عنایت احمد کاکوروی

جنگ آزادی ہند کے مجاہد

مفتی عنایت احمد کاکوروی (پیدائش: 5 اکتوبر، 1813ء - وفات: 7 اپریل، 1863ء) تحریک آزادی ہند کے ممتاز مجاہد تھے۔ انھوں نے روہیل کھنڈ کے نواب بہادر خان کی تنظیمِ حریت کو مضبوط کرنے، انگریزوں کے خلاف جہاد کی موافقت میں اور نواب کی حکومت کی مالی امداد کے لیے فتویٰ دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں ان پر مقدمہ چلا کر کالا پانی کی سزا دی کر جزیرہ انڈمان بھیج دیا۔

عنایت احمد کاکوروی
معلومات شخصیت
پیدائش 5 اکتوبر 1813ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بارہ بنکی، اتر پردیش   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 7 اپریل 1863ء (50 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات غرق   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ انقلابی ،  مصنف ،  منصف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک تحریک آزادی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش ترمیم

ان کا نام عنایت احمد اور خطاب خان بہادر تھا۔ وہ قریشی النسل تھے۔ اکتیسویں پشت میں نسب رسول کریم کے جدِ امجد عبد مناف سے مل جاتا ہے۔ مفتی عنایت احمد کے اجداد میں سے ایک شخص امیر حسام نے بغداد سے ہجرت کر کے دیوہ ضلع بارہ بنکی میں سکونت اختیار کی۔ یہیں دیوہ ضلع بارہ بنکی میں 9 شوال 1228ھ بمطابق 5 اکتوبر 1813ء کو مفتی عنایت احمد پیدا ہوئے۔ [1]

تعلیم ترمیم

مفتی عنایت احمد نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ 1241ھ / 1825ء میں تیرہ برس کی عمر میں رام پور گئے، وہاں مولانا سید محمد بریلوی سے صرف و نحو کی تحصیل کی۔ پھر مولانا حیدر علی ٹونکی اور مولانا نور السلام سے دوسری درسی کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد دہلی کا سفر کیا جہاں مولانا شاہ اسحاق دہلوی سے حدیث کا درس لیا۔ دہلی سے علی گڑھ آئے، جہاں شاہ عبد العزیز دہلوی اور شاہ رفیع الدین کے نامور شاگرد مولانا بزرگ علی مارہروی سے قلعہ کی جامع مسجد میں معقولات و منقولات کا درس لیا۔

تدریس ترمیم

مفتی عنایت احمد ابھی فراغت تعلیم کے بعد علی گڑھ ہی میں تھے کہ اسی دوران استاد مولانا بزرگ علی مارہروی کا انتقال ہو گیا۔ مفتی عنایت احمد کی ذہانت و فطانت کی بدولت مدرسہ کے ذمہ داران نے انھیں استاد کی جگہ پر تدریس کے لیے منتخب کر لیا۔ استاد کی روحانی اور مفتی عنایت احمد کے اہتمام و کوشش کی وجہ سے اس مدرسے نے مستند تعلیم گاہوں میں اپنا ایک وقار بنا لیا۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران انھوں نے تدریسی خدمات کے ساتھ تحریری شغف بھی جاری رکھا اور ملازمت بھی اختیار کی۔ پہلے منصف و مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے، کچھ ہی عرصہ بعد صدر امین کی حیثیت سے ان کا تبادلہ بریلی شہر ہو گیا۔[2] مفتی عنایت صدر امین کے عہدے سے ترقی کر کے 1856ء میں آگرہ کے صدر الصدور کے اہم عہدے پر مقرر ہوئے۔ ابھی سفر کی تیاری جاری تھی کہ ماہ مئی 1857ء میں انقلاب برپا ہو گیا اور اسی بنا پر وہ آگرہ نہ جا سکے، بریلی اور رام پور کے انقلابیوں کے ہمنوا اور معاون بلکہ سرپرست کی حیثیت سے سرگرم ہو گئے۔[3]

مقدمہ ترمیم

انھوں نے مجاہدین کے لیے مالی امداد و تعاون اور انگریزوں کے خلاف جہاد پر مشتمل ایک فتویٰ بریلی سے جاری کیا، اس فتویٰ اور انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں مفتی عنایت احمد کے خلاف انگریزوں نے مقدمہ چلایا اور رسمی و نمائشی عدالتی کارروائی کر کے انھیں حبسِ دوام کی سزا دے کر جزیرہ انڈمان (کالا پانی) بھیج دیا۔ جہاں وہ چار سال تک کسی طرح اپنے ایامِ اسیری کی مشقتیں جھیلیں۔ ایک انگریز نے تقویم البلدان کے ترجمہ کی خواہش ظاہر کی جسے انھوں نے قبول کیا اور دو سال کی مدت میں اسے پایہ تکمیل تک پہچایا۔ یہی علمی کام ان کی رہائی کا سبب بن گیا اور 1277ھ بمطابق 1860ء میں وہ جزیرہ انڈمان سے رہا ہو کر ہندوستان واپس آئے۔

تصانیف ترمیم

کالا پانی میں مفتی عنایت احمد نے سیرت النبی پر ایک مختصر کتاب تواریخ حبیب الہٰ اور فن صرف کی کتاب علم الصیغہ تحریر کی جو آج بھی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ دوران قید ایک انگریز نے تقویم البلدان کے ترجمہ کی خواہش ظاہر کی جسے انھوں نے قبول کیا اور دو سال کی مدت میں اسے پایہ تکمیل تک پہچایا۔ یہی علمی کام ان کی رہائی کا سبب بن گیا اس کے علاوہ بھی انھوں نے لگ بھگ دو درجن کتابیں تالیف کی ہیں۔[4]

مدرسہ فیض عام ترمیم

جزیرہ انڈمان سے رہائی کے بعد مفتی عنایت احمد کاکوری نے کانپور کو اپنی دینی و علمی مستقر بنایا اور مدرسہ فیض عام قائم کر کے درس و تدریس میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ اپنے مدرسہ فیض عام کانپور کی کچھ خدمت کر کے انھوں نے حج و زیارت حرمین شریفین کی نیت سے شوق وارفتگی کے ساتھ حجاز مقدس کے سفر پر بذریعہ بحری جہاز روانہ ہوئے۔

وفات ترمیم

اثنائے سفر ایک سخت چٹان سے ان کا جہاز ٹکرایا اور شدت ضرب سے پاش پاش ہو گیا۔ 17 شوال 1279ھ بمطابق 7 اپریل 1863ء کو وہ مع قافلہ حجاج شہید ہو گئے۔[5]

حوالہ جات ترمیم

  1. اختر حسین فیضی مصباحی، تحریک آزادی اور مفتی عنایت احمد کاکوروی، مشمولہ: ماہنامہ اشرفیہ (مبارکپور ) انقلاب 1857ء نمبر، جلد 32 شمارہ 8-9 - اگست - ستمبر 2008ء ، مدیر اعلیٰ: مبارک حسین مصباحی، ص 86
  2. تحریک آزادی اور مفتی عنایت احمد کاکوروی، مشمولہ: ماہنامہ اشرفیہ (مبارکپور ) انقلاب 1857ء نمبر، ص 87
  3. مولانا یٰسین اختر مصباحی، علما و قائدین جنگ آزادی 1857ء، مشمولہ: ماہنامہ جام نور (دہلی )، جلد 5 شمارہ 58 - اگست 2007ء ، مدیر اعلیٰ: خوشتر نورانی، ص 53
  4. عطاء الرحمٰن نوری، جنگ آزادی 1857ء میں علما کا مجاہدانہ کردار، مکتبہ طیبہ مالیگاؤں، 2016ء ، ص 48
  5. جنگ آزادی 1857ء میں علما کا مجاہدانہ کردار، ص 49