فلاحی ریاست سے مراد ریاست کا وہ تصور ہے جس میں ایک ریاست تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور شہریوں کی بہتری کی ذمہ داری لیتی ہے۔ ایک فلاحی ریاست اپنے شہریوں کے جانی و مالی تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتی ہے اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی ہے۔ ایک ریاست اپنے شہریوں میں کسی قسم کا امتیاز نہیں کرتی خواہ وہ لسانی، مذہبی، علاقائی امتیاز ہو یا اقتصادی و معاشرتی امتیاز ہو۔ پرانے زمانے میں ریاستیں صرف حکمرانوں کے مفاد تک محدود ہوا کرتی تھیں، لیکن پھر آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ایسے روشن خیال انسان پیدا ہوئے جنھوں نے ریاست میں نئے تصورات پیش کیے جس سے انسانی زندگی میں بہتری آئی۔ انھوں نے ریاست کے نظام کو از سر نو ترتیب دیا اور لوگوں کے حقوق اور ریاست کے حقوق دونوں وضح کیے۔ انسان میں جمہوریت کی سوچ بڑھی اور ریاستی نظام میں بہتری آئی۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ریاستی نظام میں ایک نیا تصور پیش کیا گیا جسے فلاحی ریاست کہا جاتا ہے۔

ریاستیں جو اپنے عوام پر زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں بمطابق انجمن اقتصادی تعاون و ترقی
  >30%

  25-30%

  20-25%

  0-20%

فلاحی ریاست کے بنیادیں اصول ترمیم

  • ریاست نہ تو مطلق اچھائی ہے جیسے اجتماعیت پسندوں کا خیال ہے اور نہ ہی لازمی برائی ہے جیسے انفرادیت پسندوں کا خیال ہے۔
  • ہر ریاست کچھ کام کرتی ہے جو لوگوں کی سماجی اور معاشرتی ترقی اور دیگر عوامل میں مختلف ریاستوں سے مختلف ہوتی ہے۔
  • ریاست معاشرے اور حکومت سے مختلف ہے اس کے دائرہ کار میں پوری انسانی زندگی نہیں آتی، ریاست کو اپنے آپ میں نظم و ضبط قائم کرنے، انصاف فراہم کرنے، اپنی سرزمین کا دفاع کرنے اور کچھ منصوبہ بندی تک محدود رہنا چاہیے۔ ریاست کے ہر فعل کو واضح طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔
  • ریاست مقصود بالذات نہیں بلکہ اسے شہریوں کی ترقی و خوش حالی اور فلاح کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔
  • ریاست اپنے اجتماعی اور انفرادی مفادات میں توازن قائم کر کے مقاصد حاصل کرتی ہے۔
  • ریاست کے عمل کا دائرہ کار متعین ہونا چاہیے ریاست کو بہت سے کام لازما کرنا ہوتے ہیں جیسے:
    • اپنی سرحدوں کا دفاع
    • اپنی حدود میں نظم و ضبط قائم رکھنا
    • انتظامی اور عدالتی نظام قائم کر کے اپنی برادری کو منظم کرنا
    • نظام چلانے کے لیے محصول اور دیگر فنڈز کو اکھٹا کرنا
    • کرنسی کا اجرا اور مالیاتی نظام کو چلانا
    • ذرائع آمد و رفت اور رسل و رسائل کے نظام کو چلانا
  • بہت سے وضائف ایسے ہیں جنہیں ناظمانہ وظائف کہا جاتا ہے۔ یہ وظائف ایسے ہیں جنہیں ریاست اپنے کارکنوں کے ذریعے خود سر انجام نہیں دیتی بلکہ ان کے بارے میں صرف ہدایات دیتی ہے مثلاََ کارخانوں میں کام کی صورت حال، تجارت کے لیے لائسنس کا اجرا، تفریح گاہیں اور عوامی گھر، کاپی رائٹ ایکٹ کی نگرانی، ٹریڈمارک اور کمپنیوں کی رجسٹریشن، بنک انشورنس کمپنیاں معاہدے، شراکت داری وغیرہ۔
  • بہت سے وظائف ایسے ہیں جو ایک ریاست کے لیے لازمی تو نہیں البتہ ریاست کو ادا کرنے چاہیے خاص طور پہ تب جب وہ ایک فلاحی ریاست ہونے کا دعوٰی کریں، چند ایک یہ ہیں:
    • تمام شہریوں کے گذر بسر کے لیے خوراک، لباس اور رہائش کا انتظام کرنا۔
    • بڑھاپے کے لیے پینشن پرائیویٹ کمپنیوں میں بھی ہر سال لیبر کو بونس بونس میڈیکل اور اوجرت محنت والے کام کی بچت میں سے 25%مزدور کو حق لے کر دینہ اور 75%پرسنٹ مالک کے حساب میں لانا کیوں کے وہ کاروبار کو چلانا جانتاہ ہے اور مزدور محنت کرنی جانتی ہے اس لیے ریاست ان سب باتوں کو عمل میں لاکر لائیم کی جاتی ہے
    • تمام شہری اور دیہاتیوں کے لیے خواہ وہ کسی بھی مذہب یاں گروہ سے تعلق رکھتے ہوں،ان کے لیے ریاست کی ذمہ داری لازم ہے کے وہ ایسہ نظام لایں جس سے آنے والی نسل کامیاب نظام تعلیم سے بھرپور فائیدا ہر شخص اوٹھاے کیوں کے دنیا کی سب سے بڑی دولت تو علم ہی جس کا ذکر قرآن مجید میں صاف صاف بیان ہیں کے تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے لیکن دنیاہ نے تعلیم حاصل کی تو ہے لیکن اہمیت ان لوگوں نے سرف سائینس کو دی لیکن یہ نہی سوچے کے یہ سائینس کہاہ سے پیدا ہوئی اس جنم کدر سے ہوئے اس کی کمیابی کی اصل وجہ قرآن مجید کو تو لوگ بھول ہی گے جبکے خد بڑے بڑے سائینس دانوں نے یہ اعتراف کبول بھی کیا بلکے خد تسدیق کر کے سابت بھی کیا کے سائینس ابھی بھی اس مکام تک نہی پوہنچی جہاں اس کو قرآن کریم کے حساب سے پہنچ جانا چاہیے تھا ابھی یہ سرف چاند ستاروں کے بیچ ہی گھوم رہے ہیں لیکن اس روشنی دینے والے سورج کو بھول گے ہیں جو سورج ان کی زندگیوں میں اوجالا لاتا ہے جو سوج اللہ کی رحمت سے انسانوں کو جینے کے لیے آکسیجن ایسی دیتہ ہے جس سے ہر جاندار کی ہڈی مضبوت ہوتی ہے اور پدائیش کے بعد اپنی اصل مضبوتی کی ترف اللہ کی رحمت جو سورج سے پوری دنیا میں چوبیس گھنٹے برستی ہے دن اور رات کی شکل میں انسان تو اللہ کی اس ایک ہی نعمت کا شکر ادا نہی کرسکہ۔
    • مستحق شہریوں کے لیے مفت علاج

فلاحی ریاست اور غربت ترمیم

یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ایک فلاحی ریاست میں غربت تیزی سے کم ہوتا ہے، ایک فلاحی ریاست میں عوام پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں تیز سے غربت کے لکیر سے اوپر آئے ہیں جن کا ریاستیں نظام بہتر ہے۔ حسب چند ممالک کی فہرست ہے جن میں غربت کی شرح تیزی سے کم ہوئی ہے:

ملک مطلق شرح غربت (1960–1991) متعلقہ شرح غربت (1970–1997)
قبل از فلاحیت بعد از فلاحیت قبل از فلاحیت بعد از فلاحیت
  سویڈن 23.7 5.8 14.8 4.8
  ناروے 9.2 1.7 12.4 4.0
  نیدرلینڈز 22.1 7.3 18.5 11.5
  فن لینڈ 11.9 3.7 12.4 3.1
  ڈنمارک 26.4 5.9 17.4 4.8
  جرمنی 15.2 4.3 9.7 5.1
  سویٹزرلینڈ 12.5 3.8 10.9 9.1
  کینیڈا 22.5 6.5 17.1 11.9
  فرانس 36.1 9.8 21.8 6.1
  بلجئیم 26.8 6.0 19.5 4.1
  آسٹریلیا 23.3 11.9 16.2 9.2
  مملکت متحدہ 16.8 8.7 16.4 8.2
  ریاستہائے متحدہ 21.0 11.7 17.2 15.1
  اطالیہ 30.7 14.3 19.7 9.1

عوام پر خرچہ ترمیم

حسب ذیل وہ ممالک ہیں جو زیادہ اپنے عوام پر پیشہ خرچ کرتے ہیں:

قوم عوام پر خرچ
(فیصد از جی ڈی پی)[1]
سال[2] جی ڈی پی فی کس[3]
  فرانس 31.9 2014 $36,907
  فن لینڈ 31.0 2014 $38,251
  بلجئیم 30.7 2014 $40,338
  ڈنمارک 30.1 2014 $42,764
  اطالیہ 28.6 2014 $34,303
  آسٹریا 28.4 2014 $44,149
  سویڈن 28.1 2014 $43,533
  ہسپانیہ 26.8 2014 $32,103
  جرمنی 25.8 2014 $43,332
  پرتگال 25.2 2014 $25,900
  نیدرلینڈز 24.7 2014 $43,404
  یونان 24.0 2014 $25,651
  سلووینیا 23.7 2014 $28,298
  لکسمبرگ 23.5 2013 $90,790
  جاپان 23.1 2011 $36,315
  مجارستان 22.1 2014 $22,878
  ناروے 22.0 2014 $65,461
  مملکت متحدہ 21.7 2014 $35,760
  جمہوریہ آئرلینڈ 21.0 2014 $43,304
  نیوزی لینڈ 20.8 2013 $34,826
  پولینڈ 20.6 2014 $23,275
  چیک جمہوریہ 20.6 2014 $27,344
  سویٹزرلینڈ 19.4 2014 $53,672
  ریاستہائے متحدہ 19.2 2014 $53,143
  آسٹریلیا 19.0 2014 $43,550
  سلوواکیہ 18.4 2014 $26,114
  کینیڈا 17.0 2014 $43,247
  آئس لینڈ 16.5 2014 $39,996
  استونیا 16.3 2014 $25,049
  اسرائیل 15.0 2013 $32,760
  ترکیہ 12.5 2013 $18,975
  جنوبی کوریا 10.4 2014 $33,140
  چلی 10.0 2013 $21,911
  میکسیکو 7.9 2012 $16,463

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Social Expenditure - Aggregated data
  2. For social expenditure figures.
  3. [1], The World Bank, عالمی بنک. Accessed on 11 October 2014.