موضوع روایات ہیں یہ

عقیق ایک نظر نواز اور مشہور جواہر ہے۔ اسے فارسی اور عربی میں عقیق یمنی، سنسکرت میں ہلیک اور انگریزی میں(Agate) اگیٹ اورکا رنیلین (Cornelian) کہتے ہیں۔ یہ نگینہ ہر بلا سے محفوظ رکھتا ہے۔[حوالہ درکار] اس کی متعدد اقسام ہیں۔ اس کا شمار ایک طرح سے مذہبی پتھروں میں ہوتا ہے۔ دنیا میں بہترین عقیق یمنی مانا جاتا ہے، اس کی رنگت کلیجی کی طرح ہوتی ہے، مزہ پھیکا ہے، مزاج سردوخشک ہیہ عقیق یمنی کے مقابلے میں کھمباتی عقیق دوسرے درجے کا پتھر تصور کیا ہے تاہم یہ بھی اچھے اثرات کا حامل ہے بشرطِ کہ صاف اور بہتر ہو بہ صورتِ دیگر کھمباتی عقیق مزاج میں غصہ اور امور میں الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ یہ عقیق بمبئی کے قریب کھمبات سے مختلف رنگوں اور سائز میں دست یاب ہے۔ اس کو بزرگانِ دین نے زیادہ اپنایا ہے۔ صوفیائے کرام، درویش، جوگی اور ملنگ اس کا استعمال بہ کثرت کرتے ہیں۔ یہ انتہائی قدیم پتھر ہے اور تقریباً چار ہزار سال سے زیر استعمال ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں اس کو مقدس مانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں اس کی انگوٹھی طہارت وعبادت کی طرف طبیعت کو مائل کرتی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ تارک الدنیا لوگوں نے اس کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔

عقیق مزاج میں چڑچڑے پن کو رفع کرتا ہے اور دنیاوی کاموں کے لیے بھی بہت معاون قرار دیا جاتا ہے۔ عقیق کام کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے چوں کہ اس میں سلیکیٹ اورآئرن کی زیادتی ہے جس کی وجہ سے یہ مزاج میں نرمی اور امور میں توکل پیدا کرتا ہے۔ اس کی (Hardness 7) ہے اس میں سلیکا، لوہا اور کوارٹزکی آمیزش ہے ۔

عقیق پر سائنس کی نظر: مغرب کے ممتاز ڈاکٹر اسمتھ نے پتھروں کو توڑنے اور ان پر بیس برس تحقیقات کرنے کے بعد ایک کتاب لکھی جس کا نامThe Precious Stons ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب کسی چٹان پر ایک ہزار برس متواتر سورج اورچاند چمکتے رہتے ہیں تو اس کے اندر ایک مادہ پیدا ہوتا جو بہ منزلہ نقطہ کے ہوتا ہے۔ یہ مادہ سورج اور چاند سے رنگ، چمک اور تاثیر لیتا ہے۔ عقیق کی تاثیر یہ ہے کہ اس کی شعاعیں قلب انسانی کے مسامات کو کھولتی ہیں۔ جب کوئی عقیق کو ایسی انگوٹھی میں پہنتا ہے جس کے نیچے کا حصہ کھلا ہوا ہو اور یہ پتھر اس کی چھوٹی انگلی سے مس ہو تو آفتاب کی کرنیں عقیق کے ذریعے جسم انسانی میں داخل ہوتی ہیں، اس کا اثر قلب انسانی پر پڑتا ہے جس سے انسان کے دل کے مسامات کھل جاتے ہیں تو آکسیجن، جوحیات انسانی کے لیے بہت ضروری ہے، ان مسامات میں زیادہ بھر جاتی ہے۔ اس عمل سے وہ مسامات فربہ ہو جاتے ہیں اور اس آکسیجن سے جسم انسانی کو فرحت حاصل ہوتی ہے، چہرے پر سرخی دوڑنے لگتی ہے، اس خوش طبعی کی بنا پر اس کا دل کام میں لگتا ہے اور وہ عمل خوشی سے بھر پور طریقے سے کرتا ہے اس کی خوراک میں اضافہ ہو جاتا ہے نہ صرف یہ بل کہ اس کے رزق میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور فقر دور ہوتا ہے۔

مقامات پیدائش:عقیق چٹانوں کے اندر پائے جاتے ہیں اور دریائوں کی تہوں میں بھی ملتے ہیں۔ عقیق چٹان کی سبز مٹی کی ایک پتلی تِہ سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں اس لیے بہ آسانی الگ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مقدار میں ایک جوار کے دانہ سے لے کر ایک فٹ قطر تک ہوتے ہیں۔ عام طور پر دو تین انچ قطر میں بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں عقیق کی کانیں پائی جاتی ہیں جن میں سے جرمنی، عرب، برازیل، یوروگوئے، یمن، امریکا او ر ہندوستان میںگجرات اور حیدرآباد دکن قابل ذکر ہیں۔

عقیق کی شناخت:عقیق کی چمک بلوریں رنگ بھورا، زرد، سفید، سرخ اور سیاہ ہوتا ہے۔ عقیق کے رنگوں کی دھاریاں یا تو ایک دوسرے کے متوازی ہوتی ہیں یا سب ہم مرکز گول ہوتی ہیں اور یا اس کے رنگ داغ اور دھبوں کی طرح بکھرے ہوتے ہیں اس کورگڑنے سے برقی قوت پیداہوتی ہے۔

آج کل بازار میں بے شمار قسم کے عقیق دست یاب ہیں جو ہر رنگ اور حجم میں ہیں لیکن ان میں 95 فی صد جعلی ہوتے ہیں۔ عقیق کو پہچانے کے لیے دو طریقے یادرکھیں کہ نقلی عقیق چین سے آ رہے ہیں جس میں ان کی بیس یا نیچے کاحصہ بالکل سیدھا ہوتا ہے اور اس کو تھوڑا سااوپر نیچے کیا جائے تو اس کے بالکل درمیان میں ایک ہلکا سا گڑھا نظر آتا ہے اور اس کے کنارے پر ناخن پھیریں تو وہ بالکل ہموار ہوتا ہے۔ یہ عقیق کے نقلی ہونے کی نشانی ہے۔ اصل عقیق کا نیچے کا حصہ بھی ابھرا ہوا ہوتا ہے اور اس کے کنارے پر ناخن پھیریں تو وہاں دھار نما کھردرا پن ہوتا ہے، یہ اصل عقیق کی نشانی ہے کیوں کہ اصل عقیق کو مختلف قسم کی مشینوں پر رگڑ کر بنایا جاتا ہے اور نقلی عقیق سائز میں بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں جب کہ اصل عقیق ایک سائز میں کبھی نہیں آتے۔ ایران، عراق، سعودی عرب جانے والے زائرین کو اکثر دکان دار یہ ہی چین کے نقلی عقیق دے کر لوٹ لیتے ہیں۔ یاد رکھیں عقیق لیتے وقت یہ دو نشانیاں ہمیشہ مدنظر رکھیں۔

عقیق کے بارے میں احادیث:جنا ب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کسی نے شکایت کی کہ میرا مال راستے میں لٹ گیا، فرمایا کہ تو عقیق کی انگوٹھی کیوں نہیں پہنتا کہ وہ ہر بلا سے آدمی کو محفوظ رکھتی ہے اور فرمایا کہ عقیق کی انگوٹھی اندوہ اور غم سے بھی غنی کرتی ہے۔

ایک اور حدیث میں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ جو شخص عقیق کی انگوٹھی پہنے گا جب تک وہ ہاتھ میں رہے گی کوئی غم اس کو نہ ہوگا۔

ایک حدیث ہے کہ عقیق کی انگوٹھی پہنو کہ پتھروں میں یہ پہلا ہے، جس نے خدا کی وحدانیت اور میری نبوت کا اقرار کیا ہے۔

ایک اور حدیث میں وار د ہے کہ ایک حاکم نے کسی کی گرفتاری کے لیے سپاہی بھیجے، آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے عزیز و اقارب کو بلا کر فرمادیا کہ عقیق کی انگوٹھی اس کے پاس پہنچا دو، چناں چہ حکم کی تعمیل کی گئی اور وہ صاف بری ہو گیا۔

منقول ہے کہ سلیمان اعمش ایک روز منصور عباسی کے گھر بہ غرض خدمت حاضر تھا،انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص کو تازیانہ مار کر باہر لایا گیا۔ انھوں نے یہ واقعہ حضرت امام جعفر صادق سے بیان کیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ اس کے ہاتھ میں انگوٹھی کس نگینہ کی تھی۔ سلیمان اعمش نے عرض کیا یا ابن رسول اللہ عقیق نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے سلیمان اعمش اگر عقیق کی انگوٹھی اس کے ہاتھ میں ہوتی تو یہ شخص ہرگز تازیانے نہ کھاتا۔

کہا جاتا ہے کہ جن کنکریوں نے رسول خداؐ کے دستِ مبارک پر آ کر آپ کی رسالت کی گواہی دی تھی، پتھر کی وہ کنکریاں عقیق بن گئیں۔ یہ معجزہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلے عقیق کی انگوٹھی حضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی یہ عقیق سرخ رنگ کا تھا۔

عقیق کے خواص:جو شخص عقیق پہنے اس کا غصہ جاتا رہتا ہے اور دشمنوں کے دلوں پر اس کا رعب جم جاتا ہے۔ اس کی تمام حاجات جلد پوری ہو جاتی ہیں، اس کے سینے میں کبھی درد نہیں اٹھتا، جس شخص نے عقیق پہنا ہو زہریلے کیڑے اس کے نزدیک نہیں آتے، یہ دل کو تقویت پہنچاتا ہے، جس شخص نے عقیق پہنا ہوا ہو تو یہ پتھر شعاعیں اپنے اندر جذب کرکے اس شخص کے جسم میں منتقل کرتا ہے، اس سے جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور صحت وتن درستی برقرار رہتی ہے۔

اس پتھر کا پہننا مزاج میں چڑچڑے پن کی کیفیت کو دور کرتا ہے، دل کی دھڑکن کو اعتدال پر رکھتا ہے اور اختلاج قلب کی شکایت کو رفع کرتا ہے، عقیق کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ یہ پتھر دل سے کینے اور نفاق کو دوکرکے بھائی چارے کی فضا پیدا کرتا ہے۔ یہ پتھر ہر انسان کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ حکیم افلاطون کا کہنا ہے کہ سفید عقیق یادداشتت کو تیز کرتا ہے، سرخ عقیق کا پہننا عزت و مرتبہ میں اضافہ کرتا ہے، جب کہ زرد عقیق پہننے سے مراد جلد پوری ہوتی ہے۔

اس پتھر کا پہننا سفر میں آفات اور مصیبتوں سے بچاتا ہے اور انسان کی حفاظت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو شخص کافور، عنبر اور عقیق کو رگڑ کر ماتھے پر لگائے اور پھر حاکم کے پاس جائے تو حاکم اس پر مہربان ہوگا۔

عقیق کے طبی خواص: عقیق کا ذائقہ پھیکا اور مزاج سرد وخشک ہوتا ہے۔ طبی طریق پر اس کا سرمہ امراض چشم میں فائدہ دیتا ہے، بینائی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کا سفوف دانتوں پر منجن کی طرح ملنے سے پائیوریا کا مرض دور جاتا رہتا ہے، دانتوں سے خون رسنا بند ہوجاتا ہے، دانت مضبوط اور سفید وشفاف ہو جاتے ہیں۔ اس کا استعمال منہ سے یا چوٹ سے خون جاری ہونے کو بند کرتا ہے، اس کا کشتہ خفقان کو دور کرتا ہے، دماغ کے فالج میں عقیق کا استعمال فائدہ دیتا ہے، پرانے زخموں کے اندمال کے لیے عقیق کا کشتہ مرہم کی حیثیت رکھتا ہے، خواتین کے اندرونی پیچیدہ امراض میں بھی یہ مفید ثابت ہوا ہے، ایام کی کمی یا زیادتی کو اعتدال پر لاتا ہے، پھیپھڑوں سے خون آنے کے مرض میں فائدہ پہنچاتا ہے، مثانے اور پیشاب کی نالیوں کے نظام کو درست کرکے پیشاب میں کمی کی شکایت کو رفع کرتا ہے، پیشاب کے ساتھ خون آنے کی شکایت بھی دور ہو جاتی ہے۔ انتہائی سرخ عقیق حضرت امام حسین سے منسوب ہے، یہ ہی سرخ رنگ کا عقیق قبولیت دعا کا سہارا ہے حضرت علی اکبر نے اپنی عقیق کی انگوٹھی دے کر ہدایت فرمائی بیٹا اسے منھ میں رکھو اس سے تمھیں تسکین قلبی ہوگی اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کے قابل رہو گے۔

اقسام:عقیق کی کافی اقسام ہوتی ہیں جن میں سے ماہرین درج ذیل کو بیان کرتے ہیں۔

  • 1۔ عقیق سلیمانی:۔ اس میں گولائی کی شکل میں نشان ہوتے ہیں۔
  • 2۔ یمنی عقیق:۔ اس کی رنگت بکرے کے جگر کے مشابہ ہوتی ہے، عقیق کی یہ سب سے اعلٰی قسم ہے۔
  • 3۔ ڈوری دار عقیق:۔ اس پر مختلف انداز کی دھاریاں ہوتی ہیں۔
  • 4۔ ایمے تھیسٹ:۔ اس میں ربن عقیق کے مرکب ٹکڑے ہوتے ہیں۔
  • 5۔ صاف وشفاف:۔ بالکل صاف وشفاف بلوریں آئینے کی مانند
  • 6۔ ماس اگیٹ:۔ یہ بھورے زرد رنگ کا ہوتا ہے، اس میں سرخی مائل سنگ یشم اور کالسڈونی کی دھاریاں ہوتی ہیں۔
  • 7۔ چشمی عقیق:۔ اس کی شکل آنکھ کی مانند ہوتی ہے
  • 8۔ عقیق شجری:۔ اس میں درخت کی شاخوں مانند ریشے نظر آتے ہیں۔
  • 9۔ ریشمی فیتہ:۔ اس عقیق کو کہتے ہیں جن میں جداجدا رنگوں کے طبقے ہوں اورایک دوسرے کو قطع کرتے ہوں۔
  • 10۔ فارٹی فی کیشن:۔ اس میں بھیکہم اور ایمے تھیسٹ کے ٹکڑے دھاریوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
  • 11۔ پلاسما:۔ یہ سبزی مائل سیاہ رنگ کا نیم شفاف ہوتا ہے اور اس میں سفید اور زرد داغ ہوتے ہیں۔
  • 12۔ ذوطبقاتی:۔ اس میں ابرق کی مانند پرت دکھائی دیتے ہیں۔
  • 13۔ قوسِ قزح:۔ اس میں قوس قزح کی مانندملی جلی دھاریاں ہوتی ہیں۔
  • 14۔ سرخ اور جگری:۔ اس کی اندرونی رنگت بیرونی کی نسبت زیادہ سرخ ہوتی ہے۔
  • 15۔ گول عقیق:۔ اس میں گول دھاریاں ہوتی ہیں
  • 16۔ ساروآنکس عقیق
  • 17۔ مشرقی عقیق:۔ اعلیٰ قسم کے عقیق کو کہتے ہیں
  • 18۔ مغربی عقیق:۔ کم درجہ کے عقیق کو کہتے ہیں
  • 19۔ ابقی:۔ جو کچھ سفیدی مائل اور کچھ سیاہی مائل ہو
  • 20۔ صقاق:۔ جو صاف وشفاف نہ ہو بل کہ ذرا سا دھندلاہو۔

اس کے علاوہ تمام اچھے اور عمدہ قسم کے عقیق مشرقی عقیق اور کم درجہ والے مغربی عقیق کہلاتے ہیں جب کہ مصر میں سبز رنگ کے عقیق کو انٹاس، سیاہ رنگ کو سلیمانی اور خاکی رنگ کو گوری کہتے ہیں۔ سب سے اعلیٰ اور عمدہ قسم کو عقیق یمنی کہا جاتا ہے۔

بتایا جاتا کہ اگیٹ (عقیق) تین ہزار سال قبل یونانی فیلسوف تھیوفراستس Theophrastus نے دریافت کیا تھا۔ یہ جہاں سے دریافت ہوا، وہ ایک دریا تھا جس کا نام یونانی میں اچیت Achates تھا۔ یہ سن و سال تیسری اور چوتھی صدی قبل مسیح کے درمیان میں بتایا جاتا ہے۔ اچیت یا اچیٹ نام کا یہ دریا اب ڈیریلو کہلاتا ہے اور اس کا محلِ وقوع سسلی (اطالیہ) ہے۔

یہ پتھر آتش فشانی پہاڑون کے لاوے سے وجود میں آتا ہے۔ یہ اپنی اصلی حالت میں کچھ بے قاعدہ سے مدور ہوتے ہیں تاہم یہ پہاڑوں کی غاروں میں دیواروں پر دھاری دار بھی ہوتے ہیں، ان دھاریوں سے بعض اوقات خوب صورت ہندسئی اشکال بھی دیکھنے میں آتی ہیں جو ان غاروں کی دیواروں میں موجود دراڑوں میں لاوہ بھر جانے کی باعث صدیوں کے عمل سے صورت پاتی ہیں۔

عقیق خوب صورت نگینوں کے طور پر تو استعمال ہوتا ہی ہے تاہم اس کے استعمال اور بہت سے محل ہیں۔ یہ خواتین کے زیورات کی زینت بنتا ہے اور دفتری استعمال کی مختلف اشیاء بھی اس سے بنائی جاتی ہیں مثلاً پیپر نائیف، دواتیں، آرائشی ظروف بنائے جاتے ہیں حتیٰ کہ اس سے قبروں کی آرائش بھی کی جاتی ہے۔ خیبرپختون خوا میں رحمٰن بابا کی قبر، جو افغانستان کے سابق شاہ ظاہر شاہ نے بنوا کر بھیجی تھی، بعض لوگوں کے مطابق، عقیق ہی کی تھی۔

حوالہ جات ترمیم

تہذیب الاسلام علامہ مجلسی