قحبہ گری میں بھرتی (انگریزی: procuring) ان تمام طریقوں یا کوششوں کا نام ہے جن کی وجہ سے قحبہ گری میں خصوصًا عورتوں کی بھرتی کی جائے۔ انھیں جسم فروشی کی عادی اور اس پیشے کا حصہ بنایا جائے۔ قحبہ گری میں بھرتی بھڑوائی سے مختلف ہے۔ جہاں بھڑوائی میں ایک شخص کسی قحبہ کی خدمات کی اجرت یا اجرت کا حصہ کماتا ہے، وہیں قحبہ گری میں بھرتی کرنے والا کسی عورت کو اس پیشے میں داخل ہونے یا اس پیشے میں تاحیات قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ قحبہ گری میں بھرتی کے جرم میں دولت کا حصول اصل جرم کا حصہ نہیں ہے۔ اس کے بر عکس اصل جرم تو یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنا زور لگا کر کے کسی دوسرے شخص کو قحبہ گری پر آمادہ کر سکتا ہے یا اس شخص کو اسی پیشے میں بنے رہنے کے لیے مائل کر سکتا ہے۔ دنیا کے بیش تر قوانین کی رو سے دونوں ہی جرم ہیں اور ان دونوں جرائم کی صورتوں میں تین سے لے کر چھ سال تک قید اور / یا 10,000 امریکی ڈالر تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔[1]

مختلف ملک میں قحبہ گری میں بھرتی ترمیم

بھارت ترمیم

بھارت ہر سال 30 لاکھ بچے جبراً بھرتی کیے جاتے ہیں گداگری سے قحبہ گری تک فیکٹریوں میں ”بیڑی“ تیار کرنے سے آتش بازی کا سامان بنانے تک اور کیڑے مارادویات سے لبریز کھیتوں کھلیانوں تک ہر جگہ بھارتی بچے تختہ ستم بنتے ہیں تاکہ پیٹ کی ابھرتی ضرورتوں کو کم کیا جا سکے۔[2] قحبہ گری کے پیشے میں کئی بار بچوں کو ان کے ماں باپ یا رشتے دار ہی دھکیل دیتے ہیں۔ کم عمری میں داخل بچے اکثر اس پیشے سے ہی جڑے رہتے ہیں۔

پاکستان ترمیم

پاکستان میں لاہور اور کچھ بڑے شہروں میں لڑکیوں کو باضابطہ قحبہ گری کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔ ملک میں منیجروں کی ایک نئی نسل، دلالوں، ایجنٹوں اور بردہ فروشوں کی شکل میں سامنے آ چکی ہے جس نے تسلسل کے ساتھ قائم صنعت (established industry) کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ ان لوگوں میں سے بعض ہیرا منڈی کے ہیں اور بعض بیرونی ہیں، ان کی دولت کا کوئی شمار ہی نہیں اور نہ ہی کوئی ان کی طاقت کا اندازہ کر سکتا ہے۔ ان لوگوں نے بوڑھی کنجری عورتوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ جدید دور کے منتظمین قحبہ گری (modern executives) صرف پندرہ سے انیس برس اور پھر بیس سے تیس برس کی دو کیٹگریز میں چلا رہے ہیں۔ تیس برس کی ہونے پر عورت کو فوراً باہر پھینک کر بے روزگار کر دیا جاتا ہے۔[3]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم