طب یونانی میں یونانی کا لفظ دراصل Ionian کی عربی زدہ صورت ہے جس کے معنی Greek یا یونان کے ہیں۔ اس کو حکمت بھی کہا جاتا ہے اور یونانی طب بھی اور بعض اوقات صرف یونانی۔

یونانی طریقہ علاج کا ماخذ عربی اور فارسی لٹریچر ہے اور اس کا بنیادی نظریہ اخلاط اربعہ (بلغم، خون، صفرا اور سودا) جو انسانی بدن کی بنیاد ہیں اور ان سے پیدا شدہ مزاج پر قائم ہے۔ چنانچہ جب یہ اخلاط اعتدال پر قائم رہتے ہیں انسان کا مزاج بھی معتدل رہتا ہے اور اسی کا نام صحت ہے اور جب یہ اخلاط کسی اندرونی یا بیرونی اثر کے سبب اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں تو انسان کا مزاج بھی اعتدال میں نہیں رہتا اور یہی صورت حال بیماری سے تعبیر کی جاتی ہے جسے اعتدال پر لانے کے لیے مناسب دوا و غذا اور ترکیب کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی کا نام علاج ہے۔ جو ایک طبیب کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ بدنِ انسان کا یہ نظام ایک قوت کے ذریعہ انجام پاتا ہے جسے قوت مدبرہ بدن، مناعت یا امیونٹی کہتے ہیں۔[1]

تاریخ

 
اردو زبان میں فعلیات پر یونانی کتاب کا سر ورق، مطبوعہ 1289ھ (1868ء) متحدہ ہندوستان

پتھروں کے ابتدائی زمانے میں عبادت گاہوں کے راہب جھاڑ پھونک کے پردے میں جڑی بوٹیاں بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ طب کی ابتدائی صورت تھی۔ اس فن کو باقاعدہ اسقلی بیوس نے اختیار کیا۔ ایک حوالہ کے مطابق اسقلی بیوس یونانی زبان میں حنوک / ادریس بن یارد کو کہا گیا ہے۔ اسقلی بیوس کے بعد بے شمار درد مندر انسانوں نے طب کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ یونانی طبیبوں کی تعداد کثیر ہے اور زمانہ طویل مگر وہ جواہر پارے جو آسمان پر مادہ انجم کی طرح چمکتے ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ فیثاغورث، افلاطون، بقراط، ارسطو، لقمان اور جالینوس۔

جالینوس یونان کا آخری طبیب تھا۔ ظہور اسلام کے بعد طب نبوی سے اس فن کی نشاۃ ثانیہ ہوئی۔ اور رفتہ رفتہ طب کی کتابیں، سریانی، عبرانی اور یونانی سے عربی میں منتقل ہوئیں۔ اس فن کو حشور و زوائد سے پاک کہا گیا ہے۔ بے شمار اضافے ہوئے۔ طب یونانی کی درس گاہیں اور بیمارستان (اسپتال) کھلنے شروع ہوئے اس طرح طب یونانی کا رواج عام ہو گیا۔ یہ سہرا جن اطبا کے سر بندھا ہے، وہ ہیں جبریل بن بختیشوع، حنین بن اسحاق، یوحنا بن ماسویہ، علی بن ربن طبری، جابر بن حیان، زکریا رازی، ثابت بن قرہ، ابو سہل مسیحی گرگانی، ابو القاسم زہراوی، ابن الہیثم، بوعلی سینا، زین الدین جرجانی، ابن بیطار، داؤد انطاکی وغیرہ۔

شخصیات طب

بقراط

طب یونانی کی تاریخ کا تعاقب کیا جائے تو یہ قبل مسیح 460 تا 377 کے زمانے تک لے جاتی ہے جب ایک فلسفی بنام بقراط (Hippocrates)، جس کو بابائے طب بھی کہا جاتا ہے، نے ایسے مقالات و دانش نامے تحریر کیے کہ جنھوں نے طب کی بنیاد بننے والے اصولوں کو ایک مضبوط و مرتکز مقام دیا، بقراط کے بابائے طب کہلائے جانے سے بحث نہیں لیکن واقعی ایسا تھا کہ نہیں اس کا کوئی بھی حتمی فیصلہ مشکل ہے کیونکہ یہ مان لینا منطق کے خلاف ہے کہ اچانک ایک فرد نے اٹھ کر تمام علم کی بنیاد رکھ دی ہو اور اس کا کوئی استاد ہی نہ ہو، شواہد راہنمائی کرتے ہیں اور تاریخ عالم تائید کہ بقراط نے مصر اور بین النہرین کی قدیم ترین تہذیبات اور وہاں پیدا ہونے خیالات سے بھی استفادہ کیا، بین النہرین (Mesopotamia) موجودہ عراق، شام اور ترکی میں شامل وہ علاقہ ہے جو دریائے دجلہ (Tigris) اور فرات (Euphrates) کے مابین پایا جاتا ہے، اس میں پروان چڑھنے والی تہذیب دنیا کی چند قدیم ترین (بعض اندازوں کے مطابق قدیم ترین) تہذیبوں میں سے ہے۔ بقراط کے بارے میں یہ یقینا کہا جا سکتا ہے کہ اس نے پہلے سے موجود علم میں بے پناہ اضافہ، نئے خیلات و تصورات شامل کیے اور اصلاحات کر کے اس کو اس مقام تک پہنچایا کہ جہاں سے آنے والے زمانوں میں تحقیق اور ترقی کی بنیادیں فراہم ہوئيں۔

جالینوس

جالینوس (Galenus) بھی ایک یونانی طبیب و فلسفی تھے، ان کو انگریزی میں Galen بھی کہا جاتا ہے۔ (حکیم) جالینوس کا زمانہ 129 تا 200 م کا احاطہ کرتا ہے۔ جالینوس ایک حکیم یا طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ علم الہیئت، نجوم اور فلسفہ میں بھی ماہر تھے۔ انھوں نے قدیم یونانی نظریات کو ایک شفاف شکل دی اور اس کو عملی طور پر سمجھنے کی کوششیں کیں، مثلا انھوں نے جانوروں پر تجربات کیے اور گردوں، اعصاب اور خون کی دل میں گردش کے بارے میں اپنے نظریات پیش کیے اور اپنے بعد آنے والے طبیبوں کے واسطے ایک واضح راستہ بنا دیا۔

جابر ابن حیان

جابر ابن حیان (انگریزی میں Geber) کا زیادہ تر کام گو کہ کیمیا، طبیعیات اور علم الہیت پر ہے مگر انھوں نے طب میں بھی تحقیق کی۔ ان کا زمانہ 721 تا 815ء کا ہے۔

ابن ربن طبری

ابن ربن طبری کا تعلق ایران کے علاقے طبرستان سے تھا جو مازندران کا پرانا نام ہے۔ اور زمانہ ان کا 838 تا 870ء ہے۔ حکیم صاحب نے حکمت پر ایک جامع کتاب فردوس الحکمت لکھی۔ یہ مشہور عالم ابوبکر الرازی کے استاد بھی تھے۔

ابوبکر الرازی

ابوبکر محمد ابن زکریا الرازی 864ء میں ایران کے شہر رے میں پیدا ہوئے۔ آپ نامور مسلمان عالم، طبیب، فلسفی، ماہر علم نجوم اور کیمیا دان تھے۔ جالینوس العرب کے لقب سے مشہور ہوئے۔ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام علم طب کے ائمہ میں آتا ہے۔ ان کی سب سے مشہور کتاب "الحاوی" اسی زمانے کی یاد گار ہے۔ اس کا پورا نام "کتاب الحاوی فی الطب" ہے۔ الحاوی دراصل ایک عظیم طبی دائرۃ المعارف ہے۔ رازی کی تصانیف سترہویں صدی عیسوی تک یورپ میں بڑی مستند تصور کی جاتی تھیں، ان کے تراجم لاطینی میں کیے گئے اور یورپ کی درس گاہوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہیں۔ 925ء میں وفات پائی۔

تنقید

طب متبادل - ترمیم
اصطلاحات طب متبادل (انگریزی)
  1. طب متبادل
  2. مداخلہ جسم و ذھن
  3. حیاتیاتی معالجات
  4. بادستکاری معالجات
  5. معالجات توانائی
مزید دیکھیۓ

طب یونانی جس کو صرف یونانی اور حکمت کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے آج ایک ایسا طریقہ علاج بن چکا ہے جس پر شاید ہر ملک میں ہی طب متبادل کا ٹھپا لگایا جاچکا ہے۔ اب اس بات پر کوئی اعتراض بھی کرنا مشکل ہے کہ خود حکمت نے اپنے آپکو تبدیل کرنے اور نئی تحقیق میں اتنا سست کر لیا کہ آج اس کو واقعی طب کے اولین انتخاب کے طور پر نہیں اپنایا جا سکتا کہ اس میں مختلف امراض کا اس قدر پریقین علاج ناممکن ہے کہ جیسا طب مغرب (Western Medicine) سے کیا جا سکتا ہے۔ بس اسی لیے آج یہ متبادل طب بن چکا ہے۔ گو کہ ایک زمانہ تھا جب طب کے اس شعبے میں اس وقت موجود دنیا کے ہر طریقہء علاج سے بہتر علاج موجود تھا۔ اگر اس میں تحقیق اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا جاتا تو آج اس کے ذریعہ جراحی سمیت وہ تمام معالجات ممکن ہوتے جو موجودہ میڈیسن کے ذریعہ ممکن ہیں۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. طب یونانی کا میٹریا میڈیکا از حکیم سید شجاع الدین حسین ہمدانی، صفحہ 35، عُثمان پبلی کیشنز