فاطمہ بنت موسیٰ الکاظم یا فاطمہ معصومہ (پیدائش: 21 مارچ 790ء – وفات: 4 نومبر 816ء) اہل بیت کے بزرگ اور تشیع کے ساتویں امام موسیٰ الکاظم کی بیٹی اور امام علی الرضا کی بہن تھیں۔

فاطمہ بنت موسی
(عربی میں: فاطمة بنت موسى الكاظم ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 21 مارچ 790ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ[2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 نومبر 816ء (26 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قم  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد موسی کاظم  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ نجمہ  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
علی رضا،  حسین بن موسیٰ  ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذہ موسی کاظم  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تعارف ترمیم

فاطمہ معصومہ، ساتویں امام موسی بن جعفر الکاظم کی دختر ہیں، آپ کی والدہ گرامی کا نام نجمہ خاتون تھا، شیعہ مسلمانوں کے ہاں محترم شخصیات میں سے شمار ہوتی ہیں، ان کا مزار ایران کے شہر قم میں واقع ہے۔ دنیا بھر سے شیعہ مسلمان قم میں ان کی زیارت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

نام وپیدائش ترمیم

فاطمہ نام اور معصومہ لقب ہے بعض تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ معصومہ کا لقب انھیں ان کے بھائی اور شیعوں کے آٹھویں امام علی بن موسی الرضا نے دیا ہے ،جب کہ شہرت معصومہ قم یا حضرت معصومہ کے نام سے ہے۔ مشہور قول کے مطابق یکم ذوالقعدہ 173ھ/21 مارچ 790ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔[3]

خراسان کی طرف سفر ترمیم

جب عباسی خلیفہ مامون نے امام رضا کو خراسان بلایا تو ایک سال بعد فاطمہ معصومہ اپنے بھائی کی جدائی برداشت نہ کرسکنے کی وجہ خراسان کی عازم سفر ہوئیں۔ اور ایک بہت بڑے قافلے کے ہمراہ جب قم کے قریب ساوہ شہر پہنچیں تو دشمنوں نے قافلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں قافلے کے بہت سارے افراد قتل ہو گئے اور فاطمہ معصومہ کو ایک خاتون نے زہر دیا، قم شہر کے عرب اور اہل بیت سے محبت رکھنے والے اشعری قبیلے کے لوگ ان کو قم لے آئے جہاں وہ 17 دن زندہ رہنے کے بعد زہر کے اثر سے وفات پا گئیں۔ اور اپنے بھائی سے ملاقات اور خراسان کا سفر مکمل نہ کرپائیں۔ قم فاطمہ معصومہ کے مزار کی وجہ دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے اہم شہر شمار کیا جاتاہے۔

علمی مقام ترمیم

ان کے علمی مقام کے لیے یہی ذکر کرنا کافی ہے کہ بعض تاریخی روایات نے ذکر کیا ہے کہ شیعوں کے ایک گروہ نے اپنی علمی تشنگی کو دور کرنے کے لیے امام موسی کاظم سے ملاقات کی غرض سے سفر کیا، امام موسی کاظم کسی سفر کی وجہ سے مدینہ میں موجود نہ تھے، تو حضرت فاطمہ معصومہ نے ان سوالات کے جوابات خود ہی تحریر کر دیے اور جب وہ لوگ راستے میں امام موسی کاظم سے ملے اور ان جوابات کو پیش کیا تو انھوں نے ان جوابات کو دیکھ کر فرمایا: ((فداھا ابوھا)) کہ فاطمہ معصومہ پر ان کے والد فدا ہوں۔[4]

زیارت کی فضیلت ترمیم

 

شیعہ کتابوں میں حضرت فاطمہ معصومہ کی زیارت کی فضیلت میں چند روایات نقل کی گئی جو ان کی خداوند متعال کے ہاں فضیلت اور شان ومنزلت کی نشان دہی کرتی ہیں جیسا کہ امام جعفر صادق نے فرمایا: کہ اللہ کا حرم مکہ، رسول خدا ﷺ کا حرم مدینہ منورہ، حضرت علی بن ابی طالب کا حرم کوفہ، جبکہ ہمارا حرم قم کا شہر ہے کہ جہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون دفن ہوں گی جن کا نام فاطمہ ہوگا۔[5]

وفات ترمیم

آپ کی وفات بروز منگل 10 ربیع الثانی 201ھ/ 4 نومبر 816ء کو قم میں ہوئی۔ اُس وقت مدتِ حیات شمسی اعتبار سے 26 سال 7 ماہ اور قمری اعتبار سے 27 سال 5 ماہ تھی۔قم میں جس مقام پر آپ کی تدفین کی گئی، اب وہ حرم فاطمہ معصومہ کے نام سے مشہور ہے۔

حضرت فاطمہ معصومہ کا مزار ترمیم

 
 
حرم فاطمہ معصومہ (1955)

حضرت فاطمہ معصومہ کی وفات کے بعد موسی بن خزرج اشعری نے ان کو باغ بابلان میں دفن کر دیا اور ان کی قبر پر سایبان بنا دیا جو بعد میں گنبد میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور اس وقت ایک سنہری رنگ کا ایک بہت بڑا گنبد شہر قم کے مرکز میں واقع ہے جس کی زیارت کے لیے لاکھوں کی تعداد میں ایران اور ایران سے باہر کے زائرین رجوع کرتے ہیں۔ حرم حضرت معصومہ کے جوار میں بہت سے سارے علما،شعرا، مجتہدین، بادشاہ اور دیگر شخصیات دفن ہیں جن میں صفوی خاندان کے شاه صفی،شاه عباس دوم،شاه سلیمان، شاه سلطان حسین اور قاجاری خاندان کے بادشاہوں میں سے فتح علی‌شاه قاجار اور محمد شاہ قاجار شامل ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119418282 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ربط : https://d-nb.info/gnd/119418282  — اخذ شدہ بتاریخ: 15 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  3. نمازی، علی، مستدرک سفینہ، ج8،ص261
  4. کتاب: کریمہ اہل البیت، ص64،63
  5. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج57،ص216