ضمیر اختر نقوی (ولادت: 24 مارچ [1940ء]] - وفات: 13 ستمبر 2020ء) پاکستانی شیعہ عالم، مذہبی رہنما، خطیب اور اردو شاعر، مداح اہل بیت نیز تذکرہ و سوانح نگار بھی تھے ساتھ ساتھ آپ نے طعن صحابہ اور اہل بیت کے نام پر دھوکا دہی اور فراڈ کا خوب چرچا کیا اور اپنی شہرت کی خاطر مزاح کا سہارا لیا اور ویڈیوز وائرل کروائیں بالآخر جب سارا پاکستان سید عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے گونجا تو حضرت تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے ہی راہِ فرار اختیار کر گئے۔

ضمیر اختر نقوی
معلومات شخصیت
پیدائش 24 مارچ 1940ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 ستمبر 2020ء (80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب،  نمونیا  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اختر نقوی کی پیدائش برطانوی ہند میں ہوئی۔ وہ 24 مارچ 1940ء میں بھارت شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید ظہیر حسن نقوی تھا جب کہ ان کی والدہ کا نام سیدہ محسنہ ظہیر نقوی تھا۔ پیدائش کے وقت نام ظہیر رکھا گیا تھا۔ 1967ء میں وہ نقل مقام کر کے پاکستان چلے گئے اور مستقلًا کراچی شہر میں سکونت اختیار کیے۔ تعلیمی اعتبار سے وہ لکھنؤ کے حسین آباد اسکول سے میٹرک پاس کیے اور گورنمنٹ جوبلی کالج، لکھنؤ سے انٹرمیڈیٹ مکمل کیے۔ انھیں گریجویشن کی سند شیعہ کالج لکھنؤ سے حاصل ہوئی۔


نسب نامہ: علامہ سید ضمیر حسن نقوی المشہور بضمیر اختر نقوی ابن سید ظہر حسن نقوی ابن سید سید دیانت حسین ابن عنایت حسین ابن سید بخشش حسین ابن سید حضرت بخش ابن سید‌‌ میر علی ابن سید  محمد عیسیٰ ابن سید امین الدین ابن سید عظیم الدین ابن سید معین الدین ابن ید عبد الخالق ابن سید عبد الغفور ابن سید قطب ابن سید علی ابن سید نواب غالب علی ابن سید علی الدین ابن سید مبارک ابن سید محمود ابن قاضی سید شرف الدین ابن سید شہاب الدین ثانی ابن سید ضیاء الدین ابن سید شمس الدین ابن سید حسام الدین ابن سید جلال الدین ابن سید محمد شہاب الدین گردیزی ابن سید زین الدین حسن ابن سید عیسیٰ باقر عالم ربانی ابن سید حسن نظام الدین ابن سید امیر حمزہ سبزواری ابن سید محمد عسکری ابن سید حمزہ ابو طالب ابن سید محمد موسیٰ بغدادی ابن سید طاہر ابو القاسم ابن سید جعفر الزکی ابن امام علی النقی علیہ السلام


[1]

سوشل میڈیا پر بھی بہت مشہور تھے، وہ اپنی تقریروں، قصے و واقعات بیان کرنے کے حوالے سے منفرد شہرت رکھتے تھے۔علامہ ضمیر اختر نقوی کولڈن جعفری کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور ان کے بیانات کو سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیا جاتا تھا۔ کراچی میں علامہ ضمیر اختر نقوی کو ضمیر گھوڑوی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ علامہ ضمیر اختر نقوی گھوڑوں کی دعوت کیا کرتے تھے اور ان کے لیے باقاعدہ شامیانے لگا کر میزوں پر دودھ جلیبیوں کی پرات سجا کر وہاں لایا جاتا اور اس طرح کی مجالس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اکثر زیر بحث رہتی ہیں۔[2]

ضمیر اختر نقوی نے ایک ویڈیو میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا پاکستان ذو الجناح کی وجہ سے بنا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اپنی مجلس میں بیان کیا کہ مسٹر جناح کی دادی ذو الجناح کے پاس گئیں اور ذو الجناح نے ان کے کان میں کچھ کہا پھر کچھ عرصہ بعدمسٹر جناح پیدا ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسٹر جناح کے نام کے ساتھ لفظ ’’جناح‘‘ ذو الجناح کی ہی نسبت سے ہے کیونکہ ان کی پیدائش ذو الجناح کی دعا وغیرہ سے ہوئی تھی۔[3]

علامہ ضمیر اختر نقوی نے شہزادہ قاسم ابنِ حسنؑ ؐ کی سیرت پر دو جلدیں تحریرکیں، اپنے حلقہ اثر میں وہ انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اڑایا جاتا جس کی وجہ ان کی دھان پان سی صحت تھی۔ علامہ ضمیر اختر نقوی نے جون 2020ء میں جب کرونا کی وبا اپنے عروج پر تھی اپن ایک ویڈیو بیان میں دعوی کیا تھا کہ انھوں نے کرونا کا علاج دریافت کر لیا ہے اور وہ کسی کو بتائیں گے نہیں ویڈیو بیان میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ علاج صرف اس صورت میں بتائیں گے جب کوئی حکومتی عہدار ان سے اس سلسلہ میں رابطہ کرے گا۔ ان کی اس ویڈیو کو سنجیدہ اور غیر سنجیدہ دونوں حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور قریب مہینہ بھر سے زیادہ یہ ویڈیو موضوع سخن بنی رہی۔ ان کی اس ویڈیو نے ٹک ٹاک پر بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔

دیگر شیعہ علما کی طرح علامہ ضمیر اختر نقوی کو بھی فلسفہ و منطق پر ید طولیٰ حاصل تھا اور تاریخ پر ان کا کام مقتدر حلقوں میں بہت سراہا جاتا ہے۔[4]

متاثر ترمیم

عبد اللہ شیخ- احسن ریاض- عظیم احمد- سعد اعظمی- عمار خان- حماد خان- سیف احسن خان-

تصانیف ترمیم

  1. تاریخ مرثیہ نگاری
  2. میر انیس، زندگی اور شاعری
  3. مرزا دبیر حالاتِ زندگی اور شاعری
  4. جوش ملیح آبادی کے مرثیے
  5. شعرائے اردو اور عشق علی
  6. اردو مرثیہ، پاکستان میں(1982ء)
  7. خاندان میرانیس کے نامور شعرا
  8. اردو ادب پر واقع کربلا کے اثرات
  9. دبستان ناسخ
  10. تذکرہ شعرائے لکھنؤ
  11. اقبال کا فلسفہ عشق
  12. شعرائے اردو کی ہندی شاعری
  13. ابن صفی کی ناول نگاری
  14. شعرائے مصطفی آباد
  15. میر انیس (ہر صدی کا شاعر)
  16. میر انیس کی شاعری میں رنگوں کا استعمال
  17. میرانیس بحیثیت ماہرِ علمِ حیوانات
  18. نوادرات مرثیہ نگاری(دو جلدیں)
  19. The Study of Elegies Mir Anis
  20. اردو غزل اور کربلا
  21. سوانح حیات جنابِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
  22. سوانح حیات جنابِ خدیجۃ الکبریٰ
  23. سوانح حیات جنابِ شہربانوؑ
  24. سوانح حیات حضرت عباس علمدارؑ
  25. سوانح حیات جنابِ شہربانوؑ
  26. سوانح حیات شہزادہ علی اکبر ؑ
  27. سوانح حیات جنابِ شہزادہ علی اصغرؑ
  28. سوانح حیات شہزادہ قاسم ابنِ حسنؑ (دو جلدیں)
  29. شہزادہ قاسم کی مہندی
  30. معصوموں کا ستارا شہزادہ علی اصغرؑ
  31. معراجِ خطابت (5 جلدیں)
  32. مجالسِ محسنہ
  33. عظمتِ صحابہ(عشرہ مجالس)
  34. عظمتِ ابو طالبؑ (عشرہ مجالس)
  35. امام اور اُمت (عشرہ مجالس)
  36. ظہورِ امام مہدی (عشرہ مجالس)
  37. احسان اور ایمان (عشرہ مجالس)
  38. قاتلانِ حسینؑ کا انجام (عشرہ مجالس)
  39. قرآن کی قَسمیں (عشرہ مجالس)
  40. محسنین اسلام (عشرہ مجالس)
  41. امہات المعصومین (عشرہ مجالس)
  42. دس دن اور دس راتیں (عشرہ مجالس)
  43. علم زندگی ہے (عشرہ مجالس)

وفات ترمیم

13 ستمبر 2020ء کو بعارضہ قلب کراچی میں بعمر 80 برس وفات پا گئے،[5] ان کو رات گئے آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ لیکن جانبر نہ ہو سکے، انچولی امام بارگاہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی، قبرستان وادی حسین میں تدفین ہوئی

حوالہ جات ترمیم

  1. https://www.express.pk/story/2080041/1
  2. sobia zahra (20-10-2018)۔ "web"۔ https://sirfurdu.com۔ sobia۔ اخذ شدہ بتاریخ https://sirfurdu.com/archives/30625/  روابط خارجية في |website= (معاونت)[مردہ ربط]
  3. "شعیہ عالم دین انتقال کر گئے"۔ https://sirfurdu.com/۔ sobia zahra۔ 20-10-2020۔ 26 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2020  الوسيط |first1= يفتقد |last1= في Authors list (معاونت); روابط خارجية في |website= (معاونت)
  4. Mudassir Bhatti Bhatti (ایک روشن ستارہ ہوا غروب، علامہ سید ضمیر اختر نقوی وادی حسین قبرستان میں سپرد خاک)۔ "ایک روشن ستارہ ہوا غروب، علامہ سید ضمیر اختر نقوی وادی حسین قبرستان میں سپرد خاک"۔ tjnonline.com۔ jtn۔ 23 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. https://jang.com.pk/news/819850