یہ وہ شہر آفاق نظم ہے جو اپریل 1911ء کے جلسہ انجمن حمایت اسلام میں پڑھی گئی۔ لندن سے واپسی پر اقبال نے ریواز ہوسٹل کے صحن میں یہ نظم پڑھی۔ اقبال نے یہ نظم خلاف معمول سخت انداز میں پڑھی۔ مگر انداز بڑا دلا ویز تھا۔ اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر لائے تھے اس کے لیے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں اور نواب ذوالفقار علی خان نے ایک سوروپے کی پیشکش کی اور رقم ادا کرکے اصل انجمنِ پنجاب کو دے دی۔ ”شکوہ“ اقبال کے دل کی آواز ہے اس کا موثر ہونا یقینی تھا۔ اس سے اہل دل مسلمان تڑپ اُٹھے اور انھوں نے سوچنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے حوصلہ شکن زوال کے اسباب کیا ہیں۔ آخر اللہ کے وہ بندے جن کی ضرب شمشیر اور نعرہ تکبیر سے بڑے بڑے قہار و جبار سلاطین کے دل لرز جاتے تھے کیوں اس ذلت و رسوائی کا شکار ہوئے؟۔ یہ نظم دراصل مسلمانوں کے بے عملی، مذہب سے غفلت اور بیزاری پر طنز ہے۔ بانگ درا میں شامل کرتے وقت اقبال نے اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی۔ جبکہ بانگ درا میں اشاعت سے پہلے نظم مختلف رسالوں مثلاً مخزن، تمدن اور ادیب میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔

فکری جائزہ ترمیم

جرات آموز میری تاب ِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

اے خدا شکوہ اربابِ وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

اس نظم کا نام ”شکوہ“ اس لیے رکھا گیا ہے کہ موضوع کے اعتبار سے شکوہ بارگاہ الہٰی میں علامہ اقبال یا دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ حالانکہ ہم تیرے رسول کے نام لیوا ہیں اور اس پر طرہ یہ ہے کہ تیرے انعامات اور نوازشات کے مستحق غیر مسلم ہیں۔ گویا علامہ اقبال نے شکوہ میں عام مسلمانوں کے لاشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ بقول سلیم احمد ،

” ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوب کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لیے خدا کی ساری نعمتوں کے سزاوار اور دوسری طرف یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکرائو سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو ”شکوہ “ کا موضوع ہے۔“

علامہ اقبال کے اپنے الفاظ میں

” وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی ظاہر کر دی گئی“

سلسلہ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو ہم مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں،

اظہار شکوہ کی توجیہ ترمیم

یہ حصہ نہایت مختصر اور صرف دو بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ دو بند جن میں شکوہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ اور یہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی اور پستی پر اقبال کے رد عمل کا اظہار ہے۔ اقبال کے خیال میں مسلمان اب زوال و انحطاط کی اس منزل کو پہنچ چکے ہیں کہ جہاں پر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد سے بھی غداری کے مترادف ہے۔ اس موقع پر قصہ درد سنانا اگرچہ خلاف ادب ہے اور نالہ و فریاد کا یہ انداز گستاخانہ ہے مگر ہم ایسا کہنے پر مجبور ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ ای خدائے بزرگ و برتر ” اربابِ وفا“ کا شکوہ بھی سن لے۔ کسی لمبے چوڑے پس منظر یا غیر ضروری طویل تمہید کے بغیر اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہونا اسلامی تصورات کے عین مطابق ہے۔ اسلام کو تمام مذاہب کے مقابلے میں یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس میں بندہ خدا سے بلا واسطہ ہم کلام ہو سکتا ہے۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں میں ایسا نہیں۔ ان کے انداز تخاطب میں شوخی اور بے ادبی نہ تھی ہاں ایک طرح کی بے تکلفی ضرور تھی جو بعض لوگوں کو کھٹکتی ہے۔

لیکن اقبال نے دانستہ طور پر یہ طرز تخاطب اختیار کیا تھا۔ دراصل اقبال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرز تخاطب سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ گویا شکوہ کے اندازِ کلام کے لیے پڑھنے والوں کو مصنوعی طور پر تیار کر رہا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے شکوہ کے پہلے دو بندوں ہی میں بات یا موضوع سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا ہے کہ بعد کی شکوہ سرائی اور گلہ مندی بالکل موزوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے۔

