شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین (پیدائش: 1538ء — وفات: 1599ء) ایک صوفی اور پنجابی شاعر تھے جو فقیر لاہور سے معروف ہیں۔

شاہ حسین
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1538ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹکسالی دروازہ،  لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 14 جنوری 1600ء (61–62 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دریائے راوی،  لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن باغبانپورہ  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی ترمیم

شاہ حسین لاہوری 945ھ بمطابق 1539ءمیں ٹکسالی دروازے لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جو کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دادا کا نام کلجس رائے ہندوتھا جو فیروز شاہ تغلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ تھے لیکن والد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔[2] آپ کاخاندانی نام ڈھاڈھا حسین تھا۔ ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی ایک ذات ہے۔ والد شیخ عثمان بافندگی یعنی کپڑے بننے (جولاہا)کے پیشے سے منسلک تھے۔ چنانچہ آپ محلے میں حسین جولاہا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے والد شیخ عثمان ٹکسالی دروازے کے باہر راوی کے کنارے آباد ایک محلے میں رہائش پزیر تھے جو تل بگھ کہلاتا تھا ۔[3]

زندگی ترمیم

شاہ حسین تصوف کے فرقہ ملامتیہ سے تعلق رکھنے والے صاحب کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے، وہ اُس عہد کے نمائندہ ہیں جب شہنشاہ اکبر مسند اقتدار پر متمکن تھا۔ شاہ حسین پنجابی زبان و ادب میں کافی کی صنف کے موجد ہیں۔ وہ پنجابی کے اولین شاعر تھے جنھوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لیے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔ شاہ حسین نے بے مثل پنجابی شاعری کی۔ اُن کی شاعری میں عشق حقیقی کا اظہار ہوتا ہے۔[3]

شاہ حسین اور مادھو ترمیم

اپنی زندگی کے ایک حصے میں شاہ حسین کی مادھو سے ملاقات ہوئی۔ مادھو ایک برہمن زادے تھے۔ ان دو افراد کا تعلق اتنا گہرا ہو گیا کہ عوام شاہ حسین کو مادھو لال حسین کے نام سے جاننے لگے، گویا وہ دونوں یک جان ہو گئے۔ قربت کا یہ گہرا تعلق جو ان کے درمیان میں پیدا ہوا، ان کی زندگی ہی میں بہت سی بدگمانیوں اور اختلافات کا باعث بن گیا۔ ہندوستانی تصوف کے ماہر جان سبحان لکھتے ہیں کہ ایک ہندو لڑکے اور مسلمان فقیر کا یہ انتہائی قریبی تعلق ان کے معاصرین کے نزدیک "قابل شرم" ہونے کی وجہ سے "قابل اعتراض کردار" کا مظہرتھا۔ جبکہ جان سبحان ان دو افراد کی درمیان میں تعلق کی اس "ناقابل صبرکشش" کو "عشق" قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح پنجابی تاریخ دان شفیع عاقل مادھو اور شاہ حسین کے اس تعلق کو "لا محدود محبت" کہتے ہیں اور اس تعلق کو بیان کرنے کے لیے زبان و بیان کے وہی پیرائے اختیار کرتے ہیں جو عام طور پر مرد اور عورت کے تعلق کو بیان کرنے کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ "مادھو سے شاہ حسین کو پیار تھا اور خود مادھو بھی ان کو چاہتے تھے"۔ وہ یہاں تک لکھتے ہیں کہ "شاہ حسین مادھو سے کسی صورت جدا ہونے کے لیے آمادہ نہ تھے۔"[4]

شاعری ترمیم

ادب کے میدان میں اکبر اعظم کا دور بڑے بڑے نابغوں کے لیے مشہور ہے ،چنانچہ حسین کے ہمعصر ایک طرف فیضی، نظیری، عرفی اور خان خاناں تھے تو دوسری طرف اغلباً داستان ہیر رانجھا کے پہلے پنجابی شاعر دمودر بھی تھے۔ ہندی اور بھگتی ادب میں بھی محرم نام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ذہن نشین کر لینے کی بات یہ ہے کہ شاہ حسین نے مرکز حکومت سے دور رہ کر بھی ادب کے میدان میں اپنا ممتاز مقام پیدا کر لیا۔ چنانچہ مختصراً یہاں ان کی اوّلیات درج کی جاتی ہیں: ٭ پنجابی میں وہ کافی کی صنف کے موجد تھے۔ ٭ پنجابی کے وہ پہلے شاعر تھے، جنھوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لیے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔ ٭ سب سے پہلے داستان ہیر رانجھا کو بطور عشق حقیقی کی تمثیل اپنے شعری کلام میں سمویا۔ ٭ اپنے پیشے بافندگی کے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء و آلات کو مثلاً چرخہ، سوت، تانا، بانا وغیرہ کو صوفیانہ اور روحانی معنی پہنائے۔ ان کے بعد یہ پنجابی کا ایک جزولاینفک بن گئے۔ ٭ پنجابی کو ایسے مصرعے، تشبیہات اور موضوعات دیے کہ ان کے بعد آنے والوں نے یا تو ان کو اپنی طرف منسوب کر لیا یا ان پر طبع آزمائی کی۔ مثلاً رانجھا رانجھا کردی نی۔ میں آپے رانجھا ہوئی۔[3]

انتقال ترمیم

لاہور میں برس ہابرس تک درو یشانہ رقص و سرود کی محفلیں آباد کرنے کے بعد یہ درویش 1599ء میں اللہ کو پیارا ہو گئے۔ ان کی قبر اور مزار لاہور کے شالیمار باغ کے قریب باغبانپورہ میں واقع ہے، ہر سال میلہ چراغاں کے موقع پر ان کا عرس منایا جاتا ہے۔ مادھو، ان کے بعد اڑتالیس سال بعد تک زندہ رہے اور انھیں شاہ حسین کے برابر میں ایک مقبرے میں دفنایا گیا۔ یہ مزار آج تک عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد کا مرجع ہے کہ یہاں جدا نہ ہو سکنے والے دو ایسے عاشقوں کی قبریں ہیں جو مرنے کے بعد بھی اسی طرح ایک ہیں جیسے زندگی میں تھے۔[4]

ان کے کلام کے بارے میں ترمیم

  • "پنجاب کے عظیم صوفی شاعر"، مصنف: آر۔ ایم۔ چوپڑا (انگریزی میں)، 1999

بیرونی روابط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13987135d — بنام: Shah Hussain — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. http://www.nawaiwaqt.com.pk/miscellaneous/28-Mar-2014/[مردہ ربط]
  3. ^ ا ب پ سہ ماہی تجزیات اسلام آباد۔2010/04ء
  4. ^ ا ب Cogito, Ergo Sum: Madhu Lal Hussain