عمر بن علی بن ابی طالب (عربی: عُمَر الأطرف بن علي بن أبي طالب الھاشمی القریشی) امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے جبکہ بقول ابن خداع نسابہ مصری آپ کی کی کنیت ابو حفص تھی۔[1] آپ صاحب کلام، رائے فصاحت ، بلاغت ، سخاوت اور پاکدامن تھے۔ بعض مورخین نے آپ کا نام عمرو الاطرف بن علي بھی بتایا ہے۔[2]

عمر بن علی بن ابی طالب
عُمَر الأطرف بن علي بن أبي طالب

معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 680ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ینبع ، مدینہ
زوجہ اسماء بنت عقیل ابن ابی طالب
اولاد
بیٹے
محمد بن عمر
علی بن عمر
ابو ابراہیم اسمٰعیل بن عمر

بیٹیاں

ام موسیٰ بنت عمر
ام موسیٰ بنت عمر
ام حبیب بنت عمر
والد علی بن ابی طالب  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
رشتے دار والد : علی ابن ابی طالب
والدہ : صہبا تغلبیہ
عملی زندگی
نسب ہاشمی قریشی
خصوصیت سخاوت

ولادت ترمیم

آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں یقینی معلومات میسر نہیں، مورخین کے مطابق آپ کی ولادت خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ہوئی۔

نسب ترمیم

عمر بن علی بن ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرہ بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن كنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔

والدین ترمیم

آپ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت صہبا بن ربیعہ تغلبیہ کے فرزند تھے جو جنگ یمامہ کے قیدیوں میں سے تھیں۔ جبکہ بعض کے نزدیک معركة عين التمر سے خالد بن ولید کے قیدیوں میں سے تھیں۔ جنہیں بعد میں حضرت علی بن ابی طالب نے اپنے عقد میں لے لیا۔[3]

برادران و خواہران ترمیم

حضرت علی بن ابی طالب کے بی بی صہبا بن ربیعہ تغلبیہ سے دو جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ ایک عمر اور دوسری رقیہ کبری ۔ رقیہ کا عقد بعد میں حضرت مسلم بن عقیل سے ہوا۔[4]
(حسن بن علی - حسین بن علی - محمد بن حنفیہ - عباس بن علی - محمد الاصغربن علی - عثمان بن علی - ابو بکر بن علی- زینب بنت علی - ام کلثوم بنت علی - رملہ بنت علی - جمانہ بنت علی ودیگر)

اولاد ترمیم

بقول الشیخ ابو الحسن عمری آپ کے تین فرزند اور تین صاحبزادیاں تھیں۔
(1) محمد بن عمر(2) علی بن عمر (3) ابو ابراہیم اسمٰعیل بن عمر (4)ام موسیٰ بنت علی (5) ام یونس بنت علی (6) ام حبیب۔ ام یونس اور ام موسیٰ ان دونوں کی والدہ اسماء بنت عقیل بن ابی طالب تھیں۔اور ام حبیب کی والدہ ام عبد الله بنت عقیل بن ابی طالب تھیں۔[5]

اخلاق و اوصاف ترمیم

آپ فصیح اور بلیغ زبان کے مالک تھے اور اہل سخاوت اور پاکدامن تھے۔ کہتے ہیں: ایک دن آپ قحط سالی کے دور میں قبیلہ بنی عدی کے پاس سے گذر رہے تھے اس قبیلہ کے بزرگ آپ کے پاس آئے اور آپ سے گفتگو کی۔ اسی ہنگام ایک مناسب لباس پہنے ہوئے ایک شخص سامنے سے گذرا۔ آپ نے پوچھا یہ مرد کون ہے؟ کہا: سالم بن رقیہ ہے اور بنی ہاشم کے ساتھ اچھا سلوک نہیں رکھتا۔ آپ نے اسے بلایا اور اس سے اس کے بھائی سلیمان بن رقیہ کے بارے میں پوچھا۔ اس کے بعد آپ کے اچھے اخلاق اور واضح استدلالات سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کا بنی ہاشم کی نسبت عقیدہ متغیر ہو گیا۔ آپ نے وہاں سے رخصتی کے وقت اپنا تمام زاد سفر اس قبیلہ والوں کے درمیان تقسیم کر دیا اور ان کے جانے کے چوبیس گھنٹے بعد اس سرزمین پر باران رحمت نازل ہوئی۔ اہل قبیلہ نے ان کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیااور کہا: اس آدمی کا آنا اور جانا سب سے زیادہ مبارک رہا ہے۔ آپ جب تک زندہ رہے سالم کو اپنے ہدایا تقدیم کرتے رہے آپ کے دنیا سے جانے کے بعد سالم نے آپ کی شان میں قصیدہ پڑھا جس کا مضمون یہ ہے: "خدا کا سلام اس قبر پر جو اولاد امیر المومنین علی بن ابی طالب میں سے ہے جو بعد پیغمبر بہترین جانشین تھے۔ آپ سب سے زیادہ سخی اور عالم ہیں آپ کا ہمارے قبیلہ میں آنا اور واپس جانا دونوں مبارک تھا۔"

