شرلاک ہومز (انگریزی: Sherlock Holmes) ایک تصوراتی سراغ رساں اور معالج ہے جو مصنف سر آرتھر کونن ڈوئل کا تخلیق کردہ کردار ہے۔ لندن میں رہائش پزیر یہ ایک زبردست محقق ہے جو منطقی استدلال کی مدد سے تحقیقات کرتا ہے۔ اِس کی صلاحیتوں اور مہارتوں میں بھیس بدلنا اور طب الشرعی کی مدد سے مشکل گتھیاں سلجھانا شامل ہیں۔

شرلاک ہومز
(برطانوی انگریزی میں: Sherlock Holmes ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 6 جنوری 1854ء (170 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مائیکروفٹ ہولمز   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
جنس مرد   ویکی ڈیٹا پر (P21) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
لیجن آف آنر [3]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شرلاک کے متعلق پہلی کہانی 1887ء میں شائع ہوئی۔ اِس کردار کو استعمال کرتے ہوئے ڈوئل نے دیگر 4 کتب لکھیں اور 56 افسانوں میں بھی اِسے شمار کیا۔ لندن کے ایک مقامی رسالے میں چھپنے والی کہانی اے اسٹڈی ان سکارلٹ میں اِس کردار کو پہلی دفعہ قارئین میں متعارف کرایا گیا۔

ابتدائی زندگی ترمیم

 
شرلاک ہومز کے متعلق چھپنے والی پہلی کہانی، اے اسٹڈی ان سکارلٹ، 1887ء میں شائع ہوئی۔

1917ء میں لکھی کہانی ہز لاسٹ باؤ میں ہومز کی عمر 60 برس بتائی گئی ہے۔ چونکہ یہ کہانی اگست 1914ء کے وقت کو بیان کرتی ہے اس لیے یہ اندازہ لگانا مناسب ہو گا کہ ہومز کی پیدائش 1854ء میں ہوئی۔ شرلاک ہومز کی کہانیوں کا مکمل جائزہ لینے کے بعد مصنف لیزلی کلنگر نے اپنی کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا کہ ہومز کی پیدائش دراصل 6 جنوری 1854ء کو ہوئی۔

ایک کہانی میں ہومز کی زبانی پتا چلتا ہے کہ اِسکی جانچ پڑتال کی صلاحیت کو تب فروغ ملا جب یہ یونیورسٹی میں طالب علم تھا۔ اِسکا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہومز کے پہلے کچھ کیس اسے یونیورسٹی کے دیگر طلبہ و طالبات سے ہی ملے۔ ہومز کے مطابق، ایک ساتھی طالب علم کے والد سے گفتگو میں پہلی مرتبہ ہومز کو یہ سوجھا کہ کیوں نہ گتھیاں سلجھانے کو ایک پیشہ ہی بنا لیا جائے۔ یونیورسٹی ختم کرنے کے چھ سال بعد تک ہومز دیگر کیسوں میں پولیس کی مشاورت کرتا رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہومز کی پاس پیسوں کی حد درجہ قلت ہو گئی۔ یوں ہومز نے جب اپنے ساتھ رہنے کے لیے ایک کرایدار ڈھونڈنا شروع کیا تو واٹسن سے ملاقات ہو گئی۔ واٹسن اور ہومز کے اس ملاپ کے بعد سے ہی کہانیوں کا آغاز ہوتا ہے۔

1881ء کے بعد سے ہومز 221-بی بیکر سٹریٹ، لندن میں رہائش پزیر تھا جہاں سے وہ اپنی مشورہ گیر سراغ رساں خدمات پیش کیا کرتا تھا۔ کہانیوں میں 221-بی، لندن کی بیکر سٹریٹ نامی سڑک کے شمال میں ایک دکان کے اوپر کوٹھی تھی جہاں، واٹسن کے مطابق، داخل ہونے کے لیے "17 سیڑھیاں عبور کرنی پڑتی تھیں"۔ واٹسن کے ہومز کی زندگی میں آنے سے پہلے، ہومز اکیلا ہی سارے کام کرتا تھا۔ جہاں ضرورت درکار ہوتی وہاں ہومز کبھی کبھار شہر کے پسماندہ اور بے گھر لوگوں کے چھپے نیٹ ورک سے بھی رجوع کر لیتا تھا۔ یہ نیٹ ورک ہومز کے لیے مخبری کیا کرتے تھے اور اِن میں اکثر بچے بھی شامل ہوتے تھے۔ تقریباً تین کہانیوں میں – جن میں اے اسٹڈی ان سکارلٹ، دی سائن آف فور اور دی ایڈونچر آف دی کروکڈ مین شامل ہیں – اِن بچوں کا کردار نمایاں رہا ہے؛ ہومز انھیں بیکر سٹریٹ کے بے قاعدہ ٹولے کی حیثیت سے جانتا تھا۔

کہانیوں میں ہومز کے والدین کے متعلق کچھ خاص نہیں لکھا گیا؛ ہومز کے مطابق فرانسیسی مصّور ہوریس وارنیٹ اِسکا دوروں کا رشتہ دار تھا۔ ہومز کے بھائی مائکروفت کا ذکر تین کہانیوں میں آتا ہے۔ مائکروفت کو ہومز سے سات سال بڑا اور اِس سے کہیں زیادہ ہنرمند اور حاضر دماغ بتایا گیا ہے۔ اگر مائکروفت کے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے شرلاک کا جذبہ۔

کردار کی تشکیل ترمیم

ڈویل کے مطابق شرلاک ہومز کا کردار ڈاکٹر جوزف بیل پر مبنی ہے۔ ڈویل اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا کی رائل انفرمری میں ڈاکٹر بیل کے لیے ایک کلرک کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ شرلاک ہومز کی طرح ڈاکٹر بیل بھی عام مشاہدات کی مدد سے کسی بھی بات کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت کے حامل تھے۔ ڈویل کو ڈاکٹر بیل کی اِس صلاحیت نے اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے جب ایک سراغ رساں کے کردار کو تخلیق کرنے کا سوچا تو ڈاکٹر بیل کی دیگر اور صلاحیات کو اِس کردار کی عکس بینی کے لیے استعمال کر ڈالا۔

کردار کی عکاسی ترمیم

ڈویل کے لکھے ناول اور افسانوں میں ہومز کی کہانیاں دراصل ایک اور کردار، ڈاکٹر واٹسن، کی زبانی ایک داستان کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔ اِن کے علاوہ ناول میں، شاذ و نادر، کچھ ہی ایسے واقعات ہیں جہاں ہومز کی زندگی کی عکاسی مل سکتی ہو۔ اِن واقعات کو واٹسن کی داستانوں کے ساتھ جوڑ کر ہومز کی ابتدائی زندگی کا عکس پیش کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر واٹسن کے ساتھ رفاقت ترمیم

 
دی سٹرینڈ میگزین میں شائع ہونے والی، سڈنی پیگٹ کی نقش کردہ ایک تصویر۔ 1891ء میں یہ دی مین ود دی ٹوسٹڈ لپ کی کہانی کے لیے استعمال کی گئی تھی۔

ہومز نے اپنی بیشتر پیشہ ورانہ زندگی اپنے عزیز دوست اور وقائع نگار، ڈاکٹر واٹسن، کے ساتھ بسر کی۔ 1887ء میں اپنی شادی سے پہلے، واٹسن نے کئی سال ہومز کے ساتھ گزارے۔ اپنی زوجہ کی وفات کے بعد پھر واٹسن نے ہومز کے ساتھ گذر بسر برکرر رکھا۔ اپنی کوٹھی کی مالکین، مسز ہڈسن، کو یہ دونوں ایک رشتہ دار کی طرح سمجھتے تھے۔ واٹسن کے ہومز کی زندگی میں دو ہی پہلو تھے۔ پہلا، واٹسن ہومز کا نہ صرف دوست تھا بلکہ اکثر کیسوں میں ہومز کی عملی مدد بھی کرتا تھا؛ دوسرا، وہ ہومز کی زندگی کے واقعات کو قلم سے کاغذ پر قید بھی کرتا رہتا تھا۔

ہومز سے متعلق اکثر کہانیاں دراصل واٹسن کی زبانی چند داستانیں ہیں اور اکثر واٹسن کے ہی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہیں۔ ہومز اکثر واٹسن کی اِن تحریروں کو حامئی عواميت یا سنسنی خیز کہ کر اِنکی تنقید کرتا رہتا تھا۔ ہومز کو واٹسن کی اِن تحریروں سے بس یہی شکایات رہتی تھی کہ یہ کبھی ٹھیک اور درست ترین الفاظ میں اِسکے سائنسی کام کی طہارت کو بیان نہ کرتی تھیں۔

خیرباد اور آخری الوداع ترمیم

ہز لاسٹ باؤ کی کہانی کے مطابق، 1903ء تا 1904ء کے دورانئے میں ہومز جرائم کی دنیا اور اپنے پیشے کو خیرباد کہہ کر ساسیکس ڈاؤنز کے ایک چھوٹے سے فارم پر رہنے لگ جاتا ہے۔ یہاں ہومز کچھ شہد کی مکھیاں بھی پالتا ہے اور اِنکی دیکھ بھال کے طور طریقوں پر ایک کتاب بھی لکھ ڈالتا ہے۔ اِس کہانی میں ہومز اور واٹسن ایک آخری مرتبہ مل کر جنگی کاوشوں میں برطانیہ کی حکومت کی مدد کرتے ہیں۔ ہومز کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اور کہانی (دی ایڈونچر آف دی لائنز) ایسی بھی تھی جو ہومز کی زبانی اپنی ہی داستان تھی۔ ہومز کی وفات سے متعلق کوئی بھی تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔

حوالہ جات ترمیم