شاہ عبد القادر دہلوی

مترجم قرآن

شاہ عبد القادر دہلوی علوم الہیہ میں ممتاز علما میں سے تھے۔

نسب ترمیم

شاہ عبد القادر بن شاہ ولی اللہ بن عبد الرحیم بن وجیہ الدین شہید بن معظم بن منصور بن احمد بن محمود بن قوام الدین عرف قاضی قواذن بن قاضی قاسم بن کبیر عرف قاضی بدہا بن عبد المالک بن قطب الدین بن کمال الدین بن شمس الدین المفتی عرف قاضی پر ان بن شیر ملک بن عطا ملک بن ابوالفتح ملک بن عمرو الحاکم بن عادل ملک بن فاروق بن جرجیس بن احمد بن محمد شہر یار بن عثمان بن ہامان بن ہمایوں بن قریش بن سلیمان بن عفان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن عمر الخطاب

ولادت ترمیم

شاہ عبد القادرکی ولادت 1166ھ،مطابق 1753ء کو دہلی ہندوستان میں ہوئی آپ شاہ ولی اللہ دہلوی کے تیسرے صاحبزادے تھے۔

تعلیم ترمیم

ان کا بچپن اپنے والد کے سایے میں گذرا۔ یہ نو برس کے تھے کہ یہ سایہ اٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے پائی اور علوم کی تکمیل شاہ محمد عاشق اور دوسرے علما سے کی۔

ان کے والد شاہ ولی اللہ دہلوی کی وفات ان کے بچپن میں ہی ہو گئی تو اپنے برادر اکبر شاہ عبد العزیز دہلوی سے بھی علوم پڑھے،

علم طریقت ترمیم

شاہ عبد القادر نےشاہ عبد العدل دہلوی سے طریقت کی تعلیم پائی۔ درس و افادہ میں مشغول اور دہلی کی اکبر آبادی مسجد میں مقیم رہتے تھے،

درس و تدریس ترمیم

تکمیل علم کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس مقصد کے لیے اکبر آبادی مسجد کو منتخب کیا۔ سرسید لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب نے تمام عمر اس مسجد کے ایک حجرے میں گزار دی۔

ان سے عبد الحئی بڈھانوی، شاہ اسماعیل دہلوی، فضل حق خیر آبادی، شاہ اسحاق دہلوی اور بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا۔

سیرت وخصائص ترمیم

عالم ،عامل،فقیہ فاضل، زاہد،عابد خصوصاً فقہ و تفسیر میں یگانۂروزگار،صاحبِ ورع واتقاء صادق الفراست تھے،تمام علوم آپ نے بھائی شاہ عبد العزیز سے حاصل کیے،تمام عمر تدریس و تنشیر علوم میں رہ کر خاص و عوام کو اپنے چشمۂ فیض سے سیراب کیا اور اپنے والد ماجد کی تعلیمات کوپھیلایا۔ہمہ وقت درس و افادہ میں مشغول اور دہلی کی اکبر آبادی مسجد میں مقیم رہتے تھے۔

امام المفسرين حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی امام المفسرین حضرت شاہ عبد القادر امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے چھوٹے بیٹے تھے۔ حضرت شاہ عبد القادر کی پیدائش احمد شاہ کے عہد میں 1167ھ بمطابق1753ء میں ہو‏ئی۔حضرت شاہ عبد القادر نے علوم و فنون کی تکمیل بڑے بھائی حضرت شاہ عبدالعزيز دہلوی سے کی- تحصیل علوم کے بعد حضرت شاہ عبد القادر نے مسجد اکبر آبادی م‏يں تعلیم و تدريس شروع کی۔جبکہ آپ کے دوسرے بھائی مدرسہ کلاں میں تعلیم و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔مشہور نقشبندی بزرگ حضرت شاہ فضل رحمان گنج مراد آبادی کے بقول حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحبزادوں میں سے حضرت شاہ عبد القادر صاحب نسبت بزرگ تھے۔آپ انتہائی خلوت پسند تھے۔آپ نے چالیس سال مسجد اکبر آبادی میں اعتکاف کی حالت میں قرآن کامشہور عالم ترجمہ موضح القران تحریر فرمایا۔ سرسید احمد خاں آثار الصناوید میں لکھتے ہیں کہ آپ کا دہلی والوں کو اس وقت پتہ چلا جب آپ کا جنازہ مسجد سے قبرستان لے جایا جا رہا تھا۔آپ کی زاہدانہ زندگی بارے سرسید نے لکھا ہے کہ آپ کے بڑے بھائی آپ کو سال بھر میں دو جوڑے کپڑے اور دو وقت کا کھانا بھیجا کرتے تھے۔حضرت شاہ عبد القادر کو کشف کی بڑی قوت تھی حضرت شاہ عبد العزیز رمضان شروع ہونے پر معلوم کرایا کرتے تھے کہ پہلی تراویح میں شاہ عبد القادر نے ایک پارہ پڑھا یا سوا پارہ پڑھا۔ اگر ایک پارہ پڑھا تو شاہ عبد العزیز سمجھ جاتے کہ رمضان تیس کا ہوگا اور سوا پارہ پڑھا تو رمضان انتیس کا ہوگا ساری عمر اس کے خلاف کبھی نہ ہوا۔

حضرت شاہ عبدالقادردہلوی کا ترجمہ کردہ موضح القرآن روز اول غالباً 1790ء کے لگ بھگ سے ہی مسلمانان برصغیر میں نہایت مقبول و مسلّم بلکہ الہامی ترجمہ کے نام سے مشہور رہا ہے۔ ہر دور کے اہل بصیرت نے اسے الہامی ترجمہ قرار دیا۔ یہ ہندوستان میں قران مجید کا پہلا اردو ترجمہ مانا جاتا ہے اور تمام تراجم کے لیے بمنزلہ اساس ہے، اس ترجمہ پر شاہ صاحب کے چالیس برس خرچ ہوئے، شاہ عبد القادر کا ترجمہ قرآن موضح القرآن قرآن پاک کے مابعد اردو ترجموں کے لیے مینارہ نور ثابت ہوا بقول مولانا ڈپٹی نذیر احمد مرحوم اردو زبان کے جتنے بھی تراجم ہیں سب کے سب شاہ عبد القادر کے ترجمے کے مترجم ہیں۔ موضح القرآن کے نام سے یہ پہلا اردو میں بامحاورہ ترجمہ قران تھا۔ مولانا عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں قرآن پاک کے ترجمے سے پہلے شاہ صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ ان پر قرآن حکیم نازل ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے برادر بزرگ، شاہ عبد العزیزؒ سے اس کا ذکر کیا۔ شاہ عبد العزیزؒ نے کہا کہ بے شک یہ خواب صحیح ہے، وحی کا سلسلہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسکے بعد منقطع ہو چکا ہے لیکن اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو قرآن عزیز کی خدمت کی ایسی توفیق عطا فرمائے گا جو اس سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ چنانچہ ان کے خواب کی تعبیر ترجمہ قرآن موضح القرآن کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔

تصنیفی کام ترمیم

موضح القرآن نام سے قرآن مجید اُردو ترجمہ و تشریح کے ساتھ تحریر کیا،اس کے علاوہ کوئی قابل ذکر تصنیفی، تالیفی خدمات نہیں ہیں تاہم شاہ صاحب کو صرف اسی ایک خدمت نے زندہ جاوید کر دیا ہے۔[1] شاہ عبد القادر محدث دہلوی نے یہ ترجمہ لکھنے سے پہلے خواب دیکھا تھا کہ آپ پر قرآن نازل ہوا اسے آپ نے اپنے بھائی شاہ عبد العزیز سے بیان کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ سچا خواب ہے مگر چونکہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سے وحی آنے کا سلسلہ موقوف ہو گیا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے قرآن کی بے مثال خدمت لے گا چنانچہ یہ بشارت موضح القرآن کی صورت میں پوری ہوئی۔ [2]شاہ عبد القادرؒ کا ترجمہ قرآن اردو زبان کا پہلا مکمل ترجمہ قرآن ہے جو لسانی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ اس ترجمہ قرآن کے لسانی پہلو پر بہ طور خاص تحقیقی کام کرنے کی ضرورت تھی جو ڈاکٹر محمد سلیم خالد نے پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’شاہ عبد القادر کے اردو ترجمہ قرآن کا تحقیقی و لسانی مطالعہ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ’’میں نے اس کام کی تکمیل میں اپنی طرف سے پوری محنت، تندہی اور جانفشانی سے کام کیا ہے اور یہ کوشش کی ہے کوئی زیر بحث پہلو تشنہ نہ رہے۔‘‘

شاہ عبد القادرؒ کا ترجمہ قرآن 1829ء میں منصہ شہود پر آیا اور قرآن پاک کے مابعد اردو ترجموں کے لیے مینارہ نور ثابت ہوا،

اولاد ترمیم

شاہ عبد القادر کی صرف ایک بیٹی پیدا ہوئی اور اس کی شادی شاہ صاحب نے اپنے بھتیجے مولوی مصطفیٰ سے کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کی شادی شاہ اسمعیل شہید سے ہوئی۔

وفات ترمیم

شاہ عبد القادر نے 63 سال کی عمر میں19 رجب 1230ھ بمطابق 1814ء کو دہلی میں وفات ہوئی۔ اپنے جد امجد شاہ عبد الرحیم کے پاس ہی دفن ہوئے۔[3][4] عبارت ھذا خادم یہ عجائبات زمانہ میں سے ہے کہ شاہ ولی اللہ بن شاہ عبد الرحیم م 1176 صاحب کے چار صاحبزادے ارادت خاتون بنت سید ثناء اللہ سے تھے جن میں بڑے شاہ عبد العزیز صاحب رح پھر شاہ رفیع الدین صاحب رح پھر شاہ عبد القادر صاحب پھر سب سے چھوٹے شاہ عبد الغنی صاحب رح (مولانا اسماعیل شہید کے والد) تھے مگر سب سے چھوٹے بھائی شاہ عبد الغنی صاحب کی وفات ہوئی پھر ان کے بعد شاہ عبد القادر صاحب کی پھر شاہ رفیع الدین صاحب کی پھر شاہ عبد العزیز صاحب کی وفات ہوئی یہ سب بھائی علم و عمل افادہ وفیض رسانی میں(شاہ عبد الغنی صاحب کے سوا کیونکہ ان کی وفات عنفوان شباب میں ہو گئی تھی) فضلاءے زمانہ میں ممتاز تھے شاہ عبد الغنی صاحب کے صاحبزادہ گرامی قدر حضرت مولانا اسماعیل شہید کو اللہ نے ایسی توفیق عطا کی جس سے انھوں نے اپنے والد ماجد کی طرف سے پوری تلافی کر دی۔ حوالہ نزهة الخواطر ج 7 ص 295 296 تحریر خادم الحدیث نوید بن مقبول۔

حوالہ جات ترمیم

  1. http://www.elmedeen.com/author-500-مولانا-شاہ-عبد-القادر-صاحب۔[مردہ ربط]
  2. تاریخ دعوت وعزیمت حصہ پنجم ص 386
  3. Bio-bibliography.com - Authors
  4. ابو الحسن علی ندوی: تاریخ دعوت و عزیمت، حصہ پنجم، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام،لکھنؤ، ص 387