شاکر شجاع آبادی

یہ مضمون ملتان، پاکستان کے ایک مقبول شاعر کے بارے میں ہے۔

شاکر شجاع آبادی پاکستان کے عظیم و قدیم شہر مدینہ الاولیاء ملتان شریف کی تحصیل شجاع آباد سے تعلق رکھنے والے سرائیکی زبان کے مشہور اور ہر دل عزیز شاعر ہیں۔

شاکر شجاع آبادی

معلومات شخصیت
پیدائش 25 فروری 1953ء (71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملتان، پنجاب، پاکستان
شہریت پاکستان
مذہب اسلام
زوجہ شبنم شاکر (1991–تاحال)
اولاد 3
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سرائیکی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت شاعر

نام ترمیم

ان کا اصل نام محمد شفیع ہے اور تخلص شاکرؔ ہے، شجاع آباد کی نسبت سے شاکر شجاع آبادی مشہور ہے۔ان کی ذات سیال ہے۔

ولادت ترمیم

شاکر شجاع آبادی کی پیدائش 25 فروری 1953ء کو شجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گاوٗں راجہ رام میں ہوئی جو ملتان سے ستر 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

شاعری ترمیم

گذشتہ کئی سالوں سے وہ سرائیکی کے مظلوم عوام کے دلوں کی آواز بنے ہوئے ہیں۔ وہ خود بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں لیکن انھوں نے سرائیکی عوام کی محرومیوں کو اجاگر کر کے ان کو جذبات کی عکاسی کے لیے زبان دی ہے۔ وہ 1986 سے باقاعدہ شاعری کر رہے ہیں۔ نصابی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ کتابیں نہیں پڑھ سکے۔۔ ان کا شاعری سے متعلق تمام علم ریڈیو پروگراموں کا مرہون منت ہے۔ غلام فرید اور وارث شاہ کو انھوں نے بہت سنا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘میرا مسئلہ صرف سرائیکی وسیب نہیں ہے بلکہ میں پوری دنیا کے مظلوم لوگوں کی بات کرتا ہوں چاہے کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو۔’’ 1994 تک بول سکتے تھے۔۔ اس کے بعد فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث ٹھیک طور پر بولنے سے قاصر ہیں اور ان کا پوتا ان کی ترجمانی کرتا رہا۔

اعزازات ترمیم

وہ عصرِ حاضر میں سرائیکی زبان کے نمائندہ شاعر ہیں۔حکومت پاکستان کی طرف سے اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے 14 اگست 2006ء میں انھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی ملا۔ 2017ء میں بھی انھیں صدارتی تمغا حسن کارکردگی سے نوازا گیا ، 14 اگست 2022ء کو ستارہ امتیاز سے نوازے گئے،

مالی امداد ترمیم

شاکر شجاع آبادی عرصہ دراز سے مرض میں مبتلا ہہیں جس کی وجہ سے وہ معذوری کا شکار ہیں، اس سلسلے میں ان کی مالی معاونت ہوتی رہی ہے، آغر ندیم سحر لکھتے ہیں ، شاکر شجاع آبادی کو امداد کے نام پر اس سے قبل لاکھوں روپے کی رقم دی جا چکی ’یہ رقم چیکس کی صورت میں ان کے بیٹوں کو دی گئی جس کا ریکارڈ (چیکس نمبرز سمیت ) دو روز قبل انفارمیشن اینڈ کلچر ڈیپارٹمنٹ کے ایک معتبر افسر نے میرے سامنے رکھ دیا۔ میں جب دو روز قبل یہ ریکارڈ پڑھ رہا تھا‘ عین اسی وقت ہمارے صوبائی وزیر تین لاکھ کا چیک دینے شاکر شجاع آبادی کے پاس پہنچ رہے تھے۔ جہانگیر ترین ملاقات کو پہنچے ’انھوں نے پانچ لاکھ نقد اور پچاس ہزار ماہانہ وظیفے کا اعلان کیا۔ ابھی سوشل میڈیا پر جہانگیر ترین کی تعریفیں جاری تھیں کہ حکومت پنجاب نے تین لاکھ کے ساتھ شاکر شجاع آبادی کے لیے ماہانہ چھتیس ہزار وظیفے کا اعلان کر دیا۔ حکومت پنجاب کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی شاکر ہاؤس پہنچے اور دس لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔

یہ تو وہ امداد ہے جو گذشتہ دو دروز میں شاکر شجاع آبادی کو دی گئی مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا‘ ہمیں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا تاکہ اصل معاملے تک پہنچا جا سکے۔ 15 فروری 2017 ء کو حکومت نے شاکر شجاع آبادی کے لیے دو لاکھ روپے کا چیک بھجوایا ’جس کا چیک نمبر: 704870 تھا‘ 29 مئی 2017ء کو حکومت نے دوبارہ ایک لاکھ روپے کا چیک بھیجا ’جس کا چیک نمبر: 716686 تھا۔ 11 جنوری 2019 ء کو حکومت نے ایک دفعہ پھر شاکر شجاع آبادی کو تین لاکھ کا چیک بھجوایا‘ چیک نمبر: 857089 تھا ’اسی دوران (2018 ء) ڈپٹی کمشنر لاہور نے بھی خصوصی دل چسپی لیتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب کی اجازت سے شاکر شجاع آبادی کو علاج کے لیے پانچ لاکھ کا امدادی چیک بھجوایا۔

2 جنوری 2020 ء میں ایک دفعہ پھر شاکر شجاع آبادی کو تیس ہزار کی رقم بھیجی گئی جس کا چیک نمبر: A 045753 تھا۔ 27 ستمبر 2021 ء کو آرٹسٹ فنڈ کے نام پر ایک دفعہ پھر شاکر صاحب کو نوے ہزار کا چیک بھیجا گیا جس کا نمبر:A 224582 تھا۔ اس کے علاوہ ایک سال قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگویجز آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی جانب سے ”پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ“ کے موقع پر بھی سرائیکی وسیب کے اس اکلوتے ہیرو کو تین لاکھ کا امدادی چیک دیا گیا۔

اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے بھی ان کو پانچ لاکھ کا امدادی چیک دیا گیا اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جا رہا ہے جو تقریباً پندرہ یا بیس ہزار بنتا ہے۔ وسیب کے یہ پہلے ہیرو ہیں جنھیں ایک نہیں بلکہ دو دفعہ ”پرائڈ آف پرفارمنس“ اور دس لاکھ روپے دیے گئے۔ مزید معلومات کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور میں شاکر شجاع آبادی کے لیے چودہ لاکھ روپے کی امدادی رقم منظور ہوئی‘ شہباز شریف نے بیس لاکھ روپے سے ان کا اکاؤنٹ کھلوانے کا اعلان کیا تھا جس کا ماہانہ منافع ان کو ملتا ہے۔ پنجاب حکومت نے پہلے بھی اور اب بھی ان کے علاج کے لیے تاحیات سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک ریاض سمیت دنیا بھر سے این جی اوز اور سرائیکی وسیب سے محبت کرنے والے محیر حضرات جو مدد کرتے ہیں ’ان کی تفصیل الگ ہے۔[1]

تصنیفات ترمیم

  • لہو دا عرق
  • پیلے پتر
  • بلدین ہنجو
  • منافقاں تو خدا بچاوے
  • روسیں تو ڈھاڑیں مار مار کے
  • گلاب سارے تمھیں مبارک
  • کلامِ شاکر
  • خدا جانے
  • شاکر دیاں غزلاں
  • شاکر دے دوہڑے

منتخب کلام ترمیم

کیہندے کتّے کھیر پیون کیہندے بچّے بھکھ مرن

رزق دی تقسیم تے ہک وار ول کجھ غور کر غیر مسلم ہے اگر مظلوم کوں تاں چھوڑ دے اے جہنمی فیصلہ نہ کر اٹل کجھ غور کر

72 حور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گھنسوں

71 حور دے بدلے اساں کوں رج کے روٹی دے

دل ساڈا شاکر شیشے دا

ارمان لوہار دے ہتھ آ گئے

"اتہاں کہیں کو ناز اداواں دا"

"اتہاں کہیں کو نا ز وفاواں دا"

"آسا پیلے پتر درختاں دے"

"ساہکوں راہند ے خو ف ہواواں دا"

"ساکوں بال کے شاکر ہتھ سیکیں"

اساں راہ دے ککھ تیڈے کم اسوں"

کمزوری اے شاکر بندیاں دی "

انجے خون دا ناں بدنام اے

(( میڈے دل وچ جھاتی پا شاکر ہک توں لبھسیں بیا مونجھ تیری))

متحرک اشعار ترمیم

نجومی نہ ڈراوے دے اساکوں بدنصیبی دے

جڈاں ہتہاں تے چھالے تھیے لکیراں خود بدل ویسن

تو محنت کر محنت دا صلہ جانڑے خدا جانڑے

تو بیوا بال کے رکھ چھوڑ ہوا جانڑے خدا جانڑے

محرومی ترمیم

ظہور دھریجہ [2]

پرانی بات ہے میرا ایک مضمون ’’شاکر شجاع آبادی محروم ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ، میرے بھائی ایوب دھریجہ (مرحوم) کے ساتھ بیٹھے دوست نے اس مضمون کے عنوان کو دیکھا تو فوراً بولے کہ شاکر شجاع آبادی بہت بڑا شاعر تھا لیکن دھریجہ صاحب بھول گئے ان کو محروم نہیں بلکہ مرحوم لکھنا چاہیے تھا ، میرے بھائی نے ہنس کر اُن کو کہاکہ شاکر شجاع آبادی زندہ ہیں وہ فوت نہیں ہوئے اس مضمون میں شاکر شجاع آبادی کو محروم اس لیے لکھا گیا ہے کہ اتنے بڑے شاعر کو نہ صرف حکومت بلکہ سب نے محروم رکھا ۔

میںنے لکھا کہ بلا شبہ شاکر شجاع آبادی ایک عہد کا بہت بڑا شاعر ہے ، حکومتی کوتاہیاں اپنی جگہ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے شاکر شجاع آبادی سے کیا سلوک کیا ؟ یونیورسٹیوں میں سرائیکی تعلیم کے لیے سرائیکی نصاب منظور ہوا تو ہمارے سرائیکی ماہرین تعلیم نے شاکر شجاع آبادی کو نظر انداز کیا ، کالجوں کے لیے ایف اے بی ایڈ کے نصاب منظور ہوئے تو ہمارے ہی ماہرین تعلیم نے شاکر شجاع آبادی کو محروم رکھا اور بات تنقید کی نہیں مگر نصاب میں بہت سے ایسے اہل قلم شامل ہیں جن کا نصاب میں شامل ہونے کا میرٹ نہیں بنتااور وہ شاکر کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے،یہ سب کچھ اقربا پروری کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ ہر حکومت کا سب سے بڑا ناقد میں خود ہوں ، مگر جب میں اس معاملے کو دیکھتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ نصاب بنانے والے تو ہمارے اپنے ہیںمیں کس بنا پر اس معاملے کی حکومت سے تنقید کروں یا غیروں کو دوش دوں؟اسی طرح اکادمی ادبیات کی طرف سے ہر سال کتابوں پر انعام ملتا ہے ، طریقہ کار یا ہے کہ اکادمی ادبیات ہر زبان کے انعام کے لیے ادیبوں، شاعروں ،دانشوروں میں سے سرائیکی جج مقرر کرتی ہے ۔

کتنے دکھ کی بات ہے کہ اکادمی ادبیات کی طرف سے شاکر شجاع آبادی کی کتاب کو انعام نہیںلینے دیا گیا ، نہیں لینے دیا گیا کا جملہ میں نے اس بنا پر استعمال کیا ہے کہ قصوراکادمی کا نہیں سرائیکی ججوں کا ہے کہ شاعری کی جن کتابوں کو انعام ملے وہ شاکر شجاع آبادی کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھے۔شاکر شجاع آبادی کے ساتھ عظیم شاعر احمد خان طارق کی بھی کسی کتاب کو انعام نہیں دیا گیا۔یہاں بھی ہمارے منصفوں نے انصاف نہیں کیا۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ انصاف کا قتل کیا۔ سرائیکی کتابوں کا رزلٹ آتا رہا ا س کے قصور وار بھی فیصلہ دینے والے جج ہی تھے ، اقربا پروری کے ساتھ ساتھ ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ سب لوگ شاکر شجاع آبادی اور احمد خان طارق کی شہرت اور ان کی شعری عظمت سے حسد کرتے تھے۔حسد کی بات آئی ہے تو میں نے یہ بھی دیکھا کہ شاکر شجاع آبادی جب بھی کسی مشاعرے کے لیے آتے تو مجمع کھڑے ہوکر استقبال کرتا اور ہمارے دوسرے شعرا کرام شاکر شجاع آبادی سے دعا سلام کرنا بھی گوارا نہ کرتے۔اور حسب معمول شاکر شجاع آبادی کو سب سے آخر میں پڑھایا جاتا۔اس وقت تک تمام شعرا کرام مشاعرے سے اٹھ کر چلے جاتے۔حالانکہ شاکر شجاع آبادی نے ذاتی طور پر کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔صرف پیشہ وارانہ حسد کے سوا کچھ بھی نہ تھا ۔

شاکرشجاع آبادی کی ایک محرومی یہ بھی ہے کہ ان کے فن اور شخصیت پر کوئی کام نہیں ہوا ، کسی یونیورسٹی نے کوئی کام نہیں کرایا حالانکہ یونیورسٹیوں کی طرف سے ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی تھیسس طالب علموں سے لکھوائے جاتے ہیں۔شاکر کے مقابلے میں ایسے ایسے شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں پر تھیسس لکھوائے گئے جو شرمندگی کا باعث ہیں۔یہاں بھی شاکر شجاع آبادی کی محرومی سامنے آئی ، جب سرائیکی کے نصاب بن رہے تھے تو میں نے نصاب کمیٹی میں شامل چند ایک دوستوں کی توجہ دلائی تو انھوں نے کہاکہ شاکر اس معیار کا شاعر نہیں ہے کہ اُسے نصاب میں شامل کیا جائے۔ میں نے نصاب میں شامل کچھ مجوزہ ناموں کا نام لیا اور کہاکہ کیا شاکر شجاع آبادی ان سے بھی کمتر ہے تو انھوں نے کہاکہ وہ تو اپنے تعلق کی بنا پر آ گئے ہیں میں نے کہایہی تو رونا رو رہے ہیں کہ میرٹ کو نہیں کیا ہم اپنے بچوں کو جھوٹ پڑھا کربہتر قوم تیار کرسکتے ہیں؟یہی معاملہ یونیورسٹیوں کی طرف سے دی گئی تحقیق کا ہے۔اب بتائے کہ اس معاملے میں ہم کس کو قصور وار ٹھہرائیں ؟

یہ بھی حقیقت ہے کہ شاکر شجاع آبادی کا کلام سب سے زیادہ سنا گیا اور زیادہ پڑھا گیا اس نے ہزاروں کے اجتماع کو بھی اپنا کلام سنا کر بھرپور داد حاصل کی کوریج اخبارات میں شائع ہوئی ۔ شاکر شجاع آبادی نمایاں طور پر سامنے آئے اور اخبارات میں کچھ مگر آج میں دیکھ رہا ہوں مجھے سرائیکی رسالوں میں بھی شاکر شجاع آبادی پر مضامین دیکھنے کو نہیں ملے۔سرائیکی رسالہ ’’وسوں ویہڑے‘‘ پارت ‘‘ سُنجانْ‘‘ فرید رنگ ‘‘ سرائیکی ادب ‘‘ اور کچھ دیگر بھی ہیں ، ہو سکتا ہے کسی شمارے میں کوئی مضمون شائع ہوا ہو لیکن میری لائبریری جو دستیاب رسالے ہیں ان میں مجھے کوئی مضمون دیکھنے کو نہیں ملا۔ سرائیکی کے دو اہم ترین رسالے ’’سچار ‘‘اور ’’سوجھلا‘‘ جب شائع ہوتے تھے تو اس وقت شاکر شجاع آبادی شاعری شروع کر چکے تھے ان میں بھی مجھے کوئی مضمون دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ شاکر شجاع آبادی اپنی طبعی حالات کی وجہ سے نہ تو کوئی اپنا گروہ پیدا کر سکا ہے اور نہ ہی ستائش باہمی کی انجمن ، اسی بنا پر وہ محروم رہا۔البتہ میں نہ بھی کہوں تو یہ حقیقت ہے کہ سرائیکی اخبار ڈٖینھوار‘’’جھوک‘‘ سے مجھے بہت مدد ملی ہے ۔

محرومی کیا ہے ؟ سرائیکی میں محرومی کے بارے میں ایک کہاوت ہے کہ ’’وانجھ تے متھاجی ڈٖو مونہاں نانگ تے سو پیرڑی بلا ہے ‘‘یعنی محرومی اور متھاجی دو منہ والا سانپ ایک سو پائوں والی بلا ہے۔مطلب یہ کہ محرومی کے سینکڑوں روپ ہے۔محرومی صرف اس بات کا نام نہیں کہ انسان غریب ، تنگدست یا محتاج ہے بلکہ محرومی ایک وسیع مفہوم کا نام ہے۔جسے سمجھنے کے لیے شاکر شجاع آبادی کی شخصی زندگی کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔

یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ شاکر شجاع آبادی کے بہت سے مجموعے شائع ہوئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اِن میں ایک بھی اس قابل نہ تھا جس کو اکادمی ادبیات یاکسی دوسرے ادار ے سے ایوارڈ مل سکے ؟نہیں ایسا قطعاً نہیں ہے ، شاکر شجاع آبادی اپنے وقت کا بڑا سرائیکی شاعر ہے اور شاعر اعظم کا لقب اُسے ملا ہوا ہے ، اُن کی تمام کتابیں جن میں کلام شاکر، شاکر دے ڈٖوہڑے، پیلے پتر، پتھر موم، لہو دا عرق، شعر شاکردے ، خدا جانے، پتہ لگ ویندے، شاکر دیاں غزلاں، شاکر دے گیت،ملدے خدا مدینے وغیرہ بذات خود ایوارڈ ہیں ، شاکر شجاع آبادی واحد شاعر ہیں جن کی کتابوں کو سرائیکی وسیب کے علاوہ لاہور ، اسلام آباد ،کراچی و دیگر شہروں کے پبلشرز نے بھی شائع کیا ، تمام پبلشرز کی فہرست اس بنا پر دستیاب نہیں کہ شاکر شجاع آبادی کے فن اور شخصیت پر تحقیقی کام نہیں ہوا ، البتہ جو چھوٹی موٹی فہرست سامنے آ سکی ہے اُن کے مطابق دلنور سرائیکی پبلی کیشن نور پور نورنگا۔ جھوک پبلشرز ملتان ، خان پبلشرز بند روڈ لاہور ، فیضان اکیڈمی اُردو بازار لاہور ، منصور بک ڈپو نیا بازار لاہور ، فائن آرٹ صدر کراچی، مخدوم پبلشرز ملتان، الاخوان کتاب گھر ملتان، شاکر شجاع آبادی کتاب گھر ملتان ، غلام جیلانی پوسٹرز ملتان اس کے علاوہ بھی بہت سے نام ہیں جو شاکر شجاع آبادی کی زندگی کے بارے میں ایک تحقیقی کتاب کے بعد سامنے آ سکیں گے۔میں پھر کہوں گا کہ یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے شاکر شجاع آبادی کی زندگی پر تحقیق نہ کر کے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ شاکر شجاع آبادی ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے اور میں یہ بھی کہوں گا کہ جو ادارے شاکر شجاع آبادی سے تعصب کرتے ہوئے ان کے کام اور ان کے نام کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں ، شاکر شجاع آبادی سورج کی طرح ایک روشن حقیقت ہے جسے پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا۔اب بھی ضرورت ہے کہ یونیورسٹیاں تحقیقی کام کریں تاکہ آنے والے وقت میں ملکی اور غیر ملکی ریسرچ سکالروں کو شاکر شجاع آبادی کے بارے میں مواد مل سکے اور تحقیقی کام کرنے والوں کا نام حوالے کے طور پر سامنے آ سکے ۔

بیرونی روابط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. https://www.humsub.com.pk/427698/aaghar-nadeem-sahar-114/
  2. ظہور دھریجہ۔ جھوک