غبن (ہندی: ग़बन) منشی پریم چند کا لکھا ناول ہے۔ یہ ناول 1931 میں لکھا گیا۔

خلاصہ ترمیم

ناول اپنے اندر معاشرے میں موجود رشوت ستانی، عصمت فروشی، ظلم اور پولیس کی جانب سے زیادتی بھی دکھاتا ہے۔ یہ ناول متوسط طبقے کی دنیا کے ارد گرد گھومتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک نوجوان رماناتھ ہے جسے دوستوں کے ساتھ عیاشی کرنا پسند ہے، گھریلو حالات تنگ ہونے کے باوجود وہ امیر دوستوں کی صحبت میں دن گزارتا ہے۔ وہ ناول کی مرکزی زنانہ کردار جالپا سے شادی کرتا ہے، جس کے بعد وہ اپنی بیوی کو حسن کی دیوی سمجھتا ہے اور ہر طریقے سے اس کی خواہشات پوری کرنے کا تہیہ کرتا ہے۔ جالپا شروع میں خودغرضی کا کردار ادا کرتی ہے اور رماناتھ کی کم آمدنی کا علم ہونے کے باوجود بھی عیاشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتی ہے۔۔ قرض سے تنگ آ کر رماناتھ سرکاری کھاتے میں غبن کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے خود پریشان رہ کر بھی اپنی بیوی کو سکھی رکھتا ہے لیکن ایک دن بیوی کے سامنے اپنی پول کھلنے کے بعد وہاں سے بھاگ نکلتا ہے اور یہیں سے ناول کا اختتامی مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

ناول کے آخر تک پہنچتے پہنچتے جالپا ایک مثالی کردار کی حامل خاتون بن جاتی ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں آ چکی ہیں جو ایک بیوی میں ہونی چاہیں۔

اپنے تمام تر زیورات کو فروخت کر کے وہ ایک ایک پیسہ چُکا دیتی ہے لیکن رماناتھ اس سب سے بے خبر کلکتہ میں بے بسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ حالات کا مقابلہ نہ کرنا اور سچ نہ کہ پانے کی کمزوری رماناتھ کا آخری دم تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اور وہ اس حد تک گر جاتا ہے کہ ایک مقدمہ میں جھوٹی گواہی بھی دے دیتا ہے۔ شوہر کی محبت اور اپنی کوتاہیوں کا کفارہ کرنے کی غرض سے جالپا کلکتہ کا سفر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور کئی ترکیبوں اور کوششوں کے ساتھ بالآخر اپنے شوہر کو بچا لیتی ہے۔

اس ناول کے ایک سرسری جائزے میں اگر چیکہ یہ لگ سکتا ہے ایک مسلمان خاتون زہرہ کو طوائف کے طور پر دکھا کر پرہم چند نے مذہبی نفرت کا پرچار کیا ہے، لیکن آخر میں اسی طوائفہ کو ایک شخص کی جان بچاتے ہوئے خود کی جان قربان کر کے مثال بنا دیا ہے، جو در حقیقت مصنف کی تخلیقی نوعیت کا مظہر ہے۔

رتن اور وکیل کا ناول میں حصہ ایک الگ رجحان کو ظاہر کرتا ہے کہ دولت انسان کو دلی سکون نہیں دے سکتی۔

دیبی دین کا کردار بے آسرا لوگوں کے دکھ درد کو سمجھنے اور مشکل میں ان کے کام آنے کا ایک پیغام لیے ہوئے نظر آتا ہے۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. Sigi 2006, p. 50