شیخ عبد العزیز شکربار

سلسلہ چشتیہ کی معروف شخصیت

شیخ عبد العزیز شکربار (پیدائش: 907ھ) اپنے دور کے جلیل القدر مشائخ چشت میں سے تھے [1] اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے اجداد میں سے ہیں۔ ان کے دادا شیخ طاہر نے تحصیل علم کے لیے ملتان سے بہار کا سفر کیا اور شیخ بدھ (یا بودھن) حقانی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔[2][3] وہ شاہ عبد الرحیم دہلوی کے نانا تھے۔ ان کے ایک بیٹے قطب العالم کے نام سے مشہور ہوئے، یہی ان کے نسبی و روحانی جانشین تھے۔ شیخ عبد العزیز پر توحید وجودی کا غلبہ تھا۔ ان کے روحانی اثر سے خواجہ باقی باللہ اور شاہ عبد الرحیم دہلوی بھی توحید وجودی کی طرف مائل تھے۔

ولادت و ابتدائی تعلیم ترمیم

شیخ عبد العزیز کی ولادت 907 ہجری میں جونپور میں ہوئی۔ ابھی ڈیڑھ سال کے تھے کہ والد ان کو دہلی لے آئے اور عبد الوہاب بخاری اور ان کے بیٹے میر سید محمد کے سپرد کر دیا جن سے انھوں نے دینی تعلیمحاصلکی۔ اس کے بعد اپنے والد کے خلیفہ میاں قاضی خان ظفر آبادی سے روحانیت میں کمال حاصل کیا۔[4]

رسائل ترمیم

انھوں نے تصنیف و تالیف کی طرف کم توجہ دی۔ شیخ آمان پانی پتی کے رسالہ غیریہ کے جواب میں رسالہ عینیہ اور ایک دوسری کتاب آداب السلوک تصنیف کی۔ آداب السلوک تصوف و سلوک کے اہم نکات و دقائق پر مشتمل ہے۔

تاثرات ترمیم

شیخ اپنے زمانے میں مشائخ چشت کی یادگار تھے۔ اخلاق حسنہ مثلاً تواضع حلم، صبر و رضا خلق خدا پر شفقت و عنایت فقرا میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔

شیخ محتاجوں کی حاجت روائی میں بڑی کوشش کرتے تھے۔ جب وہ شیخ قاضی خان کے پاس پہنچے، اپنا مال و متاع، گھوڑا گاڑی جو کچھ اپنے پاس تھا سارس کا سارا راہ خدا میں تقسیم کر دیا۔

(بادشاہ) اکبر کے عہد میں شیخ عبد العزیز شکربار چشتی ک وبڑا قبول عام حاصل ہوا بیرم خان ان کا معتقد تھا اود دوسرے امرائے اکبری بھی ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اخذ فیض کرتے تھے۔ عوام میں آپ بحر المواج اور شکربار کے نام سے مشہور تھے۔[5]

وفات اور مزار ترمیم

شیخ عبد العزیز نے 6 جمادی الثانی 975ھ میں 68 سال کی عمر میں وفات پائی۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے ان کی وفات پر قطعۂ تاریخ کہا۔ مولانا آزاد میڈیکل کالج (دہلی) کے ساتھ قبرستان مہندیان میں واقع قدیم مکی مسجد کے صحن میں ان کا مزار موجود ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. عطا الرحمان قاسمی، دہلی میں دفن خزینے، صفحہ 52، طیب پبلشر، لاہو، 2002ء
  2. شیخ عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار ص 195
  3. مولانا غلام علی آزاد بلگرامی، مآثرالکرام ص 43
  4. گلزار اردو، صفحہ 311
  5. شیخ محمد اکرام، رود کوثر، صفحہ 71، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور