عمرو بن کلثوم عہد جاہلیت کا ممتاز شاعر

حالات زندگی ترمیم

عمرو بن کلثوم بن مالک مخلی نے جزیرہ فراتیہ میں حسب و نسب کے مالک اور معزز قبیلے بنو تغب کے درمیان پرورش پائی۔ جب جوان ہوا تو عظیم لوگوں کی طرح خود دار، غیرت مند، شجاع اور فصیح اللسان تھا۔ ابھی پندرہ برس کا بھی نہیں ہووا تھا کہ اپنے قبیلے کا سردار بن گیا۔ بسوس کی وجہ سے بنو بکر و تغلب کے مابین لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ ان لڑائیوں میں یہی ان قائد ہوتا تھا۔ اس نے پوری جرت و طاقت سے ان لٹرائیوں میں حصہ لے کر کاہائے نمایاں سر انجام دیے۔ آخر دونوں قبیلوں نے آل منذر کے شاہان حیرہ میں ایک بادشاہ عمرہ بن ہند کے ہاتھ پر متفقہ مصالحت کرلی۔ مگر یہ صلح طویل مدت تک برقرار نہ رہے سکی اور جلد ہی ان کے مابین پھوٹ پڑ گئی۔ وہ عمرو بن ہند کے دربار میں بنو بکر کا شاعر حارث بن حازہ کھڑا ہوا اور اس نے اپنا مشہور قصیدہ پڑھ کر سنایا، جس کی بنائ پر بادشاہ کی نظر اتفات اس کی قوم کی طرف ہو گئی، حالانکہ اس سے قبل اس کا ذہنی میلان اہل تغلب کی طرف تھا اور وہ ان کی طرف داری کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر عمرو بن کلثوم ناراض ہوکر چلاگیا ۔

اس کے بعد ایک عجیب واقعہ ہوا کہ بادشاہ عمرو نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ تم عرب کا کوئی ایسا آدمی بتا سکتے ہوں جس کی ماں میری ماں کی خدمت کرنے کو اپنی توہین سمجھے؟ وہ کہنے لگے شاعر عمرو بن کلثوم کی ماں لیلیٰ کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کرنے کو ذلت اور عار سمجھے گی۔ کیوں کہ اس کا باپ صفل بن ربیعہ، اس کا چچا کلیب وائل اور اس کا خاوند کلثوم بن عتاب عرب کا مشہور شہسوار ہے اور اس کا بیٹا عمرو بن اپنی قوم کا مایہ ناز سردار ہے۔ یہ سن کر عمرو بن ہند نے عمرو بن کلثوم کو کہلا بھیجا کہ آپ آئیں اور والدہ کو بھی ساتھ لائیں، میری والدہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ چنانچہ عمرہ بن کلثوم خاندان تغلب کی ایک جماعت کو ساتھ لے والدہ کے ساتھ جزیرہ سے عمرو بن ہند کے ہاں پہنچا۔ عمرہ کے حکم سے فرات اور حیرہ کے درمیان شامیانے لگوا دیے گئے اور حکومت کے سرکردہ افراد کو بھی بلوا لیا گیا۔ وہ سب جمع ہو گئے ادھر عمرو بن ہند نے اپنی ماں کو سکھا دیا تھا کہ تم لیلیٰ بن صفل سے کوئی کام کہنا۔ جب لیلیٰ شامیانے میں داخل ہوئی اور اطمینان سے ایک جگہ بیٹھ گئی تو عمرہ بن ہند کی ماں نے لیلیٰ سے کہا ’ذرا یہ سینی تو مجھے اٹھا کر لادو ‘ لیلیٰ چلائی ’ہائے مجھے ذلیل کرتے ہیں‘ جب اس کے بیٹے عمرو بن کلثوم نے یہ سنا تو وہ غصے سے بھرا ہوا اٹھا اور وہیں بھرے دربار میں عمرو بن ہند کو قتل کر دیا پھر فوراً جزیرہ واپس چلا آیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنا شہرہ آفاق معلقہ کہا، جس کی ابتدا تعزل اور نوشی سے کی، پھر اس نے جو عمرو کے ساتھ کیا وہ بیان کیا اور اپنی قوم اور نسب کی بڑائی کا فخریہ تذکرہ کیا۔ یہ قصیدہ مجلسوں میں اس کثرت سے پڑھا گیا کہ عام و خاص کی زبان پر آگیا۔ خصوصاً بنو تغلب نے اس کو خوب پڑھا اور پھیلایا۔ چھٹی صدی کے اواخر میں اس کا انتقال ہو گیا ۔

شاعری ترمیم

عمرہ بن کلثوم فی البدیہہ شعر گو تھا، اس کا کلام اگرچہ بہت کم ہے مگر اس کا اسلوب بیان نہایت عمدہ اور مضمون بہترین اور پاکیزہ ہوتا تھا، نہ تو اس نے شاعری کی زیادہ اقسام میں طبع آزمائی کی اور نہ ہی اپنی فطرت کو آزاد چھوڑٓ اور نہ ہی اپنی خدا داد فطرت کے آگے سر تسلیم خم کیا، اس کا مکمل کلام بس اس کا یہی معلقہ اور کچھ قطعات ہیں۔ وہ بھی اس کے معلقہ کے موضع سے ملتے جلتے ہیں۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. احمد حسن زیات۔ تاریخ ادب عربی۔ ترجمہ، محمد نعیم صدیقی۔ شیخ محمد بشیر اینڈ سنز سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور