں نہیں دیتا بلکہ کاغذی کرنسی کی شکل میں دیتا ہے۔ لیکن قرض کی وصولی کے لیے سونا بخوشی قبول کر لیتا ہے۔
یہ پروگرام اگرچہ جنوبی کوریا کے عوام کی حب الوطنی کے جذبات کو ابھار کر شروع کیا گیا تھا مگر نتیجے میں ان کا سارا سونا آئی ایم ایف کے ہاتھ لگ گیا۔[11] صرف 25 سال بعد جنوبی کوریا دوبارہ 1500 ارب ڈالر کے قرض کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ OECD ممالک میں جنوبی کوریا میں شرح خودکشی سب سے زیادہ ہے۔[12]

سونا اور نیدرلینڈ ترمیم

یکم اپریل 2013ء کو سب سے بڑے ڈچ بینک ABN AMRO نے جو یورو زون کا سب سے بڑا بینک ہے، خلاف توقع اعلان کیا کہ اس کے جن گاہکوں نے اس بینک سے سونا خرید کر بینک کی تحویل میں رکھا تھا، انھیں اب سونے کی بجائے پیسے دیے جائیں گے اور سونا نہیں دیا جائے گا۔ یہ بینک نیدر لینڈ کی حکومت کی ملکیت میں ہے اور وہی اسے چلاتی ہے۔ حکومت اس بینک کے 77 فیصد حصص کی مالک ہے۔ خیال رہے کہ پہلی اپریل کو اپریل فول منایا جاتا ہے۔[13][14]
یاد رہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی پہلی اپریل 1935ء سے کاغذی کرنسی جاری کرنا شروع کیا تھا۔

سونا اور جرمنی ترمیم

یکم ستمبر 2016ء کو ڈوئیچے بینک نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کو سونے کی بجائے نقدی دیا کرے گا۔ گاہک بازار سے سونا خرید لیں۔[15] جرمنی کی ایکسٹرا گولڈ (Xetra-Gold) کمپنی 2007 میں شروع ہوئی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ گاہک جب چاہیں ہم سے رسید کے بدلے سونا حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ وعدہ دس سال بھی نہ چل سکا۔

سونا اور ترکی ترمیم

دنیا میں سب سے پہلے ترکی میں سونے کا سکہ بطور کرنسی استعمال ہوا۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ ترکی کے عوام کے پاس 5000 ٹن سونا موجود ہے۔ سن 2011ء سے ترکی کے سینٹرل بینک نے کمرشل بینکوں کے لیے لازمی ریزرو (Reserve Requirement) کی حد بڑھانی شروع کر دی جس کا نصف حصہ سونے کی شکل میں ہونا ضروری تھا۔ اس طرح کمرشل بینکوں کا سونا مفت میں سینٹرل بینک کے ہاتھ آ گیا۔ چونکہ سینٹرل بینک کبھی بھی اپنی پالیسی بدل سکتے ہیں اس لیے سونے کے ماہرین کا خیال ہے کہ زیادہ تر لوگ بینکنگ کے رسک سے ناواقفیت کی وجہ سے اپنے سونے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔[16]
ترکی کی ٹکسال (Mint) دنیا میں سونے کا سکہ بنانے والی سب سے بڑی ٹکسال سمجھی جاتی ہے۔ 2002ء سے 2008ءکے درمیان ترکی کی ٹکسال نے ہر سال اوسطاً 49 ٹن سونے کے سکے بنائے جبکہ اسی عرصے میں امریکی ٹکسال نے اوسطاً 17 ٹن سونے کے سکے سالانہ بنائے۔ ترکی کے بنائے ہوئے سونے کے سکے عام طور پر ترکی سے باہر نہیں جاتے۔[17]

سلیمان اعظم 1520 سے 1566 تک ترکی کے حکمران رہے۔ ان کے 46 سالہ دور حکمرانی میں اشرفی بنانے کے لیے 20 سے زیادہ ٹکسال سلطنت عثمانیہ میں موجود تھیں۔[18]

ترکی کی حکومت بھی مودی سرکار کی طرح عوام سے سونا بٹورنے کی اسکیم لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔[19]

سونا اور پاکستان ترمیم

پاکستان کے پاس لگ بھگ 65 ٹن سونا ہے اور پاکستان پر آئی ایم ایف کا شدید دباؤ ہے کہ یہ سونا بیچ کر کاغذی فورین ریزرو میں اضافہ کیا جائے جبکہ اس وقت زیادہ تر ممالک اپنے سونے کے ذخیرے میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ابھی (2017ء) تک پاکستان اپنا سونا بیچنے پر آمادہ نہیں ہوا ہے۔[20]