امت مسلمہ کا کارنامہ ترمیم

شکوے کا دوسرا حصہ گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہار خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس حصے کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے۔ ” تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات کریم

13ویں بند تک علامہ اقبال نے امت مسلمہ کے عظیم کارناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی حیثیت اور اہمیت کو اجاگر کر دیاہے۔ سب سے پہلے دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یوں تو خدا کی ذات ازل سے اپنی سچائیوں سمیت موجود تھی۔ اور بڑی بڑی قومیں مثلاً سلجوق، تورانی، ساسانی، یونانی، یہودی، نصرانی آباد تھیں لیکن توحید کا وہ تصور جو تمام اقوام کے لیے نیا تھا اور جو اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ تھا اس کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلے میں جو کام امت مسلمہ نے کر کے دکھایا ہے وہ کام کسی سے بھی ممکن نہ تھا۔ یہاں اقبال مسلمان قوم کا ترجمان بن کر دعوی کرتا ہے کہ مسلمانوں نے بیمار اور جاہل امتوں اور مریض قوموں کے سامنے وہ علاج پیش کیا جو نکتہ توحید میں مضمر ہے۔

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی
اہل چیں چین میں، ایران میں ساسانی بھی
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے، نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟
بات جوبگڑی ہوئی تھی، وہ بنائی کس نے؟

اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں مسلمانو ں کوہی صرف یہ شرف حاصل ہے کہ انھوں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز علاقوں یا کونوں تک پہنچا یا۔ روم اور ایران جیسے ملکوں کو فتح کرنا کسی حیرت انگیز کارنامے سے کم نہیں ہے۔ اُنہی کی بدولت دنیا میں حق کی صدا گونجی نظم کی اس حصے میں علامہ اقبال نے تاریخ اسلام کے جن ادوار اور واقعات کو مثال بنایا ہے اس کی مختصر اً وضاحت یوں ہے۔ ”دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں “ کا اشارہ سلطنت عثمانیہ کی اس دور کی طرف ہے جب مسلمانوں کی سلطنت یونان، بلغاریہ، البانیہ، ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ سپین پر بھی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان علاقوں میں جہاں آ ج کلیسائوں میں ناقوس بجتے ہیں کبھی مسلمانوں کی وہاں پر اذانیں گونجتی تھیں۔ اس طرح افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں کا علاقہ مصر، لیبیا، تیونس، مراکش اور الجزائر وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھے۔

”شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی“ کی عملی تفسیر اس واقعے سے ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق کے دور میں مسلم وفد کے قائد ربعی ایرانی سپہ سالار رستم سے گفت و شنید کے لیے اس کے دربار میں گئے تو اپنے نیزے سے قیمتی قالین کو چھیدتے ہوئے بے پروائی سے تخت کے قریب پہنچے۔

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آرائوں میں !
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریائوں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائو ں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ساتویں بند میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح اس حوالے سے ہے جب محمود غزنوی نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سومنات کے بتوں کو پاش پاش کر دیا تھا۔ بحر ظلمات سے مراد بحر اوقیانوس ہے۔ ”بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے“ میں اشارہ ہے اس واقعے کی طرف جب ایک مسلمان مجاہد عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر گھوڑا بحر اوقیانوس میں ڈال دیاتھا۔

دشت تو دشت ہیں دریابھی نہ چھوڑے ہم نے!
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے!

مسلمانوں کی حالتِ زبوں ترمیم

نظم کے اس حصے میں اقبال نے امت مسلمہ کے درخشاں ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے نظم کا رخ مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف موڑ دیا ہے۔ اقبال نے دوسری اقوام سے مسلمانوں کا موازنہ کرکے ان کی موجودہ زبوں حالی کو نمایاں کر دیا ہے۔ اقبال شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان جگہ جگہ غیر مسلموں کے مقابلے میں حقیر، ذلیل اور رسوا ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا کی دوسری اقوام ان پر خندہ زن ہیں۔ نظم کے اس حصے میں صحیح معنوں میں گلے شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے اقبال نے مسلمانوں کی بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیوائوں سے پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں؟ اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو دنیا توحید کے نام لیوائوں سے خالی ہو جائے گی۔ اور ڈھونڈنے سے بھی ایسے عُشاقانِ توحید کا سراغ نہیں ملے گا۔

امتیں اور بھی ہیں، اُن میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مستِ مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

حالت زبوں کی وجہ کیاہے؟ ترمیم

بند20 کے آغاز میں اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ مسلمان آج بھی خدا کے نام لیو ا ہیں اور اُس کے رسول کے پیروکار ہیں۔ آج بھی اُن کے دلوں میں اسلام کے بارے میں ایک زبردست جوش و جذبہ اور کیفیت عشق موجود ہے۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجود عنایاتِ خدواندی سے محروم ہیں۔

آگے چل کر اقبال کا لہجہ ذرا تلخ ہو جاتا ہے اور محبوب حقیقی کے سامنے فریاد کی زبان کھولی ہے کیونکہ اس نے اپنے سچے عاشقوں کو فراموش کر دیا ہے اور غیروں سے راہ رسم آشنائی پیدا کر لی ہے۔

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے

نظم کے اس حصے میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں۔ لیلیٰ، قیس، دشت وجبل، شور سلاسل اور دیوانہ نظار ہ محمل کی تراکیب و تلمیحات وغیرہ۔

وادی نجد میں وہ شور ِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا

” سرفاراں پر کیا دین کو کامل تو نے“ سے مراد یہ ہے اے خدا تو نے دین اسلام کو فاران کی چوٹی پر مکمل کر دیا۔ جو قرآنی آیت کی طرف ایک اشارہ ہے۔

سر فاراں پر کیا دین کو کامل کیا تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

کیفیت یا س و بیم ترمیم

اس حصے میں اقبال کا روئے سخن خاص طور پر ہندی مسلمانوں کی طرف ہے اور یہی بات اِسے دوسرے حصوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یوں تو مسلمان دنیا کے ہرگوشے میں بدحالی مایوسی اور بے چارگی کا شکار ہیں مگر برصغیر پاک و ہند میں تو اس کا انتشار گویا نقطہ عروج کو پہنچ گیا ہے چونکہ اقبال ہندوستان میں رہتے ہیں اس لیے یہیں کے مسائل سے انھیں پہلے واسطہ پڑتا ہے۔

جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

یہ بہت بلیغ شعر ہے کہ ہندوستان میں ہزاروں سال رہنے کے بعد ہند کے مسلمان بھی اسی طرح ہندی ثقافت اور فلسفے میں رنگے گئے ہیں۔ ان میں بت پرستوں ( ہندوئوں) کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سے ان ہی کی سی خصلتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس لیے ان کو ”دیر نشین “ کہنا کوئی غلط بات نہیں۔ علامہ اقبال نے ہمیشہ اپنی گفتگو میں یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو وہ ساری دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے

دعائیہ اختتام ترمیم

علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان ہو جائیں تووہ ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ نظم کے آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ اور دعا کا یہ سلسلہ نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اقبال دعا گو ہیں۔ ”امت مرحوم“ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک زندہ قوم کے ختم ہو کر مردہ ہو چکے ہیں اب ان کی حیثیت سلیمان کے مقابلے میں ”مور بے مایہ“ کی سی ہے۔ لیکن اقبال کی خواہش ہے کہ دور حاضر کے مسلمان پھر سے جوش و جذبہ سے لبریز ہو جائیں اور کوہ طور پر پہلے کی طرح تجلیات نازل ہوں۔

مشکلیں امت ِمرحوم کی آساں کر دے
مورِ بے مایہ کو ھمدوش ِ سلیماں کر دے

اقبال نے نظم کے آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشن اور خوش آئند ہو اور ہونا چاہیے مگر یہ نہیں کہا کہ ”ہوگا“۔ کیونکہ وہ ایک ایسا پر آشوب دور تھا کہ مستقبل کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ ایک طرف تقسیم بنگال اور پھر اٹلی کا طرابلس پر حملہ جس نے اقبال پر بڑا اثر کیا اور اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے شکوہ کرنا پڑا۔ شکوہ دراصل اسے حصے میں ختم ہو جاتا ہے۔ اور باقی تین بند قوم کی پستی پر شاعر کی اپنی طبیعت کا الجھائو، جذبات، قوم سے ناراضی، نفرت اور بے اعتنائی کا آئینہ ہے۔ شاعر مایوس ہے اور مضطرب ہو کر پکار اُٹھا۔ لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزاجینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں

مایوسی کا ایک اور انداز کچھ یوں ہے کہ،

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

آگے چل کر اقبال مایوسی کے عالم میں کہتے ہیں کہ مجھ سے دین کی جو خدمت ہو سکتی ہے اس کے بجالانے کے لیے کوشاں ہوں اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا۔

کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی

اس حصے میں اقبال نے صراحت سے یہ بات بیان کر دی ہے کہ میں اگرچہ عجمی طریقے پر شعر کہتا ہوں ایرانی شاعری کی روایات کا پابند ہوں ہندی الاصل ہوں لیکن ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کی روح سے واقف ہوں اور اگر مسلمان مرے کلام کابغور مطالعہ کریں تو انھیں عجمی روایات کے پردے سے اسلام کے مطالب دقیق جھانکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ حصہ اور ”شکوہ “ اس بلیغ اور معنی افروز شعر پر ختم ہو جاتا ہے۔

عجمی خم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لے تو حجازی ہے مری



شکوہ ترمیم

کیوں زیاں کار بنوں،سُود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں،محوِ غمِ دوش رھوں
نالے بُلبُل کے سُنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں

جُرأت آموز میری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ،خاکمِ بدہن ہے مجھ کو

ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش میں ،فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا! شکوۂ اربابِ وفا بھی سُن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِله بھی سُن لے

تھی توموجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم
پُھول تھا زیب چمن پر نہ پریشان تھی شمیم
شرطِ اِنصاف ہے اَے صاحبِ الطافِ عمیم
بوئے گُل پھیلتی کِس طرح جو نہ ہوتی نسیم

ہم کو جمعیّتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ اُمّت تیرے محبوبؐ کی دیوانی تھی؟

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہان کا منظر
کہیں مسجود تھے پتّھر،کہیں معبود شجر
خُوگرِ پیکرِ محسوس تھی اِنساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر

تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوّتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی ،تُورانی بھی
اہلِ چیں چین میں،ایران میں ساسانی بھی
اِسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اِسی دُنیا میں یہودی بھی تھے،نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اُٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی،وہ بنائی کس نے

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے ،کبھی دریاؤں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی میصبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سر بکف پھرتے تھے کیا،کیا دہر میں دولت کے لیے؟

قوم اپنی جو زرومالِ جہاں پہ مرتی
بُت فروشی کے عِوض بُت شکنی کیوں کرتی؟

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیر کے بھی میداں سے اُکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سر کش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحید کاہر دِل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سُنایا ہم نے

تُو ہی کہہ دے کہ اُکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جوتھا،اُسکو کیا سَر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کے رکھ دیے کفّار کے لشکر کس نے

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟

کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی
اور تیرے لیے زحمت کشِ پیکار ہوئی
کِس کی شمشیر جہاں گیر،جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
مُنہ کے بَل گر کے "ھُوَ اللہُ اَحَد"کہتے تھے

آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ هي کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

محفلِ کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے
کوہ میں، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو،کبھی ناکام پھرے

دشت تو دشت ہیں،دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

صفحۂ دۃر سے باطل سے کومٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

پھر بھی ہم سے یہ گِلا ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں،تُو بھی تو دِلدار نہیں!

اُمتیں اور بھی ہیں، اُن میں گناہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مست مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں،غافل بھی ہیں،ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشنوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

بُت صنم خانوں مین کہتے ہیں مسلماں گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدی خواں گئی
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن ہے کُفر،احساس تجھے ہے کے نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

یہ شکایت نہیں، ہیں اُن کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حُور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور

اب وہ الطاف نہیں، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

کیوں مسلماں میں ہے دولتِ دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تُو جو چاہے تو اُٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہروِ دشت ہو سیلی زدۂ موجِ سراب

طعنِ اغیار ہے، رسوائی ہے،ناداری ہے
کیا تیرے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟

بنی اغیار کی چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے حالی دنیا

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے؟

تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے، اپنی صِلا لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے کہ نکالے بھی گئے

آئے عشّاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

دردِ لیلیٰ بھی وہی،قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رَمِ آہو بھہ وہی
عشق کا دل بھی وہی،خسن کا جادو بھی وہی
اُمّتِ احمدِ مرسل بھی وہی، تُو بھی وہی

پھر یہ آزردگیِ غیر سبب کا معنی
اپنے شیداؤں یہ چشمِ غضب کیا معنی

تجھ کو چھوڑا کہ رسولِ عربی کو چھوڑا؟
بُت گری پیشہ کیا، بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسمِ سلمانؓو اویس قرنیؓ کو چھوڑا؟

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثلِ بلال حبشی رکھتے ہیں

عشق کی خیر وہ پہلے سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائیِ تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مُضطِرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندیِ آئینِ وفا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں،تُو بھی تو ہرجائی ہے!

سرِ فاران کیا دین کو کامل تُو نے
اِک اشارے میں پزروں کے لیے دل تُو نے
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تُو نے
پُھونک دی گرمیِ رُخسار سے محفل تُو نے

آج کیوں سینے ہمارے شرر بار نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں، تجھے یاد نہیں؟

وادی نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانۂ نظّارۂ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے،ہم نہ رہے، دل نہ رہا
گھر یہ اُجڑا ہے کہ تُو رونقِ محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سُوئے محفلِ ما باز آئی

بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لبِ جُو بیٹھے
سُنتے ہیں جام بکف نغمۂ کُو کُو بیٹے
دور ہنگامۂ گُلزار سے یک سُو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں مُنتظر "ھُو" بیٹھے

اپنے پروانوں کی پھر ذوقِ خُود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے

قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سُوئے حجاز
لے اُرا بلبلِ بے پر کو مذاقِ پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے، بُوئے نیاز
تُو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز

نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نلکنے کے لیے
طُور مضطر ہے اُسی آگ میں جلنے کے لیے

مُشکلیں اُمّتِ مرحوم کی آساں کر دے
مُورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے
جنس نایابِ محبّت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دَیر نشینوں کو مسلماں کر دے

جُوئے خوں می چکدا از حسرتِ دیرینہ ما
می تپد نالۂ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما

بُوئے گُل لے گئی بیرون چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود کہ خود پُھول ہیں غمّازِ چمن!
عہدِ گُل ختم ہوا، ٹوٹ گیا سازِ چمن
اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن

ایک بُلبل ہے کہ محو ترنّم ہے اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

قُمریاں شاخِ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتّیاں پُھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہنِ برگ سے عُریاں بھی ہوئیں

قیدِ موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گُلشن سمجھتا کوئی فریاد اس کی!

لُطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں
کتنے بیتاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلواے تڑپ رہے ہیں مرے سینے میں

اس گُلستان میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتا ہوں، وہ لالے ہی نہیں

چاک اس بُلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اِسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

عجمی خُم ہے تو کیا،مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا،لَے تو حجازی ہے مری

فنی جائزہ ترمیم

شکوہ 31 بندوں پر مشتمل ہے یہ نظم مسدس کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ بحر کا نام ”بحر رمل مثمن مخبون محذوف ‘‘ ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں۔

فَاعِلَا تُن فَعِلا تُن فَعِلا تُن فَعِلُن

اقبال کی طویل نظم میں ”شکوہ “ فنی لحاظ سے ایک منفردمقام کی حامل ہے۔ یہی پہلی طویل نظم ہے جس میں اقبال نے اسلام کی زندہ اور فعالی قوتوں، ماضی کے مسلمانوں کی عظمت اوج کے بعد ان کی موجودہ زبوں حالی کی داستان کو ایک ساتھ نہایت فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ اردو شاعری میں ایسا اندازِ بیاں کہیں نہیں ملتا۔

