شرم (انگریزی: Shame) ایک ناخوش گوار دانستہ جذبہ ہے جو عام طور سے خود کے منفی جائزے، ترک تعلق یا ترک معاشرہ کے احساسات اور تناؤ، اپنے کسی ان چاہے پہلو کے بر سر عام ہونے اور غیر یقینی کے جذبات سے جڑا ہے۔

دنیا میں ہر معاشرہ اپنی پسند و ناپسند کاایک معیار رکھتا ہے جو اس معاشرے کے افراد کے مزاج کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ اس طرح ہر مہذب معاشرے میں ایک جذبہ ایسا ہوتا ہے جسے انسانی جبلت کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ حیا و شرم مشرقی تہذیب کا حسن تصور قرار دیا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ شرم و حیا کو مشرقی عورتوں کا زیور بھی کہا جاتا ہے۔[1] تاہم جہاں مشرقی دنیا میں شرم انسانی معاشرے میں عورت کے وجود، اس کی عفت اور اس کی گوشہ نشینی سے منسوب ہے، وہیں مغربی دنیا میں بھی شرم کا تصور موجود ہے، تاہم اس کے پیمانے اور ان کی سوچ بہت مختلف ہے۔ جیکسن وو کے مطابق مغربی دنیا آبرو کے روایتی تصور کو بہت ہی کم اہم سمجھتی ہے کیونکہ یہ پاسداری کو بے دماغی اور ایسی کمزوری سمجھتی ہے جو خود غلامی کی جانب لے جاتی ہے۔[2]

مذہبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ، چاہے وہ مشرقی دنیا سے ہوں یا مغربی، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ لوگوں کے دل و دماغ میں اس حقیقت کو راسخ کیا جائے کہ ان کی نجات اپنے نفس کو پاکیزہ بنانے میں ہے۔ دائمی کامیابی اور ابدی سرور اس کے بغیر ممکن نہیں۔ انسان کا ذہن، دل، دماغ اور نگاہ اگر آلودہ ہو، ہوس کی اسیر ہو، شہوت کی غلام ہو، نفسانیت میں لتھڑی ہو تو ایسا شخص اس قابل نہیں رہتا کہ وہ جنت کی ابدی بادشاہت میں داخل کیا جائے۔ جس شخص میں دائمی کامیابی کا شوق پیدا ہوجائے اور وہ اس کے حصول کا راستہ جان لے ، وہ مغرب کی آغوش میں رہ کر بھی پاکیزہ زندگی گزارے گا اور جس شخص کے سامنے یہ نصب العین نہیں، وہ شخص سات پردوں میں رہ کر بھی اپنے نفس کو آلودہ کر دے گا[3] اور ناکام ہو جائے گا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم