غدر پارٹی

پنجاب کی انقلابی پارٹی

غدر پارٹی (انگریزی: Ghadar Party ، پنجابی= ਗ਼ਦਰ ਪਾਰਟੀ)، ایک انقلابی تنظیم تھی جسے ہندوستان کے پنجابی سکھوں نے کیلیفورنیا، ریاستہائے متحدہ امریکا میں 1913ء میں قائم کیا جس کا مقصد ہندوستان کو برطانوی سامراج سے آزاد کرانا تھا۔ غدر پارٹی کے اراکین اور رہنماؤں کو عام طور پر غدری بابو کہا جاتا تھا۔


ਗ਼ਦਰ ਪਾਰਟੀ
صدرسوہن سنگھ بھکنا
جنرل سیکرٹریلالہ ہردیال سنگھ
بانیسوہن سنگھ بھکنا
خزانچیپنڈت کانشی رام
دیگر اہم رہنماکرتار سنگھ سرابھا
مولانا برکت اللہ بھوپالی
کیسر سنگھ
ہرنام سنگھ ٹنڈے لاٹ
وشنو گنیش پنگلے
جوالا سنگھ
جی ڈی کمار
نعرہغدر برپا کرو
تاسیسمارچ 1913ء
تحلیل1922ء
پیشروہندوستان ایسوسی ایشن آف پیسفک کوسٹ
صدر دفترسان فرانسیسکو
اخبارغدر اخبار
نظریاتانقلابی اشتراکیت
ہندوستانی قوم پرستی
تحریک آزادی ہند

پنجاب کا سیاسی پس منظر ترمیم

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پنجاب میں بغاوت کی تحریکیں نے جنم لینا شروع کیا۔ گورو رام سنگھ کی سربراہی میں تحریک نامدھاری یا کوکا تحریک کے نام سے تحریک شروع ہوئی جس کی گوریلا کارروائیاں کئی دہائیوں پر محیط تھیں۔ بیشتر نامدھاریوں کا تعلق مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج سے رہا تھا اور انھوں نے پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے خلاف مزاحمت بھی کی۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے 1860ء کی دہائی میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں ہوئیں۔ درجنوں انقلابیوں کو توپوں کے سامنے کھڑا کرکے اڑا دیا گیا۔ بابا گورو رام سنگھ کو گرفتار کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔[1]

انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز تک بھی نامدھاری تحریک سیاسی طور پر منظر پر موجود رہی۔ اسی اثناء میں انگریز حکومت نے، جو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ سے لے کر براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت آچکی تھی، اپنا راج خاصا مستحکم کر لیا۔ اس کے فوراً بعد انگریز حکومت نے پنجاب میں آبپاشی نظام کو وسعت دی۔ انھوں نے مقامی کسانوں کو رعایت دیتے ہوئے جنگلوں اور غیر آباد زمینوں کو صاف کر کے آبادکاری کرنے حوصلہ افزائی کی۔ اب کسان نئی زمینوں کے مالک بننے والے تھے لیکن باری دو آب ایکٹ میں چند ترامیم کے ذریعے، پہلے سے طے شدہ شرائط مشکل بنا دی گئیں۔ نہری پانی کا ٹیکس بڑھا دیا گیا۔ قانون بنا دیا گیا کہ کوئی آباد کار سرکاری اجازت کے بغیر اپنی زمینوں میں سے درخت نہیں کاٹ سکتا۔ کسانوں کے نزدیک اس کا مطلب یہ تھا کہ ان نئی زمینوں کے مالک آبادکار نہیں بلکہ انگریز حکومت ہے۔ ان سرکاری اقدامات نے کسانوں کو بھڑکا دیا۔ ان کسانوں میں بھگت سنگھ کے والد، چچا اور دادا بھی شامل تھے۔ جب کسانوں کا غم و غصہ بڑھا تو بھگت سنگھ کے چچا سردار اجیت سگھ نے لالہ لاجپت رائے کے ساتھ مل کر مرکزی قیادت کا کردار ادا کیا۔ چناب کالونی اور باری دو آب کے کسان بغاوت میں پیش پیش تھے۔ یہ آگ مزید بھڑک اٹھی جب ضلع لائل پور کے متاثرین بھی باغیوں میں شامل ہو گئے۔ اس آگ کے شعلے راولپنڈی تک گئے۔ بڑی بڑی کسان ریلیوں کے ذریعے کسانوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ اجیت سنگھ اور لالہ لاجپت رائے کے علاوہ صوفی انبا پرشاد، ضیاء الحق، بانکے دیال اور سید حیدر رضا بھی اس تحریک کے قائدین میں سے تھے، جن کی تنظیم انجمنِ محبانِ وطن نے بغاوت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں دنوں بانکے دیال کا لکھا ہوا گیت پگڑی سنبھال جٹا اوئے (جٹا اپنی دستار سنبھالو) فضاؤں میں بلند ہوا جس نے پنجاب بھر میں بغاوت کی آگ روشن کردی۔ کسانوں کے ساتھ ساتھ شہروں کے بڑھے لکھے نوجوان بھی میدان میں کود پڑے۔ اس آگ نے جب زور پکڑا تو لائل پور کے قریب کسانوں نے ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ پھینکیں۔ دیہات میں بچہ بچہ انقلابی گیت گانے لگا۔

پگڑی سنبھال جٹا! پگڑی سنبھال اوئے
لُٹ لیا مال تیرا، کیتا بے حال اوئے

اس تحریک کے متعدد قائدین اور کارکن گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیے گئے۔ سردار اجیت سنگھ اور لالہ لاجپت رائے کو گرفتار کر کے قلعہ مانڈلے جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اسی تحریک کے دوران 27 ستمبر 1907 ء کو بھگت سنگھ پیدا ہوئے۔ انگریزوں راج کے خلاف کسان مزاحمت اتنی شدید اور منظم تھی کہ پنجاب میں انھیں اپنی سلامتی خطرے میں نظر آنے لگی۔ انگریزوں نے مجبور ہو کر باری دو آب ایکٹ میں ترامیم واپس لے لیں۔ سردار اجیت سنگھ اور لالہ لاجپت رائے رہا کر دیے گئے اور یوں جنگ آزادی 1857ء کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر انگریز سامراج کے خلاف تحریکِ آزادی کو پہلی کامیابی نصیب ہوئی۔[2]

غدر پارٹی کا قیام ترمیم

غدر تحریک نے بظاہر اسی تحریک کی کوکھ سے جنم لیا لیکن اس کی جدوجہد کا پس منظر قدرے مختلف تھا۔ بار کے قوانین سے پہلے ہی پنجابی کسان بے چینی کا شکار تھے اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہی انھوں نے کینیڈا اور امریکا سمیت دور دراز ممالک میں جانا شروع کر دیا تھا۔ پنجابی تارکین وطن پہلے ملایا، سنگاپور اور چین وغیرہ گئے لیکن ان میں سے اکثر جلد ہی کینیڈا اور پھر امریکا آنے لگے۔ وہاں ان کی کھپت ٹمبر ملز اور پیسفک ریلوے کے تعمیراتی کاموں میں ہونے لگی۔ غدر تحریک کے پہلے صدر سوہن سنگھ بھکنا 1909ء میں امریکا پہنچ چکے تھے۔ تحریک کے ایک اور سرکردہ رہنما ہرنام سنگھ ٹنڈے لاٹ بھی 1906ء میں کنیڈا سے ہوتے ہوئے امریکا پہنچ چکے تھے۔ جو پنجابی کسان کنیڈا میں مزدوری کر رہے تھے، ان کے حالات دگرگوں تھے۔ ایک طرف وہ ریاست کی زیادتیوں کا شکار تھے اور دوسری طرف مقامی مزدوروں سے ان کی نہیں بنتی تھے۔ ان پر ہندی غلامکی پھبتی کسی جاتی تھی۔ انھیں غیر اور دشمن سمجھ کر نفرت کی جاتی تھی۔ اسی دوران کینیڈا نے نئے آنے والے تارکینِ وطن پر پابندی لگانے کے بارے میں غور شروع کر دیا اور پنجابی تارکین وطن بھاگ بھاگ پر امریکا آنے لگے۔ جلد ہی امریکا میں بھی پنجابی تارکینِ وطن کے لیے حالات خراب ہونے لگے۔ بابا سوہن سنگھ بھکنا، اٹھارہ سالہ نوجوان کرتار سنگھ سرابھا، لالہ ہردیال سنگھ اور امریکا میں محنت و مشقت کرنے والے دیگر رہنما و کارکنان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کی ذلت و رسوائی کا بنیادی سبب ان کی غلامی ہی ہے۔ یہیں سے ان کے دل میں میں آزادی کا شعلہ بھڑکہ اور ایک سیاسی تنظیم کے قیام کے لیے کام شروع ہو گیا۔ معاشی و سماجی پس منظر، سیاسی جدوجہد کا پیش منظر بن گیا۔ اسی سلسلے میں 1912ء میں ایک سیاسی تنظیم کے قیام کے لیے پہلا اجلاس منعقد ہوا، اس اجلاس میں ہندوستان ایسوسی ایشن آف پیسفک کوسٹ کے نام سے ایک انقلابی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ پارٹی اخبار کے لیے ہندوستان نام تجویز ہوا (بعد میں اخبار کا نام بدل کر غدر رکھا گیا)۔ سوہن سنگھ بھکنا صدر، جی ڈی کمار جنرل سیکریٹری اور پنڈت کانشی رام خزانچی مقرر ہوئے۔ انتظامی کمیٹی میں ہرنام سنگھ ٹنڈے لاٹ، اُدھم سنگھ کسیل، رام رکھا اور دو مزید ساتھی شامل تھے۔ لیکن جنرل سیکریٹری کی اچانک اور طویل علالت و دیگر رہنماؤں کے واشنگٹن میں منتقل ہونے کے باعث پارٹی کا کام آگے نہ بڑھ سکا۔ اُدھر واشنگٹن میں مزدوری کے دوران بھائی اُدھم سنگھ نے وہاں کے 120 ہندی محنت کشوں سے گفت و شنید کے بعد وہاں بھی پارٹی کے قیام کے لیے فضا ہموار کی۔ چنانچہ واشنگٹن میں بھی ہندوستان ایسوسی آف پیسفک کوسٹ کی شاخ قائم ہو گئی جس کے صدر کیسر سنگھ، جنرل سیکریٹری منشی کریم بخش اور خزانچی منشی رام متھے مقرر ہوئے۔ وہیں کرتار سنگھ سرابھا اور رلیا سنگھ بھی پارٹی میں شامل ہو گئے۔

اس کے بعد پورٹ لینڈ میں مارچ 1913ء کو مرکزی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں کیلیفورنیا سے پہلی بار لالہ ہردیال بھی شریک ہوئے۔ پارٹی کے نام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ کچھ نئے فیصلے بھی ہوئے۔ مثلاً اردو اور پنجابی (گورمکھی) اخبار غدر کا نام تجویز ہوا۔ پارٹی کا مرکزی دفتر سان فرانسسکو میں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پارٹی کا نام ہندی ایسوسی آف پیسفک کوسٹ رکھ دیا گیا۔ کیسر سنگھ کی جگہ لالہ ہردیال کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ 14 رکنی انتظامی کمیٹی اور 3 رکنی خفیہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ باقی عہدے دار اور فیصلے 1912ء کی میٹنگ والے برقرار رکھے گئے۔ یکم نومبر 1913ء کو غدراخبار کا پہلا اردو شمارہ شائع ہوا جبکہ پہلا پنجابی شمارہ 9 دسمبر 1913ء کو شائع ہوا۔ اردو غدر کی ادارت کے فرائض لالہ ہردیال اور مولانا برکت اللہ بھوپالی کے ذمہ تھی۔ یہ غدر اخبار کی مقبولیت تھی جس کے سبب لوگ اس پارٹی کا اصل نام بھول کر اسے غدر پارٹی کہنے لگے۔ حالانکہ ہندوستان غدر پارٹی کا قیام 1919ء میں عمل میں آیا۔ 1918ء تک یہ پارٹی ہندی ایسوسی ایشن کے نام سے کام کرتی رہی۔[3]

غدر اخبار ترمیم

 
غدر کا 24 مارچ 1914ء کا شمارہ

ہندوستان ایسوسی ایشن (جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے پہلے ہندی ایسوسی ایشن اور بعد ازاں غدر پارٹی رکھا گیا) کا صدر مقام سان فرانسسکو قرار پایا۔ وہاں 436 ہل اسٹریٹ کے ایک چھوٹے سے مکان میں دفتر قائم ہوا جس کا نام یگانتر آشرم (مرکز عہدِ جدید) رکھا گیا (جب 1918ء میں پارٹی کا اپنا دفر 5 وڈ اسٹریٹ سان فرانسسکو میں بن گیا تو وہاں منتقل ہو گیا)۔ یہیں سے پارٹی کا ترجمان ہفت روزہ غدر یکم نومبر، 1913ء سے اردو زبان میں جاری ہوا۔ اس کی ادارت کے فرائض لالہ ہردیال سنگھ اور مولانا برکت اللہ بھوپالی انجام دیتے رہے۔ 9 دسمبر، 1913ء سے غدر اخبار گورمکھی (پنجابی) میں بھی شائع ہونے لگا۔ بعد میں اس کی اشاعتیں مراٹھی زبان اور ہندی زبان میں بھی ہونے لگیں۔ ہندی ایسوسی ایشن کو غدر پارٹی کا نام اسی اخبار کی مقبولیت کا وجہ ملا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے ذہن میں غدر پارٹی ہی محفوظ ہو گیا اور اصلی نام کو سب فراموش کر چکے ہیں۔ اخبار کا لب و لہجہ انتہائی تند و تیز ہوتا تھا۔ کوئی صفحہ ایسا نہ ہوتا تھا جس میں انگریزوں کے خلاف نعرے درج نہ ہوں۔ اس کے سر ورق پر کبھی درج ہوتا غدر کے سپاہیو! اٹھو، جوگو اور پہلے کی نسبت زیادہ سرگرمی دکھاؤ۔ اور کبھی ضرورے ہے نڈر بہادر سپاہیوں کی، ہندوستان میں غدر مچانے کے لیے۔ تنخوا: موت، انعام: شہیدی و آزادی، مقام، میدان: ہندوستان۔[4] اخبار کے نام کے ساتھ لکھا ہوتا انگریزی راج کا دشمن۔ غدر اس وقت کا مقبول اخبار تھا جو امریکا اور کینیڈا میں ہزاروں کی تعداد میں بکتا تھا۔ اس اخبار کے شمارے امریکا، آسٹریلیا، یورپ اور ایشیا کے ان تمام ملکوں میں تقسیم ہوتا تھا جہاں ہندوستانی رہتے تھے۔ اس کی تقسیم و ترسیل میں جرمن قونصلیٹ اور سفارتخانے کا تعاون بھی حاصل تھا۔ بعض ممالک میں یہ تعداد کے حساب سے نہیں بھیجا جاتا تھا بلکہ ٹن کے حساب سے۔ اخبار میں نظمیں بھی شائع ہوتی تھیں اور نثر کو بھی نظم کے پیرائے میں تحریر کیا جاتا تھا۔ غدر میں شائع ہونے والی نظمیں پارٹی کے جلسوں میں جوش و خروش کے ساتھ پڑھی بھی جاتی تھیں۔ غدر کے اردو اور گورمکھی ایڈیشن نظموں سے مزین ہوتے تھے۔ مولانا برکت اللہ نے بیک وقت کئی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ وہ شہر شہر دورے کرکے پُر جوش تقریریں کرتے اور ہندوستانیوں کو غدر پر اُکساتے۔ وہ اخبار غدر کی تیاری میں رام چندر بھاردواج کا ہاتھ بٹاتے۔ وہ اخبار میں لکھتے ہی نہیں تھے بلکہ بازاروں اور سڑکوں پر اخبار فروخت کرتے تھے۔ ان کا جنون اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔[5]

غدر پارٹی کا فعال کردار ترمیم

چند ہی سال میں یہ تحریک بڑھنے لگی اور اخبار غدر کینیڈا، ملایا، جاپان، چین، فلپائن، فجی اور ارجنٹائن جانے لگا، ساتھ ہی ہر جگہ غدر پارٹی کی شاخیں کھلنیں لگیں۔ خود ہندوستان میں اس کا اثر پہنچ چکا تھا۔ چند ہی مہینے میں صرف امریکا اور کینیڈا میں 72 شاخیں کھل گئیں۔ ان نوجوان انقلابیوں نے روس، چین اور آئرلینڈ کی انقلابیوں سے بھی ربط پیدا کر لیا۔ برطانوی حکومت کو غدر پارٹی کارگزاری کا علم ہو چکا تھا۔ اور اس نے پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش شروع کر دیں۔ اس نے اپنے چند جاسوس غدر پارٹی کے اندر بھیجے۔ بہت سارے گرنتھی گردواروں میں بھیجے تاکہ اس کے لیڈروں کے خلاف زہر پھیلائیں۔ مارچ 1914ء میں ہردیال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا اور ناپسند اجنبی قرار دیا جائے تاکہ اسے ملک بدر کر دیا جائے لیکن پارٹی نے اسے ضمانت پر آزاد کر والیااور اسے سوئزرلینڈ بھجوا دیا۔ ہردیال سنگھ اس کے بعد پارٹی سے ربط نہ رکھ سکے اور ان کا تعلق اس تحریک سے باقی نہ رہا۔ لیکن پارٹی تیزی سے بڑھتی گئی۔ اسی زمانے میں جنگ عظیم اول کے بادل چھانے لگے۔

غدر پارٹی نے فعال کردار ادا کرتے ہوئے بہت سے ممالک میں انگریزوں کے خلاف آگ پھیلا دی۔ ملایا، سنگاپور اور مشرق بعید میں اس کی شاخیں قائم ہوگئیں۔ ہندوستان تک آگ کے یہ شعلے پہنچے تو پُر تشدد کارروائیاں ہونے لگیں، زیادہ تر واقعات پنجاب میں ہوئے۔ غدر پارٹی کا پیغام اس طرح پھیلایا گیا کہ ہندوستانیوں کی بڑی تعداد اس تحریک میں شامل ہو گئی اور ان خطوط پر غدر مچانے لگے جن کی نشان دہی پارٹی نے کی تھی۔ پارٹی نے امریکا اور کینیڈا میں مقیم ہندوستانیوں کے جتھے بنائے، انھیں منظم کیا اور تربیت دی۔ سینکڑوں نوجوانوں نے ولولے و جوش کے ساتھ اپنی خدمات پیش کیں، اپنے کاروبار ختم کیے، ملازمتیں چھوڑ دیں اور ہندوستان جا کر غدر برپا کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ان انقلابیوں کو جرمنی کی مکمل حمایت حاصل تھی، امریکا میں متعین جرمن سفیر نے ہمیشہ ان کی اخلاقی اور مالی مدد کی۔ عازمِ ہند نوجوانوں کا ایک جتھا جاپانی جہاز توسا مارو (Tosa Maro) پر سوار ہو کر روانہ ہوا۔ جاپان اور شنگھائی کے نوجوانوں کو خبر ہوئی تو وہ بھی ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ انقلابی نوجوانوں کے جتھے کے بارے میں ان کے ہندوستانیون پہنچنے سے قبل انگریزوں کو علم ہو گیا۔ جیسے ہی جہاز ساحل پر لگا سب نوجوان گرفتا کر لیے گئے۔ ان میں اُدھم سنگھ، جوالا سنگھ، سوہن سنگھ اور کیسر سنگھ شامل تھے۔ سب کو مختلف میعاد کی سزائیں دی گئیں۔ چند انقلابی کسی نہ کسی طرح پنجاب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، انھوں نے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ انھیں تشدد آمیز کارروائیوں کی تربیت دی۔ وہ نوجوان اپنے طور پر کارروائیاں کرتے رہے۔ ایسے ہی انقلابی نوجوانوں نے پنجاب، بنگال اور برما میں موجود ہندوستانی فوجیوں کو بغاوت پر اُکسایا۔ بہت سے فوجی اس کے لیے تیار ہو گئے۔ 22 فروری 1915ء کی تاریخ بغاوت کے لیے مقرر ہوئی۔ ان انقلابیوں میں کرپال سنگھ انگریزوں کا جاسوس تھا۔ انگریزوں نے سازش کے تحت اسے غدر پارٹی میں شامل ہونے کے لیے امریکا بھیجا تھا، وہ بے حد چالاک تھا۔ اس نے حکمتِ عملی سے غدر پارٹی کے رہنماؤں کا اعتماد حاصل کیا، وہ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا رکن بھی تھا اور ساری خفیہ معلومات اس کے علم میں تھی۔ اس کی نشان دہی پر انقلابی نوجوان اور بغاوت پر آمادہ فوجیوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔ بہت سے لوگوں کو قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ 18 سالہ کرتار سنگھ سرابھا، وشنو گنیش پنگلے، سرونت سنگھ، سیوا سنگھ اور کرپال سنگھ سمیت بہت سے لوگوں کو سزائے موت دی گئی۔ سوہن سنگھ، جوالا سنگھ، کیسر سنگھ اور اودھم سنگھ کو قید کی سزا سنائی گئی۔ مزرق بعید، سیام اور برما میں بھی ایسے ہی منصوبے بنائے گئے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ سنگاپور میں وقتی کامیابی ضرور ہوئی۔ انقلابیوں نے فوجیوں کو ساتھ ملا کر قلعے پر قبضہ کر لیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور جاپانی افواج نے ان کے خلاف مشترکہ کارروائی کی اور قلعہ واپس حاصل کیا۔ انقلابیوں میں اشر سنگھ اور احمد خان بھی گرفتار ہوئے، سب کو عمر قید کی سزائیں ہوئیں۔ زیادہ تر ناکامیاں ساتھیوں کی غداری کی وجہ سے ہوئیں۔[6]

روسی انقلاب کا غدر پارٹی پر اثر ترمیم

روسی انقلاب کی کامیابی نے غدر تحریک کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ ہر طرح کے استحصال سے چھٹکارہ پانا روسی انقلاب کا بنیادی مقصد تھا، جس نے غدریوں کو بہت متاثر کیا۔ امریکی حکومت نے سان فرانسسکو میں غدر پارٹی کے تمام رہنماؤں کو حکومتِ ہندوستان کے کہنے پر دہشت گردی کے الزامات میں دھر لیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے غدر پارٹی کے حمایتیوں کو امریکی جمہوریت سے برگشتہ کر دیا، چنانچہ وہ مکمل طور پر سوشلسٹ نظریات کی طرف راغب ہوتے گئے۔ سنتوکھ سنگھ، تارکناتھ سنگھ، بھگوان سنگھ اور گوپال سنگھ جیسے غدری رہنماؤں کی جنہیں میک نیل کی جیل میں قید کر دیا گیا تھا، کی ملاقات ان امریکی اور روسی کمیونسٹ مہاجرین اور انتہاپسندوں سے ہوئی جو امریکی میں انقلابی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باعث سزا بھگت رہے تھے۔ ان غدری رہنماؤں نے قید سے آزاد ہونے بعد امریکا میں مقیم ہندوستانیوں میں کمیونسٹ نظریات کی تبلیغ شروع کر دی۔ پارٹی نے Independent Hindustan کے نام سے ایک انگریزی ماہانہ پرچہ بھی نکالنے کا فیصلہ کیا۔

غدر پارٹی کے احیاء اور اس کے نئے مقاصد نے ہندوستان میں انگریز حکومت کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ چنانچہ حکومت نے پارٹی کی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی۔ اپنی بڑھتے ہوئی کمیونسٹ سرگرمیوں کی وجہ سے غدر پارٹی نے اپنے آپ کو بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک کے ساتھ منسلک کر لیا۔ سریندر ناتھ کو 1921ء کی ابتدا میں ماسکو بھیجا گیا تاکہ وہ سوویت یونین میں نئے نظام کے تحت در آنے ولی خوش آئند تبدیلیوں کا مشاہدہ اور مطالعہ کرسکیں۔ بد قسمتی سے وہ 1922ء کے اوائل ہی میں فوت پاگئے مگر اپنی زندگی میں انھوں نے پارٹی میں مارکسسٹ نظریات کو نہ صرف متعارف کروا دیا تھا بلکہ انھوں نے پارٹی کے اپنے ساتھیوں سنتوکھ سنگھ اور رتن سنگھ کا نومبر 1922ء تک ماسکو کے دورے کا بندوبست بھی کر دیا تھا۔ ان دونوں غدریوں نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی چوتھی کانگریس میں شرکت کی جو 5 نومبر سے شروع ہو کر 5 دسمبر 1922ء تک جاری رہی۔[7]

اراکین ترمیم

  • سوہن سنگھ بھکنا
  • لالہ ہردیال
  • کرتار سنگھ سرابھا
  • مولانا برکت اللہ بھوپالی
  • منشی رام
  • کیسر سنگھ
  • ٹھاکر داس
  • ہرنام سنگھ ٹنڈے لاٹ
  • گنڈا سنگھ
  • ادھم سنگھ کسیل
  • منشی کریم الدین
  • رلیا سنگھ
  • رام رکھا
  • جی ڈی کمار
  • ہرنام سنگھ سینی
  • بھائی پرمانند
  • تارکناتھ داس
  • وشنو گنیش پنگلے
  • پرتھوی سنگھ آزاد
  • رندھیر سنگھ
  • منگو رام منگووالیا
  • رام چندر بھاردواج
  • سنتوکھ سنگھ
  • پنڈت کانشی رام
  • جوالا سنگھ
  • سیوا سنگھ
  • بیر سنگھ
  • اشر سنگھ
  • احمد خان
  • متھرا سنگھ
  • بھگوان سنگھ
  • ارجن سنگھ
  • جگت سنگھ
  • وساکھا سنگھ
  • مدن سنگھ گاگا

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. احمد سلیم، غدر پارٹی پس منظر اور بنیادی مآخذ، مشمولہ:ارتقا (کراچی) شمارہ 56، اکتوبر 2013ء، ص 64-65
  2. احمد سلیم، غدر پارٹی پس منظر اور بنیادی مآخذ، مشمولہ:ارتقا (کراچی) شمارہ 56، اکتوبر 2013ء، ص 65-67
  3. احمد سلیم، غدر پارٹی پس منظر اور بنیادی مآخذ، مشمولہ:ارتقا (کراچی) شمارہ 56، اکتوبر 2013ء، ص 68-69
  4. شفقت رضوی، نقیبِ انقلاب مولانا برکت اللہ بھوپالی، پاکستان اسٹڈیز سینٹر جامعہ کراچی، جون 2007ء، ص 118-119
  5. شفقت رضوی، مولانا برکت اللہ دوبارہ نئی دنیا میں، مشمولہ:ارتقا (کراچی) شمارہ 56، اکتوبر 2013ء، ص 93-97
  6. شفقت رضوی، نقیبِ انقلاب مولانا برکت اللہ بھوپالی، پاکستان اسٹڈیز سینٹر جامعہ کراچی، جون 2007ء، ص 123-124
  7. اجیت جاوید، غدر تحریک، مشمولہ:ارتقا (کراچی) شمارہ 56، اکتوبر 2013ء، ص 110-112