عرفجہ بن ہرثمہ بن عبد العزی بن زہیر بن ثعلبہ بارقی، مشہور صحابی اور خلافت راشدہ کے عسکری قائد، امیر، سیاسی شخصیت اور والی تھے، ایران و عراق میں ساسانی سلطنت کے خلاف ان کے معرکے اور فوجی حملے ان کے نمایاں کارناموں میں سے ہے۔[1]

عرفجہ بن ہرثمہ بارقی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 592ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بارق   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 654ء (61–62 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موصل   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ
شاخ ابوبکر وعمر وعثمان کے زمانے میں اسلامی فوج.
عہدہ کمانڈر   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کمانڈر فتنہ ارتداد کی جنگیں، فارس کی مسلم فتوحات

عرفجہ بن ہرثمہ بارقی کا شمار عرب کے مشہور بہادروں اور جنگی تجربہ کاروں میں شمار ہوتا تھا، صائب الرائے قائد تھے، بہادر جلیل القدر صحابہ میں شمار ہوتا تھا، خلیفہ اول ابوبکر صدیق نے مرتدین کے خلاف جنگ کے لیے جن گیارہ اصحاب کو منتخب کیا تھا اور جن کے ہاتھوں میں جھنڈا دیا تھا ان میں سے ایک تھے۔[2] اسی طرح فارس میں پہلے اسلامی مجاہد اور پہلے سمندری محاذ کے غازی ہیں۔[3][4]

بویب، بصرہ، آبلہ، قادسیہ اور مدائن کے معرکوں میں امیر اور قائد تھے،[5][6] اسی طرح تکریت اور موصل کی فتح میں بھی گھڑسواروں کی قیادت انھیں کے ہاتھ میں تھی اور موصل و نینوا کی فتح کے بعد وہاں کے والی بھی مقرر ہوئے تھے۔[7] پھر عمر بن خطاب نے انھیں عتبہ بن غزوان کے جنوب عراق بھیج دیا اور وہاں بصرہ شہر قائم کرنے اور اس میں عرب مجاہدین کو بسانے کی ذمہ داری دی۔[8] پھر وہاں سے عتبہ بن غزوان نے انھیں فارس میں علاء الحضرمی کی فوج کے محاصرہ کو ختم کرنے کے بصرہ کے فوج کا قائد بنا کر بھیجا، اسی طرح عمر بن خطاب نے ہرمزان نے جنگ کا بھی حکم دیا تھا، چنانچہ اہواز میں فوجی چڑھائی کی اور تستر تک بڑھتے چلے گئے، ہرمزان کو شکست بھی دی۔[7]

عمر بن خطاب نے انھیں موصل کی ولایت کا امیر مقرر کیا تھا اور اپنی وفات سنہ 34ھ تک وہاں کے والی رہے۔[9] شہر بسانے اور آباد کاری میں مشہور تھے، انھیں کے موصل کو بسایا گیا اور انھوں نے ہی وہاں عرب قبائل کے بسنے کے لیے منصوبہ اور نقشہ تیار کیا تھا، ایک جامع مسجد بھی بنائی تھی۔[10] پھر دریائے دجلہ کے مشرق میں نیا موصل شہر بسایا، وہاں قلعہ تعمیر کیا اور ہزاروں فوجیوں کو بسایا۔ موصل کے لوگ انھیں ان کی حسن انتظام، عدل اور دوسرے انتظامی کاموں کی وجہ سے بہت پسند کرتے تھے، مؤرخین انھیں "موصل میں اسلامی عہد کا بانی" شمار کرتے ہیں۔[11]

حالات زندگی و سیرت ترمیم

نسب ترمیم

عرفجہ بن ہرثمہ بن عبد العزی بن زہیر بن ثعلبہ بارقی،[12] ان کا سلسلہ نسب بارق بن حارثہ بن عمرو مزیقیاء بن عامر بن حارثہ بن امرؤ القیس بن ثعلبہ بن مازن بن ازد بن الغوث بن نبت بن مالک بن زید بن کہلان بن سبا سے سے ملتا ہے۔[13]

ابتدائی حالات ترمیم

 
بجیلہ کا علاقہ جہاں عرفجہ پروان چڑھے

عرفجہ بن ہرثمہ ہجرت سے تقریباً 30 سال پہلے پیدا ہوئے، زمانہ جاہلیت میں ان کا قبیلہ بنو بارق آپسی خانہ جنگی کا شکار ہو گیا، جس کی وجہ سے عرفجہ کے اہل خاندان اس قبیلہ سے نکل کر "بنو بجیلہ" نامی قبیلہ سے مل گئے اور ایام عرب کی جنگوں میں ان کے ساتھ "بنو عامر" کے حلیف رہے، جنگوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔[14][15]

عرفجہ بن ہرثمہ ایک خوش حال گھرانے میں پروان چڑھے، فصاحت، بہادری، تلوار بازی اور شہ سواری پر پرورش و پرداخت ہوئی، نہایت حاضر جوابی اور پختہ دلائل سے گفتگو کرتے تھے، ابتداً تجارت میں دلچسپی لی، ملکوں اور شہروں کا سفر کیا، ہر طرح کے لوگوں سے ملاقات کی، اس سے شہروں کو جاننے اور لوگوں کو پرکھنے کا تجربہ حاصل ہوا، اس طرح "بنو بجیلہ" کی سرداری کے اہل ہو گئے۔ عرب کے مشہور گھڑسواروں میں شمار ہوتا تھا، عرب کا مشہور گھڑسوار اور شاعر "معقر بارقی" کے گروہ سے متعلق تھے، نوجوانی میں اپنے قبیلہ "بنو بجیلہ" کے سردار مقرر ہو گئے۔[16][17]

اسلام ترمیم

تراجم و تاریخ کی کتابوں میں عرفجہ بن ہرثمہ کے قبول اسلام اور پیغمبر اسلام کی صحبت کا یا مدینہ منورہ میں قیام کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے، البتہ عمر بن خطاب کے ایک بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی قوم میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے اور ہجرت کرنے والے تھے۔ جب عمر بن خطاب نے سنہ 13ھ میں انھیں ان کی قوم "بنو بجیلہ" کا عراق کی فتوحات کا امیر مقرر کیا تو ان کی قوم نے ان کی امارت کا انکار کرنا چاہا، عمر فاروق نے کہا «میں اس شخص کو امیر بنانے سے نہیں رک سکتا تو تم میں سے پہلے اسلام قبول کرنے والا اور ہجرت کرنے والا ہے»۔[18][19]

اس معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور ہجرت کی تھی، چونکہ ہجرت فتح مکہ کے بعد حدیث نبی کی وجہ سے کالعدم ہو گئی تھی، اس لیے معلوم ہوتا ہے انھوں نے فتح مکہ یعنی سنہ سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "الإصابة في تمييز الصحابة - ابن حجر العسقلاني - ج 4 - الصفحة 401"۔ 02 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2020 
  2. البداية والنهاية - ابن كثير - ج 6 - الصفحة 346 آرکائیو شدہ 10 نومبر 2018 بذریعہ وے بیک مشین
  3. قادة فتح العراق والجزيرة - محمود شيت خطاب - الصفحة 362 آرکائیو شدہ 21 دسمبر 2019 بذریعہ وے بیک مشین
  4. "تاريخ الطبري - الطبري - ج 2 - الصفحة 646"۔ 21 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2020 
  5. "الإصابة - ابن حجر - ج 4 - الصفحة 401"۔ 21 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2020 
  6. "الأنساب والأسر - عبد المنعم الغلامي - الصفحة 160"۔ 21 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2020 
  7. ^ ا ب الكوفة وأهلها في صدر الإسلام - صالح أحمد العلي -الجزء 2 - الصفحة 282. آرکائیو شدہ 2018-10-02 بذریعہ وے بیک مشین
  8. "الأعلام - خير الدين الزركلي - ج 8 - الصفحة 82"۔ 13 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2020 
  9. موسوعة الموصل الحضارية - هاشم يحيى الملاح - ج 2 - الصفحة 30 آرکائیو شدہ 2019-12-15 بذریعہ وے بیک مشین
  10. Hazrat Omar Farooq - Shāh Muʻīnuddīn Aḥmad Nadvī - page 81 آرکائیو شدہ 2019-01-31 بذریعہ وے بیک مشین
  11. الجامع - بامطرف - الجزء 3 - الصفحة 32 آرکائیو شدہ 2018-10-02 بذریعہ وے بیک مشین
  12. جمهرة أنساب العرب -ابن حزم - الصفحة 367 آرکائیو شدہ 2018-10-06 بذریعہ وے بیک مشین
  13. الاشتقاق - ابن دريد - ج3 - الصفحة 481 آرکائیو شدہ 2018-10-06 بذریعہ وے بیک مشین
  14. كتاب المحبر - محمد بن حبيب البغدادي - الصفحة 249 آرکائیو شدہ 2018-10-02 بذریعہ وے بیک مشین
  15. "أسد الغابة - ابن الأثير - ج 1 - الصفحة 280"۔ 02 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2020 
  16. تاريخ الطبري - الطبري - المجلد 2 - الصفحة 654. آرکائیو شدہ 2018-10-02 بذریعہ وے بیک مشین
  17. "تهذيب المقال - الأبطحي - المجلد 3 - الصفحة 40."۔ 21 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2020 
  18. تاريخ الطبري - الطبري - ج 2 - الصفحة 646 آرکائیو شدہ 2018-09-01 بذریعہ وے بیک مشین
  19. طريق الى المدائن - أحمد عادل كامل - الصفحة 420 آرکائیو شدہ 2019-12-21 بذریعہ وے بیک مشین