اقتباسات ترمیم

  • مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز کا کہنا تھا کہ سونا بین الاقوامی کرنسی ہے۔
  • امریکا کے سب سے بڑے بینکار جے پی مورگن نے 1913ء میں کانگریس میں بیان دیا تھا کہ صرف سونا ہی کرنسی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی کرنسی نہیں ہے۔
  • 1966ء میں ایلن گرین اسپان (جو 1887ء سے 2006ء تک فیڈرل ریزرو کا چیرمین رہا تھا) نے لکھا تھا کہ “تجارتی خسارے کے باوجود اخراجات میں اضافہ ہونا دراصل دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنا ہے۔ سونا اس خفیہ طریقہ کار کے آڑے آتا ہے“ ۔
"Deficit spending is simply a scheme for the confiscation of wealth. Gold stands in the way of this insidious process. It stands as a protector of property rights."
ایک دوسرے بیان میں اُس نے کہا تھا کہ سونے کی غیر موجودگی میں دولت کو افراط زر کے نقصانات سے بچانے کا کوئی بھی طریقہ ممکن نہیں۔
In the absence of the gold standard, there is no way to protect savings [i.e. wealth] from confiscation through inflation. There is no safe store of value.[21]
  • امریکی فیڈرل ریزرو کے بارہویں اور مشہور چیرمین مسٹر ووکر (Mr. Volcker) نے کہا تھا کہ "سونا میرا دشمن ہے اور میں ہمیشہ نظر رکھتا ہوں کہ میرا دشمن کیا کر رہا ہے۔[22][23]
مسٹر ووکر 1979ء سے 1987ء تک فیڈرل ریزرو کا چیرمین رہا تھا اور 1980ء میں سونے کی تیزی سے بڑھتی ہوتی ہوئی قیمتوں کو لگام دینے میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔
  • "سونا سچ بولتا ہے اس لیے یہ ان لوگوں کا دشمن ہے جو اپنے عوام کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔"
Gold tells the truth so it is an enemy of those who wish to deceive their populations.
  • "اگر سونے کی ہتھکڑی ہٹ جائے تو کاغذی کرنسی بس چھاپتے جاو اور لوٹتے جاو۔"
Remove the Golden Handcuffs, and then paper currency is just print-and-steal.[24]
  • Christopher Powell نے اکتوبر 2013ء میں سڈنی میں کہا تھا:
"چونکہ سونا ملکی کرنسی کا مقابلہ کرتا ہے اور اگر اسے فری مارکیٹ میں کام کرنے دیا جائے تو یہ دوسری کرنسیوں کی قیمت، شرح سود اور حکومت کے بونڈز کی قیمت طے کر دے گا۔ اس لیے مرکزی بینک سونے کی قیمت گراتے ہیں تاکہ وہ اپنی کرنسی اور بونڈز کو بچا سکیں۔"
"It is because gold is a competitive national currency that, if allowed to function in a free market, will determine the value of other currencies, the level of interest rates and the value of government bonds." He continued: "Hence, central banks fight gold to defend their currencies and their bonds."[25]
  • عوام کا سونا خریدنا عالمی مالیاتی نظام کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔[26] 1960 کی دہائی میں جب یورپی ممالک عالمی مالیاتی نظام سے خوش نہیں تھے تو انھوں نے سونا خریدنا شروع کر دیا تھا جس پر امریکا کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور بریٹن اووڈز سسٹم توڑنا پڑا۔ چین کو بھی جب ایس ڈی آر میں شامل نہیں کیا گیا تھا تو اس نے بڑی مقدار میں سونا خریدنا شروع کر دیا تھا جس پر آئی ایم ایف نے گٹھنے ٹیک دیے اور چین کی کرنسی کو اکتوبر 2016ء سے ایس ڈی آر میں شامل کر لیا ہے جس کے بعد چین نے سرکاری سطح پر سونا خریدنا بند کر دیا۔
gold is essentially a protest vote against the global financial system
  • انگریزی کہاوت ہے کہ جو سونے کا مالک ہوتا ہے وہی قانون بناتا ہے۔ (he who owns the gold make the rules) اور جو قانون بناتا ہے وہی اصل حکمران ہوتا ہے۔ اور اسی وجہ سے چین اور روس بڑی مقدار میں سونا خرید رہے ہیں۔
  • تمھاری حکومت تمھاری دولت اور بھلائی کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کے ذریعے لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ڈوبتے جہاز میں ہی بیٹھے رہیں۔
Your government is by far the most serious threat to your money and wellbeing.....In effect, currency controls force people to stay with a sinking ship.[27]

مزید دیکھیے ترمیم

بیرونی ربط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. The Indian Gold Market
  2. بھارتی عوام کے لیے وارننگ۔ تمھاری حکومت تمھارا سونا چھیننا چاہتی ہے –
  3. پاکستان میں سونے کی قیمتیں
  4. history tells us that bankers will always commit fraud under these circumstances.
  5. The Mystery of the One Bank: its Owners? - the Rothschilds.
  6. Do the Rothschilds own the RBI?
  7. ہندوستان ٹائمز
  8. The Truth About Gold As an Investment
  9. "سونے کی تاریخ" (PDF)۔ nma۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  10. Koreans' gold donations
  11. “Collect Gold for the Love of Korea” or“Collect Gold for the Love of Bankers”
  12. South Korea, where household debt is among the highest in the world
  13. Largest Dutch bank defaults on physical gold deliveries to customers[مردہ ربط]
  14. Did ABN AMRO Default On Its Gold Obligations?
  15. Deutsche Bank Refuses Delivery Of Physical Gold Upon Demand
  16. Koos Jansen
  17. The Largest Gold Mints Of The World
  18. http://www.britishmuseum.org/explore/highlights/highlight_objects/cm/g/gold_ashrafi_coin_of_süleyman.aspx
  19. Turkey To "Confiscate" Gold "To Help Citizens Earn Money"
  20. اپنا سونا ہمیں بیچ دو۔ آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ
  21. Greenspan Warns Stagflation Like 1970s “Not Good For Asset Prices”[مردہ ربط]
  22. "فیڈ چیرمین کا بیان کہ سونا سینٹرل بینکوں کا دشمن ہے۔"۔ 15 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2015 
  23. Ian Gordon (March 10, 2014)۔ "The Death Of Paper Money" (بزبان انگریزی)۔ Gold Eagle 
  24. The Great Divide: the Death of the Middle Class
  25. real versus "pseudo gold"
  26. CNN Money/
  27. Casey Research’s Handbook for Surviving the Coming Financial Crisis.