غرانیق ویسے تو بگلے نما اونچی گردن والے پرندوں کو کہتے ہیں تاہم قصہ غرانیق اسلامی تاریخ کے ایک واقعے کو کہا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا اسلامی نام شیطانک ورسز نہیں ہے۔ یہ نام تو دراصل ایک مغربی پروفیسر، ولیم مویر نے اسے اسلام پر اپنی تحقیق کے نتیجے میں دیا۔ یہ واقعہ مکہ کے اس دور سے منسلک ہے جب مومنین کی جماعت پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہوئے رسول عربی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک جماعت کو یہ اجازت دی کہ وہ ابی سینیا یعنی حبشہ کوچ کرجائیں۔ یہ ایک مسیحی علاقہ تھا جہاں ہر مذہب کو اپنے نظریات پر کاربند رہنے کی آزادی تھی۔ مظالم سے تنگ صحابہ کی ایک جماعت ابی سینیا ہجرت کرگئی، اسے اسلام کی پہلی ہجرت بھی کہا جاتا ہے تمام کی تمام جماعت محض تین مہینے کے قلیل وقت میں مکہ واپس لوٹ آئی۔ ایسا دراصل اس لیے ہوا کہ ہجرت کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک افواہ پھیل گئی کہ قریش کے مشرکین مکہ نے بحیثیت مجموئی اسلام کو قبول کر لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ اس کے سچے ہونے کے بعد دوسرے ملک یا شہر میں رہنا حماقت تھی۔ لہٰذا روٹھے ہوئے تمام صحابہ حبشہ سے واپس مکہ تشریف لے آئے۔ ان کے لشکر کو واپس آنے کے بعد یہ اطلاع ملی کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ البتہ اس خبر کی بنیاد جس واقعہ پر تھی وہ جھوٹ نہ تھا اور واقعہ یہ تھا کہ رسول صلی الله علیہ وسلم جب سورہ النجم کی تلاوت فرما رہے تھے تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مشرکین بھی باجماعت سجدے میں گرگئے۔ سوائے سعد ابن مغیرہ کے جس نے اس وقت بھی تکبر کرتے ہوئے محض ماتھے پر مٹی لگا کر کہا کہ میرے لیے یہی بہت ہے۔ مشرکین کے اس سجدے سے یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ شاید انھیں اسلام کی حقانیت پر ایمان نصیب ہو گیا ہے مگر درحقیقت اس سجدے کا محرک قبول اسلام نہیں تھا۔[1] اس واقعہ کے ضمن میں بہت سارے مختلف اور متضاد واقعات ہتاریخی کتب میں لکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے تین نمائندہ واقعات کی تفاصیل درج ذیل ہے۔

پہلا واقعہ ترمیم

پہلا واقعہ حدیث کی کتاب صحیح بخاری میں مرقوم ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جب سورہ النجم کی آیات کا نزول ہوا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اپنی زبان اطہر سے تلاوت شروع کی تو نہایت پر اثر ماحول بن گیا۔ ان آیات میں خدا کی بڑائی اور قدرت کا ایسے حسین اثر انگیز انداز میں ذکر کیا گیا کہ سننے والے اس میں ڈوب گئے اور آیات کے آخر میں جب سجدہ کی بات آئی تو اسی اثر انگیزی میں مغلوب ہو کر مومن و مشرک سب ایک ساتھ سجدہ ریز ہو گئے۔

دوسرا واقعہ ترمیم

دوسری اور تیسری تفصیل نہ تو صحیحین میں مذکور ہے، نہ ہی صحاح ستہ کی کتب میں مرقوم ہے اور نہ ہی اسلامی تاریخ کی نسبتا نمائندہ کتب جیسے ابن اسحٰق یا ابن جریر میں اس کا کوئی ذکر ہمیں ملتا ہے۔ بعض جید بزرگ علما نے انھیں مسترد کر دیا ہے۔ ان میں علامہ ابن کثیر رح، ناصر البانی رح، امام رازی رح اور دیگر شامل ہیں۔ ابن خزیمہ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر دوسری اور تیسری تفصیل کو موضوع یعنی گھڑا ہوا قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود، وہ اکابر محقق علما بھی موجود ہیں جوان میں سے دوسری تفصیل کے قائل رہے ہیں اور کچھ عظیم مفکر علما تیسری رائے کے بھی قائل ہیں۔ تینوں گروہوں کے پاس اپنی اپنی دلیلیں موجود ہیں۔ دوسری تفصیل امام طبری کی تفسیر اور کچھ اور کم مستند کتابوں میں آئی ہے۔ اس میں ایک روایت لکھی گئی ہے جسے ارواہ ابن زبیر نے روایت کیا ہے۔ ارواہ ابن زبیر صحابی نہیں تھے۔ اس روایت کے مطابق جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سورہ النجم کی آیات تلاوت کر رہے تھے تو ابلیس شیطان نے با آواز بلند کچھ شیطانی آیات کا اضافہ کر دیا۔ شیطان کی یہ آواز صرف مشرکین نے سنی اور مومنین کے کانوں میں شیطان کی آواز نہیں آئی۔ دوسرے الفاظ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو انہی آیات کو تلاوت کیا جو قران حکیم میں موجود ہیں یا جو جبرئیل کے ذریعے وحی کی گئیں مگر آیات کی تلاوت کے درمیان میں جب آپ توقف کرتے تو شیطان نے اپنی آواز بنا کرکچھ شرک والی آیات پڑھ دیں جنہیں صرف مشرکین کی سماعت نے سنا اور مومنین کی جماعت کو شیطان کی آواز نہیں سنائی دی۔ روایت کے مطابق سورہ النجم کی ١٩ اور ٢٠ آیت میں جہاں مشرکین کے جھوٹے خداؤں یعنی بتوں لات و منات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں شیطان نے اپنے الفاظ کا اضافہ کر دیا۔ سورہ النجم کی آیت یہ ہیں أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ ١٩ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ ٢٠ 'کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا؟اور منات تیسرے پچھلے کو' اس مقام پر شیطان نے اپنی آواز میں ان الفاظ کا اضافہ کر دیا " تلك الغرانيق العُلى، وإن شفاعتهن لَتُرتَجَى " 'یہ بہت عالی مقام غرانیق ہیں(اونچی اڑان اور گردن والے پرندے) جن کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا' دوسرے الفاظ میں ان الفاظ میں مشرکین کے بتوں کو عالی نسل اڑان والے پرندوں سے تشبیہ دیکر یہ کہا گیا کہ روز قیامت یہ شفاعت کریں گے۔ ان الفاظ کو سن کر مشرکین نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں نے ہم سے موافقت کرلی ہے اور نتیجہ یہ کہ وہ بھی مومنین کے ساتھ سجدہ ریز ہو گئے اس دوسری تفصیل کو کئی چوٹی کے علما درست تسلیم کرتے ہیں جن میں سرفہرست نام امام ابن حجر عسقلانی رح کا ہے۔ معروف ترین شرح یعنی 'فتح الباری' کے مصنف آپ ہی ہیں۔ امام ابن حجر اس اس روایت کو جسے عیف حدیث کہا جاتا ہے اپنے ایک اسول کیوجہ سے قبول کیا۔ کہ اگر بہت سی ضعیف احادیث موجود ہوں تو وہ سب مل کر قوی ہوجاتی ہیں اور ضعف باقی نہیں رہتا۔ یہ دوسری تفصیل طبری کی اس تفسیر کے علاوہ بھی کم مستند کتابوں میں کچھ ردوبدل کے ساتھ موجود ہے۔ لہٰذا ابن حجر رح کے بقول ان ضعیف روایتوں کی کثرت نے ان کے ضعف کو ختم کر دیا ہے۔ ان کی اس دلیل کے رد میں مشہور محدث امام ناصر الدین البانی رح نے علمی تنقید کی ہے۔ انھوں نے اسی شیطانک ورسز یا قصہ الغرانیق کے بیان میں اپنا ایک پورا کتابچہ تحریر کیا ہے جس میں ابن حجر رح کی دلیل کو فن حدیث سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے یہ سمجھایا ہے کہ کیوں قصہ الغرانیق کی ان احادیث پر علم حدیث کے اس اصول کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا، جس میں ضعیف حدیثوں کی کثرت ضعف کو ختم کردیتی ہے

ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ

تیسری تفصیل ترمیم

تیسری تفصیل کا ذکر الواحدی اور دوسری کمزور کتب میں آیا ہے۔ اس کے مطابق جب آپ صلی الله علیہ وسلم سورہ النجم کی آیات کی تلاوت کر رہے تھے تو ان کے کان میں شیطان نے یہ شیطانی آیات ڈال دیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کو نعوز باللہ دھوکا ہوا کہ یہ شیطان نہیں بلکہ جبرئیل ہیں اور نتیجہ میں یہ شیطانی آیات تلاوت کر دیں۔ نماز کے آباد جبرئیل تشریف لائے اور دریافت کیا کہ یہ دو آیات آپ نے کیوں تلاوت کیں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ کیونکہ تم نے مجھے یہ آیات سنائیں۔ اس کے جواب میں جبرئیل الہے سلام نے بتایا کہ انھوں نے یہ آیات نہیں کہی تھی اور یہ من جانب ابلیس تھیں۔ یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم شدید رنجیدہ ہوئے اور ان آیات کو منسوخ کیا یا یوں کہیں کہ نکال دیا۔ کئی محقق علما نے اسی رائے کو درست قرار دیا ہے۔ ان علما میں سب سے چوٹی کا نام امام العصر یعنی امام ابن تیمیہ کا ہے۔ طبری صاحب نے غرانیق کے افسانے کو اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔یہ ایک ایسی کہانی ہے جو قرآن کی تعلیمات کے خلاف اورمنصب نبوت کی توہین پرمبنی ہے۔اس افسانے میں لسانِ نبوت سے جو"وماینطق عن الہویٰ" کی مظہ رہے۔مشرکین مکہ کی خوشنودی کے لیے کلمات شرکیہ کا سرزد ہونا بتایاگیاہے۔اس من گھڑت الزام کوسب سے پہلے اورسب سے زیادہ طبری صاحب نے اپنی کتاب میں جگہ د ی ہے۔بعد کے علما بلکہ مستشرقین تک نے اس بے حقیقت اور بے اصل فسانے کو یکسرمسترد کر دیا ہے۔ طبری صاحب علما کے حلق میں اٹکے ہوئے ہیں جسے نہ وہ نگل سکتے ہیں اور نہ اگل سکتے ہیں بس اس کو چھپانے کی مختلف توجیحات پیش کر سکتے ہیں۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. "شیطانک ورسز یا شیطانی آیات کا الزام۔ کیا مفروضہ؟ کیا حقیقت؟"۔ 28 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2016