اندلس شمالی افریقہ کے بالکل سامنے یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر ایک حسین و جمیل جزیرہ نما ہے۔ آج کل اس میں پرتگال اور سپین دو ممالک واقع ہیں۔ کسی زمانے میں یہ ملک مغربی دنیا کے عظیم ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی فتح سے پہلے یہاں کی حکومت سلطنت روم کی ہمسر تھی۔ مسلمانوں کے دور میں یہ پورے یورپ کے لیے روشنی کا مینار تھا۔

فتح اندلس
سلسلہ اسلامی فتوحات

اموی دور میں مغرب سے آنے والے مسلمانوں کی آل اندلس کی طرف پیش قدمی کا نقشہ
تاریخ92ھ - 107ھ (711ء - 726ء)
مقامآئبیریا (جدید دور کا سپین اور پرتگال)
نتیجہ
مُحارِب
مملکتِ مغربی گوتھ خلافتِ امویہ

فتح سندھ کی طرح اس حسین و جمیل خطہ زمین کو بھی ولید بن عبدالملک کے زمانے میں فتح کیا گیا۔ اس فتح کا سہرا طارق بن زیاد اور موسٰی بن نصیر کے سر ہے۔

اسباب ترمیم

سپین کے معاشرتی حالات ترمیم

جب کوئی معاشرہ گل سڑ جاتا ہے اس کے عوام بدحال، درمیانہ طبقہ پریشان حال اور اونچا طبقہ ظالم و عیاش ہو جاتا ہے تو قانون فطرت ہے کہ اس معاشرے میں انقلاب لانے کے لیے نچلا طبقہ باغی ہو جاتا ہے۔ یا اس پر کوئی بیرونی قوم مسلط ہوجاتی ہے۔ آٹھویں صدی کے آغاز میں اندلس کی بھی یہی حالت تھی۔ غلام تو تھے ہی غلام، مزارعین کی حالت بھی ان سے کسی طرح بہتر نہ تھی۔ زمین پر پوری محنت کے باوجود انھیں سکھ کی روٹی نصیب نہ تھی اور نہ ہی زمین ان کی ضروریات پوری کرتی تھی۔ ان کی حالت بعض معاملات میں غلاموں سے بھی بدتر تھی۔ وہ اپنے بچوں کی شادی بھی امرا اور زمینداروں سے پوچھے بغیر نہ کر سکتے تھے اور اگر جاگیر کے کسان کی شادی دوسری جاگیر کے کسی مزارع کی لڑکی سے ہو جائے تو اولاد دونوں جاگیرداروں میں تقسیم کر دی جاتی۔ درمیانہ طبقہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اور وہ معاشی طور پر دیوالیہ اور ذہنی طور پر پریشان ہو کر رہ گیا تھا۔ اونچا طبقہ جس پر ٹیکس معاف تھے اور وہ زمین کا مالک تھا دو قسم کے لوگوں پر مشتمل تھا۔ فوجی امرا اور پادری، عموماً معیاری زندگی اور مزارعین پر ظلم کرنے کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ عیس و عشرت اور بداخلاقی میں بھی مذہبی امرا فوجی امرا سے کسی طرح کم نہ تھے۔ اس طرح معاشرے پر کسی بیرونی قوت کا حملہ کرنا قانون فطرت کے عین مطابق ہے اور ہر حملہ آور سمجھتا ہے کہ ایسے ملک کو فتح کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ نیز مسلمانوں کا مقصد زندگی بھی اسی چیز کا متقاضی ہے کہ اللہ کے بندوں کو خدا کے علاوہ دوسروں کی غلامی سے نجات دلائی جائے۔

سیاسی انتشار ترمیم

گوتھوں کی بادشاہت انتخابی تھی۔ بادشاہت کے امیدواروں کی تعداد کافی ہوتی تھی۔ اور بادشاہ کے انتخاب کے بعد بھی باہمی رنجشیں برقرار تھیں۔ اسلامی حملہ سے چند سال سپین پر وٹیزا کی حکومت تھی۔ جو یہودیوں کا بہی خواہ، غریبوں کا معاون اور شرافت کا حامی تھا۔ اس وجہ سے فوجی امرا نے اس کے خلاف بغاوت کرکے فوج کے زور سے راڈرک کو بادشاہ بنا ڈالا اور وٹیزا کو قتل کر دیا۔ لیکن بہت سے امرا اور ویٹزا کے رشتہ دار اس نئے بادشاہ کے مخالف تھے اور اس کا تختہ الٹنے کے کسی بھی منصوبے میں تعاون کے لیے تیار تھے۔ مسلمانوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔

بربروں سے قدیم چپقلش ترمیم

بربر قوم حریت پسند اور جنگ جو تھی۔ اس قوم نے بڑی مشکل سے عربوں کی اطاعت قبول کی تھی۔ غالباً اسلامی فتوحات میں سب سے زیادہ مشکل شمالی افریقہ ہی کی فتوحات تھیں۔ وہ بار بار مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے رہتے تھے۔ وہ اب مسلمان ہو چکے تھے۔ اس لیے عرب گورنر موسٰی بن نصیر نے ان کی جنگی صلاحیتوں کو کسی دوسری طرف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاکہ ان کو مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کا موقع نہ مل سکے۔ اس مقصد کے لیے اندلس کی فتح بہترین منصوبہ تھا۔ کیونکہ قدیم زمانہ سے ہی بربروں اور اندلس کے درمیان جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ بالعموم بربروں کا حملہ سبتہ پر ہوتا تھا۔ جسے اندلس حکومت نے اب بہت مضبوط بنا ڈالا تھا۔

کاونٹ جولین کی دعوت ترمیم

اندلس کی فتح کافوری سبب یہ ثابت ہوا کہ سبتہ کا حکمران کاونٹ جولین جس نے دو مرتبہ مسلمانوں کے حملے کو ناکام بنا دیاتھا۔ خود موسٰی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے اندلس پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اندلس میں رواج تھا کی امرا کی لڑکیاں شاہی محل میں ملکہ کی خدمت گاروں کے ساتھ تعلیم و تربیت پاتی تھیں۔ جولین کی لڑکی فلورنڈا بھی راڈرک کے محل میں تھی۔ فلورنڈا بہت خوبصورت تھی۔ اس وجہ سے راڈرک نے اخلاق و اعتماد کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرکے اس کی عصت دری کی۔ فلورنڈا نے اس بات کی اطلاع اپنے والد کو بھیجی تو وہ دار الحکومت پہنچا۔ اس نے اپنے جذبات کو بادشاہ پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اور صرف یہ درخواست کی کہ فلورنڈا کی ماں بستر مرگ پر ہے اس لیے اسے واپس جانے کی اجازت دے دی جائے۔ راڈرک نے جولین کی بہت عزت افزائی کی اس کو بہت سے اعزازات سے نوازا۔ بربروں کے حملے کے بارے میں اس سے مشورے کیے۔ اس کے کہنے کے مطابق ملک کی منتخب فوج اس کے بھیج دی اوررخصت کرتے وقت اس سے فرمائش کی کہ شکار کے لیے عمدہ باز بھیجے جائیں جو لین نے اس کی بات کے جواب میں کہا

’’اس مرتبہ میں ایسے باز بھیجوں گا کہ آپ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھیے ہوں گے۔‘‘

واقعات ترمیم

کاونٹ جولین دار الحکومت سے واپس لوٹا تو خود موسی کے پاس گیا۔ موسٰی نے اس کی عزت و تکریم کی۔ جولین نے سپین کی زرخیزی کے حالات بتائے اور اس پرحملہ کرنے کی ترغیب دلائی۔ موسٰی نے سوچ بچار کے لیے کچھ وقت طلب کیا اور اس دوران میں خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اجازت طلب کی۔ اس کے بعد کاونٹ جولین کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ جولین سابقہ بادشاہ وٹیزا کا قریبی رشتہ دار غالباً داماد تھا۔ اس لیے اس نے وٹیزا کے دوسرے رشتہ داروں کو بھی معاہدہ میں شامل کر لیا اور اندلس کی فتح کی سکیم تیار کر لی گئی۔

طریف کی مہم ترمیم

خلیفہ ولید نے احتیاط سے اقدام کرنے کی ہدایت کی تھی اس لیے موسٰی بن نصیر نے پہلے صرف پانچ سو سواروں پر مشتمل ایک چھاپہ مار دستہ تیار کیا اور اپنے ایک بربر غلام طریف کو اس کا سربراہ بناکر سپین کے ساحل پر چھاپہ مارنے کے لیے روانہ کیا یہ دستہ جولائی 710ء میں الخضرا پر حملہ آور ہوا اور فتح مند اور کامران واپس لوٹا؛ اس حملہ سے سپین کی داخلی کمزوری فوجیوں کی بزدلی اور نظام عسکری کی خامیوں کا پتہ چل گیا اور کاونٹ جولین کے خلوص کی بھی تصدیق ہو گئی۔

طارق بن زیاد کا حملہ ترمیم

موسی بن نصیر نے اس کے بعد 7 ہزار سواروں پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا جس کی قیادت اپنے آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد کے حوالے کی۔ یہ لشکر 9 جولائی 711ء کو اس جگہ پر پہنچا جسے جبل الطارق کہا جاتا ہے۔ کاونٹ جولین اس کے ساتھ تھا۔ اندلس پہنچنے کے لیے بحری بیڑا اسی نے مہیا کیا تھا۔ طارق نے ساحل اندلس پر اترتے ہی ان جہازوں کو آگ لگا دی جن پر سوار ہو کر وہ شمالی افریقہ سے یہاں آئے تھے۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اب مرنا جینا اس سرزمین میں ہے اور واپس بھاگنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

تھیوڈ میر کو شکست ترمیم

طارق کا پہلا مقابلہ تھیوڈ میر والئی مرسیہ کے ساتھ ہوا تھیوڈ میر راڈرک کا تجربہ کار جرنیل تھا لیکن وہ شکست کھا کر اس بری طرح سے بدحواس ہوا کہ اس نے بادشاہ کے پاس پہنچ کر اطلاع دی وہ یہ تھی۔ ’’ہمارے ملک پر ایسے لوگوں نے حملہ کیا ہے جن کا وطن معلوم ہے نہ اصلیت کہ کہاں سے آئے ہیں زمین سے نکلے یا آسمان سے اترے۔‘‘

راڈرک کو شکست ترمیم

راڈرک نے اس اطلاع پر شمالی اسپین کی جنگوں کو ملتوی کر دیا۔ فوراً دار الحکومت پہنچا اور ہر طرف ہرکارے دوڑائے گئے۔ جاگیر داروں اور امرا کو فوجیں لے کر پہنچنے کا حکم دیا۔ پادریوں نے مذہبی جنگ کا وعظ کیا اور ایک لاکھ لشکر اکھٹا ہو گیا طارق کو ان سب تیاریوں کا علم ہوا اس نے موسیٰ بن نصیر کے پاس ہرکارے بھیجے اور اس نے مزید پانچ ہزار فوج بھیج دی۔ اس طرح سے ایک لاکھ کے اندلسی لشکر کے مقابلے میں 12 ہزار مجاہدین کی ایک جماعت تیار ہو گئی۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو عجیب منظر تھا ایک طرف ایک لاکھ ٹڈی دل جو ہر طرح کے اسلحہ سے لیس تھا۔ اور دوسری طرف صرف بارہ ہزار انسان جو اپنے وطن سے دور کمک و رسد سے مایوس تھے اور جن کے پاس دشمن کی بہ نسبت اسلحہ بھی بہت کم تھا۔ طارق بن زیاد نے اپنے ساتھیوں کے چہروں پر اس صورت حال کا رد عمل پڑھا تو اس نے ان کو خطاب کیا۔

’’اے جواں مردو! جنگ کے میدان سے اب مفر کی کوئی صورت نہیں ہے۔ دشمن تمھارے سامنے ہے اور سمندر تمھارے پیچھے۔ صبر اور مستقل مزاجی کے علاوہ اب تمھارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ تمھارے دشمن کے پاس فوج بھی ہے اور اسلحہ جنگ بھی۔ تمھارے پاس بجز تمھاری تلواروں کے اور کچھ بھی نہیں۔ اگر تم اپنی عزت و ناموس بچاؤ دشمن جو تمھارا مقابلہ کرنے کے لیے بڑھا آ رہا ہے اس کے دانت کھٹے کر دو۔ اس کی قوت کو ختم کردو۔ میں نے تم کو ایسے امر کے لیے نہیں پکارا جس سے میں گریز کروں۔ میں نے تم کو ایسی زمین پرلڑنے کے لیے آمادہ نہیں کیا جہاں میں خود لڑائی نہ کروں۔ اگر تم نے ذرا بھی ہمت ہمت سے کام لیا تو اس ملک کی دولت و حشمت تمھارے جوتوں کی خاک ہوگی۔ تم نے اگر یہاں کے شہسواروں سے نپٹ لیا تو خدا کا دین رسول اللہ کا حکم یہاں جاری و ساری ہو جائے گا۔ یہ جان لو جدھر میں تم لوگوں کو بلا رہا ہوں ادھر جانے والا پہلا شخص میں ہوں۔ جب فوجیں ٹکرائیں گی تو پہلی تلوار میری ہوگی جو اٹھے گی۔ اگر میں مارا جاؤں تو تم لوگ عاقل و دانا ہو کر کسی دوسرے کا انتخاب کر لینا مگر خدا کی راہ میں جان دینے سے منہ نہ موڑنا اور اس وقت تک دم نہ لینا جب تک یہ جزیرہ فتح نہ ہو جائے۔ ‘‘

کئی روز مسلسل راڈرک کا لشکر داد عیش دیتا رہا او ر مومنین سربسجود فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے رہے۔ بالاخر طبل جنگ بجے اور فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ ایک ہفتہ تک صبح سے شام تک جنگ ہوئی اور شام کو دونوں لشکر ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے۔ اسلامی لشکر بہت بہادری سے لڑ رہا تھا۔ لیکن اپنے سے آٹھ گنا لشکر کو جسے تمام سہولتیں حاصل ہوں شکست دینا اتنا آسان نہ تھا۔ آٹھویں روز طارق نے بھرپور حملہ کیا۔ سابق بادشاہ وٹیزا کے رشتہ دار راڈرک کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ راڈرک کی فوج کا دایاں و بایاں بازو انہی کے کمان میں تھا۔ قلب کی وہ خود کمان کر رہا تھا۔ طارق نے پورا زور قلب ہی پر لگا دیا اور عرب و بربر اس بہادری سے لڑے کی مسیحی لشکر بھاگ کھڑا ہوا۔ خود راڈرک بھی میدان سے بھاگ نکلا اور کہا جاتا ہے کہ دریا عبور کرنے کی کوشش کرتا ہوا لہروں کی نذر ہو گیا۔

بلاد اندلس کی فتح ترمیم

اندلس کی مرکزی حکومت کی شکست کے بعد طارق بن زیاد نے اپنی فوج چھوٹے دستوں میں تقسیم کرکے مختلف شہروں کی طرف روانہ کی۔ اور کاونٹ جولین کی راہنمائی کے مطابق ملک کے طول و عرض میں اسلامی فوج کے دستے فتوحات حاصل کرنے لگے۔ مسلمانوں نے پہلا حملہ اسیجہ پر کیا جہاں گاڈ ایسٹ کی شکست خوردہ فوج جمع ہو رہی تھی۔ اللہ تعالٰی نے یہاں بھی مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور قرطبہ کی فتح کا سہرا مغیث رومی کے سر بندھا۔ مالقہ اور غرناطہ بھی فتح ہو گئے دار الحکومت طلیطلہ کے باشندے مسلمانوں کی آمد کی خبر سن کر شہر چھوڑ کر بھاگ گئے ۔

فتح کی بشارت ملتے ہی موسی بن نصیر اندلس روانہ ہو گئے۔ موسی نے فتح اندلس کی تکمیل کے لیے قرمونہ اشبیلیہ اور ماروہ کو فتح کیا اور اس کے بعد دار الحکومت طلیطلہ میں طارق کے ساتھ جا ملے سپین کے شمالی حصے کی تسخیر دونوں کی متحدہ فوجوں نے کی اور سرقونہ ارغون اور برشلونہ کے علاقے فتح ہوئے۔

موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد کی واپسی ترمیم

خلیفہ ولید بیمار پڑ گیا اس نے موسی بن نصیر کو واپسی کا حکم دیا چنانچہ موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد 95 ھ میں بے پناہ مال غنیمت کے ساتھ پایہ تخت دمشق روانہ ہوئے۔ واپسی پر اس نے اپنے بیٹوں عبدالعزیز، عبداللہ، عبدالملک کو علی الترتیب سپین، شمالی افریقہ اور مراکش کا والی مقرر کیا۔ موسی کی اچانک واپسی کی بنا پر مسلمانوں کے مفادات کو سخت نقصان پہنچا خلیفہ ولید کے مرنے کے بعد جانشین خلیفہ سلیمان نے محض اپنی ذاتی رنجش کی بنا پر بجائے موسی کی عزت و توقیر اور منصب میں اضافہ کے جیل میں ڈال دیا۔ بعد میں اگرچہ ایک سردار کی سفارش کی بنا پر اس کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن سلیمان نے اس پر کئی لاکھ کا تاوان جرمانہ کی صورت میں عائد کر دیا اس قدر بڑی رقم موسی ادا نہ کر سکا اور اسلام کے اس نامور فرزند اور عظیم سپہ سالار اور فاتح نے اپنی زندگی کے بقیہ ایام انتہائی کسم پرسی اور تنگ دستی میں گزارے-