عمرو لیث صفاری ایران کے صفاری خاندان کے دوسرے حکمران تھے۔ ان کا عہد حکومت 879ء سے 901ء تک تھا۔ وہ ایک لوہار کے بیٹے تھے اور ان کے بڑے بھائی یعقوب لیث صفاری اس حکومت کے بانی تھے۔

عمرو لیث صفاری
امیر of the صفاری خاندان
عمر بن لیث کے دور کا سکہ.
879–901
پیشرویعقوب لیث صفاری
جانشینطاہر بن محمد بن عمر
خاندانصفاری خاندان
والدLayth
پیدائشUnknown
Karnin, modern-day افغانستان
وفات20 or 22 اپریل 902
بغداد
مذہباہل سنت

حالات زندگی ترمیم

ابتدا میں وہ یکہ کھینچا کرتے تھے اور مستری بھی تھے۔ مگر وقت نے پلٹا مارا اور ان کو اپنے بڑے بھائی کے ساتھ جنگ میں ہاتھ ازمائی کرنے کا موقع ملا۔ 875ء میں وہ ہرات کے گورنر بن چکے تھے۔ 879ء میں صوبہ فارس میں یعقوب لیث صفاری کی وفات ہو گئی اور عمر نے خود کو یعقوب کا جانشین قرار دیا حالانکہ خود یعقوب اور فوج کی نظر میں ان کے بھائی علی بن لیث جانیشینی کے حقدار تھے اور پسندیدہ بھی۔

884ء میں بواندید کے حکمران رسم اول کو صوبہ مازندران سے زیدیہ کے حکمران محمد بن زید نے بے دخل کر دیا اور بھگا دیا تو وہ عمر کے دربار میں پہنچا اور اس سے درخواست کی کہ وہ بوند کو دوبارہ حاصل کرنے میں اس کی مدد کرے۔ عمر نے اس کی مدد کی اور رستم دوبارہ مازداران پہنچ گیا۔ [1] عمر کا اقتدار اس قدر بڑھ گیا تھا کہ خلیفہ المعتضد باللہ کو بھی یہ ماننا پڑا تھا کہ مشرق میں صفاری خاندان کا زور ہے۔ صفاری کی حکمرانی خراسان اور مشرفی فارس پر تھی جبکہ بنو عباس جبال، رے شہر اور اصفہان پر براہ راست حکومت کرتے تھے۔ [2][3] چنانچہ عباسیوں نے صفاریوں سے تعلقات قائم کرلئے۔

دونوں کے تعلقات کا سیدھا خمیازہ رفیع بن حرثمہ کو بھگتنا پڑا جس نے رے شہر میں اپنی بالا دستی قائم کرلی تھی اور خلیفہ و صفاری باعث تشویش بنا ہوا تھا۔ خلیفہ نے اس کو رے سے بھگا دیا اور اس نے پھر زیدیہ کے یہاں پناہ لی۔ دونوں کا عزم تھا کہ صفاریوں سے خراسان حاصل کریں مگر زیدیہ اس کا ساتھ نہ دے سکے بالاخر رفیع 896ء میں خوارزم میں مارا گیا۔ عمر نے اس کا سر بغداد بھیج دیا۔ [4] 897ء میں خلیفہ نے رے شہر بھی صفاریوں کے حوالے کر دیا۔ [3][5][6]

وفات ترمیم

898ء میں خلیفہ نے عمر بن لیث کو ماوراء النہر کا گورنر بنا دیا جس پر اس کے مخالف دولت سامانیہ کی حکومت تھی۔ خلیفہ نے عمر کو سامانیہ سے لڑنے پر ابھارا لیکن عمر پکڑا گیا اور 900ء میں قید کر لیا گیا۔ سامانیہ کے حکمران اسماعیل بن احمد نے اس کو زنجیروں میں جکڑ کر بغداد روانہ کر دیا جہاں 902ء میں المعتضد کی وفات کے بعد اس کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اسماعیل بن احمد کے اس کام کے لیے المعتضد نے عمر والی خلعت عطا کی۔ [2][7][8]


حوالہ جات ترمیم

  1. Madelung 1993, pp. 595–597.
  2. ^ ا ب Kennedy 1993, pp. 759–760.
  3. ^ ا ب Bonner 2010, p. 336.
  4. Bosworth 1975, p. 120.
  5. Mottahedeh 1975, p. 78.
  6. Kennedy 2004, pp. 182–183.
  7. Bosworth 1975, pp. 121–122.
  8. Bonner 2010, pp. 336–337.