قلعہ سیالکوٹ پاکستان کے قدیم ترین تاریخی قلعوں میں سے ایک ہے، جسے پانچ ہزار قبل کھشتری راجا سل نے تعمیر کیا۔ اسے قلعہ سل بھی کہتے ہیں۔اس کے بعد اس قلعے کو دوسری صدی میں ہندو گجر بادشاہ راجہ سالباہن عرف سلوان نے دوبارہ نے تعمیر کروایا۔اور اس کا نام سل مٹا کر سیالکوٹ رکھا۔۔ اس قلعہ کو دس ہزار مزدوروں نے دو سال میں تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر لکڑی کے پھٹوں، کنکریوں اور اینٹوں سے کی گئی اور یہ سارا سامان بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے منگوایا گیا۔

مؤلف قدیم آثار ہند نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ یہ قلعہ راجا سل نے ایک متبرک اور مقدس ٹیلے پر اپنے علاقہ کے دفاع کے لیے تیار کروایا تھا۔ اس پر بہت سے مندر اور معبد تھے، جنہیں قلعہ کی حدود میں شامل کر دیا گیا تھا۔

مہابھارت کے بعد دوسری قدیم کتب جن میں قلعہ سیالکوٹ سے حالات ملتے ہیں ایک تاریخی تذکرہ ’’باقیات عالم‘‘ ہے، جس کے مطابق یہ قلعہ پانچ ہزار سال پرانا ہے۔

مختلف تاریخی ادوار ترمیم

آج سے دو ہزار سال پہلے اس قلعہ میں راجا پورن کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پورن کی سوتیلی ماں’’لوناں‘‘ پورن کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی، لیکن اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اس نے پورن پر جھوٹا الزام لگا کر سالباہن کو پورن کے خلاف بھڑکایا اور آخرکار اس قلعہ میں پورن جیسے معصوم شہزادے کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم سنایا گیا۔ اس مقدمے کا فیصلہ ہونے تک پورن جس قید خانے میں قید رہا وہ قلعہ میں اس جگہ پر ہے جہاں آج کل جناح ہال موجود ہے۔ یہ قید خانہ زیریں اور بالا دونوں حصوں میں تھا۔ راجا سالباہن کے دوسرے بیٹے راجا رسالو نے اس پر عرصہ دراز تک حکومت کی اور سیالکوٹ کی ایک گلی آج بھی اس کے نام پر ہے۔ جیسے سالو گجر کی گلی کہا جاتا ہے ۔

جموں کا مشہور راجا سوم دت کافی عرصہ تک اس قلعہ پر قابض رہا۔ 362ء میں گکھڑ سردار راجا نے اس قلعہ کا محاصرہ کیا۔ راجا رسالو مقابلہ کی تاب نہ لا کر قلعہ بند ہو گیا۔ آخر کار شدید جنگ کے بعد راجا جیت گیا۔ راجا سوڈی نے راجا رسالو کی لڑکی سہاون سے شادی کرنے کے بعد یہ قلعہ اور شہر راجا رسالو کے حوالے کر دیا۔

455ء میں ایلخان ہن گجروں کے سردار مہر گل نے سیالکوٹ کو دار الحکومت بنایا۔ قلعہ کے برج اور فصیل ازسرنو تعمیر کی گئی۔

795ء میں یوسف زئی کے سردار نے اس شہر کے ساتھ قلعے کو بھی زیر و زبر کیا۔ بقول مؤلف سفرنامہ ’’مظہری مہر گل کے برج جو قلعے پر تھا اس نے تباہ کر دیا۔‘‘

محمود غزنوی کے دور میں آنند پال نے سیالکوٹ کو دار الحکومت بنایا۔ جب شہاب الدین غوری تخت نشین ہوا تو اسے گکھڑ قوم کے سردار خسرو ملک نے پریشان کیا۔

جب ظہیرالدین بابر کا دور آیا تو اس نے قلعہ اور شہر خسرو کو کنسناش کے سپرد کر دیا۔ اکبر جب گجرات سے براستہ سیالکوٹ آیا تو ایک جشن عظیم اس قلعے میں منایا گیا۔ اس جشن کی خوشی میں قلعے کے ہاتھی دروازے کا نام اکبری دروازہ رکھا گیا۔ شاہ جہاں سے لے کر اورنگ زیب عالمگیر تک قلعے سے متعلق کوئی خاص واقعہ وابستہ نظر نہیں آتا۔

1764ء میں جب سکھوں نے سیالکوٹ پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں کا حاکم جیون خان تھا۔ سردار جیون سنگھ اور رنجیت سنگھ کے درمیان خوب رن پڑا ایک مہینہ دس دن کے محاصرہ اور گولہ باری کے بعد قلعہ رنجیت سنگھ کے پرچم تلے آگیا۔1839ء میں یہ قلعہ رنجیت سنگھ کے دو لڑکوں کشمیرا سنگھ اور پشورا سنگھ کے قبضے میں تھا، انھوں نے قلعہ کی مرمت کروائی۔

1849ء میں انگریزوں نے سیالکوٹ اور اس کے قلعے پر قبضہ کر لیا اس دوران میں قلعے کو سب سے زیادہ نقصان انقلاب 1857ء میں پہنچا۔ تمام انگریز اس قلعے میں جمع ہو گئے، جن کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی [1]1857ء کی جنگ آزادی کے ہیرو خان حرمت خان نے قلعہ پر حملہ کر دیا۔ بعد ازاں انگریزوں نے دھوکے سے اسے گرفتار کر کے اس قلعہ پر سزا سنائی تھی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ انگریزی عہد میں اس قلعے کی دفاعی حیثیت کو ختم کر کے امور عامہ کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ انگریزی عہد میں یہاں تھانہ سٹی دفتر میونسپلٹی، دفتر ڈسٹرکٹ بورڈنگ ہاؤس اور منٹگمری لائبریری کی بنیاد رکھی گئی۔

14 اگست 1947ء کے بعد قلعہ سیالکوٹ پاکستان کے حصے میں آیا۔ اس دور میں منٹگمری لائبریری اور جناح ہال کی ازسرنو تعمیر کروائی گئی۔ قلعے کی ہیئت میں اب تک بہت قطع و برید ہوئی ہے، مگر تاریخی لحاظ سے آج بھی یہ قلعہ خاص و عام کی توجہ کا مرکز ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. میوٹنی ان سیالکوٹ ص 23