تنازع صدقات ترمیم

آپ اول تھے جنھوں نے عبد اللہ ابن زبیر کی بیعت کی پھر بعد میں حجاج بن یوسف کی بیعت کی۔بقول جمال الدین ابن عنبہ کے حجاج بن یوسف چاہتا تھا کے عمر الاطرف بن امیر المومنین کو حضرت حسن مثنیٰ بن امام حسن بن علی ولی صدقات امیر المومنین میں شریک قرار دے مگرحسن مثنیٰ جو ولی صدقات امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب تھے نے قبول نہ کیا۔ جبکہشیخ مفید کے بقول آپ کا امام زین العابدین کے ساتھ صدقات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت علی بن ابی طالب بارے نزاع رہا۔ بعض نے عبد اللہ ابن زبیر کی بیعت کو تقیہ قرار دیا ہے۔[6]

نسل ترمیم

آپ کی نسل بقول ابن عنبہ آپ کے فرزند "محمد" سے جاری ہے جس کی آگے 8 اولادیں ہوئیں جن میں سے چار لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں۔ آپ کی اولاد کثرت سے بعد میں سندھ، ہند ، خراسان، عراق، شام، یمن، ایران،ملتان میں پھیل گئی جن میں سے علما ، محدثین، زاہد، ادیب پیدا ہوئے۔ ہندوستان اور پاکستان میں آپ کی اولاد "علوی" کے عنوان سے پہچانی چھاتی ہے۔ گو اس خطہ میں محمد بن حنفیہ اور عباس بن علی کی اولادیں بھی اسی عنوان سے موجود ہیں جن کے بیچ شجرہ کو لے کر تنازع موجود ہے۔[7]

وفات ترمیم

آپ کی وفات اور شہادت کے حوالے سے دو قول ملتے ہیں۔ بعض مورخین کے نزدیک آپ کربلا میں شریک تھے اور اپنے بھائی امام حسین بن علی کے ساتھ شہید ہوئے ۔ جبکے بعض نے نقل کیا ہے کہ آپ 75 یا 77 سال کی عمر میں ینبع ، مدینہ کے مقام پر وفات پا گئے۔[8] کتاب ناسخ التواریخ کے مؤلف کہتے ہیں کہ امیر المومنین امام علی بن ابی طالب کے 18 فرزند تھے جن میں سے دو کے نام عمر تھے۔ ایک عمر الاکبر (جو عمر الاطرف کے نام سے مشہور ہیں) اور دوسرے عمر الاصغر۔ عمر الاصغر کی والدہ ام حبیب تھیں جبکہ عمر الاکبر کی والدہ صہبا تغلبیہ تھیں۔ صاحب کتاب ناسخ کے مطابق کربلا میں شہید ہونے والے عمر دراصل "عمر الاصغر" تھے ۔ کتاب "نفس المہموم " نے مشہور مؤرخین کے ینبع کی جانب قول کو ترجیح دی ہے۔ بعض دوسری روایتوں کے مطابق آپ مصعب بن زبیر کے ہمراہ مسکن نامی جگہ قتل ہوئے جہاں 72 ہجری قمری میں بنی امیہ کے حاکم عبد الملک بن مروان اور مصعب بن زبیر کے بیچ جنگ ہوئی اور وہ بھی اس میں قتل ہوا۔[9]

حوالہ جات ترمیم

  1. (المجدی،صفحہ7؛ الشجره المبارکہ، صفحہ1203؛ عمده الطالب، صفحہ 362)
  2. (عمرو الاطرف بن علي، لمؤلفه الأستاذ عبدالله بن علي الرستم الأحسائي، صفحہ 40)
  3. (الطبقات الکبری، جلد3، صفحہ114؛ تاریخ یعقوبی،جلد2، صفحہ1، جمہرة العرب،جلد1، صفحہ 31)
  4. (سیرت امیر المومنین امام علی ، جلد اول صفحہ 181)
  5. (مدرک الطالب، جلد دوم، صفحہ 181)
  6. (الارشاد، جلد 2، صفحہ 149؛ شرح الاخبار، جلد3، صفحہ 191 تا 184)
  7. (مدرک الطالب، جلد دوم، صفحہ 182)
  8. (الأخبارالطوال،صفحہ:307)
  9. (ابن سعد، الطبقات الکبری، جلد5، صفحہ140)