بقول ماہر القادری

اک نئی طر ز نئے باب کا آغاز کیا
شکوہ اللہ کا اللہ سے بصد ناز کیا

نظم کا آغاز بہت systimatic ہے اصل موضوع پر آنے سے پہلے اقبال نے شکوہ کرنے کی توجیہ دو بندوں میں بیان کردی ہے تاکہ نیا اور اچھوتا موضوع اچانک سامنے آنے پر قار ی کو کوئی جھٹکا محسوس نہ ہو۔

لہجے کا تنوع ترمیم

کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکو ہ کرنے والا اپنی مفروضات پیش کرتے ہوئے حسبِ ضرورت مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے شکو ے کا لہجہ بھی متنوع ہے اور اقبال کا شکوہ اللہ جیسی بڑی ہستی سے ہے جو تمام دنیا کا مالک ہے۔ اسی لیے اقبال کے لہجے میں کہیں عجز و نیاز مندی ہے کہیں غیرت و انا کا احساس ہے کہیں تندی و تلخی ہے اور جوش ہے کہیں تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں گریہ و زاری و دعا کا انداز اختیار کیا ہے۔

نفسیاتی حربے ترمیم

اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نظم میں بعض مقامات پر نفسیاتی حربوں سے کام لیتے ہوئے ایک ہی بیان سے دہرا کام لیا ہے۔ 10ویں بند کے آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے۔ جہاں پر شاعر خدا سے بے اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں،

خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے


اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجوڑ کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہ یہ میرا مسئلہ نہیں تمھارا مسئلہ ہے۔ ایک اور جگہ نفسیاتی حربے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں اور اسلام سے روگردانی کا اعتراف کیا ہے۔ مگر وہ اعتراف کا علانیہ اظہار نہیں کرتے۔ کیونکہ علانیہ اعتراف کرنے سے ان کا اپنا موقف کمزور ہوگا۔ لہٰذا وہ اپنی کمزوری سے توجہ دوسری طرف لے جانے کے لیے فوراً نفسیاتی حربے سے کام لیتے ہے۔ اور طعنہ دیتے ہیں کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہرجائی ہو۔

تغزل ترمیم

یوں تو اقبال کی پوری شاعری میں رنگ تغزل چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکیمانہ نکتے بیان کرنے کے باوجود ان کی شاعری میں ساحری کا عنصر ملتا ہے۔ لیکن اس رنگ تغزل کا واضح استعمال سب سے پہلے اقبال نے ”شکوہ" میں کیاہے۔ اگرچہ اقبال ہمارے دور کے سب سے بڑے انقلاب پسند شاعر ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی بات کہنے کے لیے نہ صرف نئے پیمانے اور نئے سانچے استعمال کیے بلکہ روایت کا پورا احترام ملحوظ رکھا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ پرانے اسلوب اورپرانے سانچے فرسودہ نہیں ہو گئے۔ بلکہ انھیں نئے رنگ اور آہنگ اور نئے مفاہیم کے ساتھ برتا جا سکتا ہے۔

تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

ایجاز و بلاغت ترمیم

”شکوہ“ کے بعض حصے، اشعار اور مصرعے ایجاز و بلاغت کے شہکار ہیں۔ تاریخ کے طویل ادوار، اہم واقعات اور روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی خصوصیات کو بڑے بلیغ انداز میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں

چند محسنات شعر ترمیم

”شکوہ“ حسن زبان و بیاں کا شا ہکا رہے۔ انتخاب الفاظ، صنعت گری، بندش تراکیب، حسن تشبیہ و استعارہ، مناسب بحر، موزوں قوافی، وسعت معانی اور زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب نظم بہت ہی دلکش اور موثر ہے۔ اقبال نے نظم شکوہ میں صنعتوں کا استعمال بہت بہترین انداز میں کیا ہے۔

صنعت مراعاة النظیر:.

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

صنعت ترافق :.

نقش تو حید کا ہر دل میں بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

صنعت تلمیح:۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و آیاز
نہ کوئی بندہ رہانہ کوئی بندہ نواز

صنعت طباق ایجابی:.

آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

تصویر کاری ،تشبیہ، استعارہ ترمیم

”شکوہ “کی ایک اور بڑی فنی خوبی اس کی تصویر کاری ہے شاعر نے خوبصورت الفاظ کی مدد سے اس نظم کو بہت خوبصورت تصویریں عطا کیں ہیں۔

آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

کلام اقبال کی سب سے نمایاں خوبی تشبیہ ہے۔ شکوہ میں علامہ اقبال نے کئی خوبصورت تشبیہات استعمال کی ہیں ان خوبصورت اور بلیغ تشبیہات نے اشعار کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ مثلاً اقبال نے ایک شعر میں امت مسلمہ کو ”مور بے مایہ“ سے تشبیہ دی ہے۔ جو بہت ہی بلیغ ہے۔

مشکلیں امت ِ مرحوم کی آساں کر دے مورِ بے مایہ کو ھمدوش سلیماں کر دے

اقبال کی شاعری میں استعاروں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ”شکوہ“ کے یہ اشعار شعری اسلوب کا نادر نمونہ ہونے کے ساتھ استعاروں پر شاعر کی زبردست جمالیاتی گرفت کا بھی ثبوت ہے۔

مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہ مضراب ہے ساز

اقبال نے ”شکوہ “ میں تشبیہ اور استعاروں کے علاوہ علامتوں کا بھی بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ جو اقبال کی گہری فلسفیانہ اور حکیمانہ فکر کی غماز ہیں،

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

جبکہ اقبال نے کلام میں استفہامیہ لہجے کوبھی اپنایا ہے۔ جس سے جوش میں اضافہ ہوا ہے۔

کس نے ٹھنڈا کے ا آتش کدہ ایراں کو
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو

ترنم اور نغمہ ترمیم

اقبال نے مشرق و مغرب کے خزانہ علمی سے فائدہ اٹھایا اور صنائع لفظی کی غایت سے غرض رکھی ہے۔ یعنی ترنم اور نغمہ کی تخلیق اس سلسلے میں اس نے مغرب کے انتقادی اصول کی زیادہ پیروی کی ہے۔ ترنم اور نغمہ پیدا کرنے کے لیے اقبال نے تجنیس، ترصیح وغیرہ کی بجائے حروف کی تکرار اور سلسلہ ہائے حروف کی تکرار سے بہت کام لیا ہے۔ شکوے کے پہلے بند میں ترنم بھی ہے اور نغمہ بھی اس میں مختلف حروفِ علت کی تکرار اور ان کے تبادلے کو بڑا دخل حاصل ہے۔

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں؟
فکر فردا نہ کروں محوِ غم دوش رہوں؟

مجموعی جائزہ ترمیم

علامہ اقبال نے ”شکوہ میں ایسا انداز اختیار کیا ہے جس میں مسلمانوں کے عظیم الشان، حوصلہ افزا اور زندہ جاوید کارنامے پیش کیے گئے۔ لہٰذا اس نظم کے پڑھنے سے حوصلہ بلند ہوتا ہے قوت عمل میں تازگی آتی ہے۔ جو ش و ہمت کو تقویت پہنچتی ہے۔ عظیم الشان کارنامے اس حسن ترتیب سے جمع کر دیے گئے ہیں کہ موجودہ پست حالی کی بجائے صرف عظمت و برتری ہی سامنے رہتی ہے۔ گویا یہ شکوہ بھی ہے اور ساتھ ہی بہترین دعوت عمل بھی۔ اس لحاظ سے اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کی بالکل یگانہ نظم ہے۔ بقول تاثیر”شکوہ لکھا گیا تو اس انداز پر سینکڑوں نظمیں لکھی گئیں ملائوں نے تکفیر کے فتوے لگائے اور شاعروں نے شکوہ کے جواب لکھے لیکن شکوہ کا درست جواب خود اقبال ہی نے دیا۔“

مزید دیکھیے ترمیم