سری بہلول، سحرِ بہلول یا سحری بہلول ، آثار قدیمہ کا مقام ہے جو تخت بہلول کے قریب، ضلع مردان میں، پشاور ، خیبر پختونخواہ ، پاکستان کے شمال مغرب میں تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیری بہلول ایک تاریخی مقام ہے اور اسے 1980ء سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔ سیری بہلول کے کھنڈر ایک چھوٹے سے قدیم قلعہ بند قصبے کی باقیات ہیں جو کشان دور میں تعمیر کیے گئے تھے۔ [1] [2] [3]اس میں بدھا کی باقیات ہیں۔جن میں قدیم چیزیں جیسے مجسمے، سکے، برتن اور زیورات پائے جاتے ہیں۔[4]لفظ "سیری بہلول" کی وضاحت مختلف لوگوں نے مختلف طریقوں سے کی ہے۔ تاہم مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ ہندی کے دو الفاظ "شیری" کا مجموعہ ہے جس کا مطلب ہے سر اور "بہلول" علاقے کے ایک ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما کا نام تھا۔ یہ گاؤں ایک پہاڑی پر واقع ہے جو پتھر کی دیوار سے محفوظ ہے اور کوشانوں کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ دیوار کو کئی جگہ سے نقصان پہنچا ہے لیکن کئی جگہوں پر یہ اب بھی نظر آرہی ہے۔[5]

تخت بھائی کے کھنڈر اور قریبی شہر سحرِ بہلول کی باقیات
UNESCO World Heritage Site
اہلیتثقافتی: iv
حوالہ140
کندہ کاری1980 (چوتھا دور)

نگار خانہ ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "Buddhist Ruins of Takht-i-Bahi and Neighbouring City Remains at Sahr-i-Bahlol"۔ Unesco۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2021 
  2. Adesh Katariya (2012)۔ The Glorious History of Kushana Empire: Kushana Gurjar History۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 دسمبر 2017 
  3. Conserving Fortified Heritage: The Proceedings of the 1st International Conference on Fortifications and World Heritage۔ Cambridge Scholars Publishing۔ 2016۔ ISBN 9781443896375۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 دسمبر 2017 
  4. Hassan Dani, Dr: The Peshawar
  5. "Buddhist Ruins of Takht-i-Bahi and Neighbouring City Remains at Sahr-i-Bahlol"۔ Unesco۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2021 
  6. Juhyung Rhi۔ Identifying Several Visual Types of Gandharan Buddha Images. Archives of Asian Art 58 (2008). (بزبان انگریزی)۔ صفحہ: 53–56 
  7. University of Oxford The Classical Art Research Centre (2018)۔ Problems of Chronology in Gandhāran Art: Proceedings of the First International Workshop of the Gandhāra Connections Project, University of Oxford, 23rd-24th March, 2017۔ Archaeopress۔ صفحہ: 45, notes 28, 29 
  8. Gérard Fussman (1974)۔ "Documents Epigraphiques Kouchans"۔ Bulletin de l'École française d'Extrême-Orient۔ 61: 54–57۔ ISSN 0336-1519۔ JSTOR 43732476۔ doi:10.3406/befeo.1974.5193