قلعہ پھروالہ ایک تاریخی قلعہ جو خطہ پوٹھوار میں واقع ہے۔[1] راولپنڈی سے مشرق کی جانب 27کلو میٹر اور اسلام آباد ہائی وے سے 17کلومیٹر کے فاصلہ پر لہتراڑ روڈ چراہ گاؤں کے قریب تحصیل کہوٹہ میں واقع ہے یہ چار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ قلعہ قدرتی طور پر ایک طرف کوہ ہمالیہ کی پہاڑی اور دوسری جانب دریائے سواں ہونے کی بنا پر محفوظ مقام پر واقع ہے۔ گکھڑوں کا یہ قلعہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے 1519ء میں اسے فتح کیا بعد ازاں سکھوں نے 1825ء میں اس پر قبضہ کر ڈالا۔ یہ قلعہ گکھڑوں کا دار الخلافہ بھی رہا ہے۔ اس قلعہ کے چھ دروازے ہیں جن کے نام لشکری، قلعہ، ہاتھی، باغ، زیارت اور بیگم دروازے ہیں۔ ہاتھی دروازہ شمال مشرق جبکہ بیگم دروازہ جنوب مغرب کی طرف کھلتا ہے جو بری طرح تباہ ہو چکا ہے، یہ دروازہ دریائے سواں سے نکلتے ہوئے پہلی اونچی چٹان پر واقع ہے۔[2] قلعہ کے مغرب میں ایک مسجد موجود ہے جس کا شمار برصغیر کی قدیم ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک دفتر کے آثار دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں قلعہ کے لوگ نماز پڑھنے کے لیے قلعہ سے مسجد جاتے تھے اور درمیان میں جو دریا موجود ہے اس وقت شاید یہ موجود نہ تھا۔گکھڑ قبیلے کے آخری سلطان مقرب خان کا مقبرہ بھی قلعہ میں موجود ہے۔ قلعہ کی عقبی دیوار شمال کی جانب برگد کا ایک بہت پرانا درخت موجود ہے، جس کے نیچے چند ایک پرانی قبریں موجود ہیں، مقامی افراد کے مطابق ان قبروں کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس بیٹھک پر داتا گنج بخش ہجویری ،البیرونی ،سخی سبزواری بادشاہ جلوہ افروز ہوتے رہے ہیں۔ مختلف کتابوں میں اس بات کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ قلعہ پھروالہ میں ہر وقت گکھڑوں کی 500 نفوس پر مشتمل فوج موجود رہتی تھی جبکہ 50 ہاتھی اور 100 گھوڑے دفاعی ضروریات کے پیش نظر ہر وقت قلعہ میں موجود رہتے تھے۔[3]

قلعہ پھروالہ
Pharwala Fort
قلعہ پھروالہ
عمومی معلومات
مقامراولپنڈی ضلع، پاکستان
متناسقات33°37′10″N 73°17′57″E / 33.61944°N 73.29917°E / 33.61944; 73.29917
Gate of Pharwala Fort toward the Swaan stream
Pharwala Fort


یہ قلعہ ایک زمانے میں گکھڑ سلطنت کی راجدھانی تھا اور جس کی سرحدیں کلرکہار سے لے کر ڈڈیال آزاد کشمیر تک اور دوسری جانب جہلم سے لے کر اٹک تک اور اس سے اوپر ہزارہ اور کوہستان تک پھیلی ہوئی تھیں (بحوالہ تزک بابری صفحہ 272)۔

یہ قلعہ 1008ء سے 1012ء کے درمیانی عرصہ میں گکھڑ سردار کیگوہر نے بنوایا تھا۔ 450 کنال پر محیط یہ قلعہ دفاعی نقطۂ نظر سے بنایا گیا تھا جس کے ایک طرف دریا اور دوسری جانب بلند پہاڑی ہے۔ شاہراہ ریشم اور جرنیلی سڑک کے ساتھ کشمیر جانے والے راستوں کے سنگم پر واقع اس قلعہ کی تزویراتی اہمیت مسلم ہے۔ قلعے کی جو دیواریں سلامت ہیں وہ 28 سے 30 فٹ بلند ہیں اور 10 فٹ تک چوڑی ہیں۔ ان پر تیر چلانے کے لیے غنیم بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

قلعے کی بیرونی دیوار میں چھ دروازے ہیں جن کو لشکری، بیگم، ہاتھی، باغ,قلعہ اور زیارت دروازوں کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مرکزی لشکری دروازہ جو دریا کی سمت ہے اس کی اونچائی 26 فٹ اور چوڑائی 14 فٹ ہے۔ کبھی یہاں دفاعی ضرورت کے پیش نظر 500 فوجی، 50 ہاتھی اور 100 گھوڑے ہر وقت چوکس رہتے۔ قلعے کے اندر ایک قدیم مسجد کے آثار بھی دیکھے جا سکتے ہیں، آخری گکھڑ سردار سلطان مقرب خان کا مقبرہ بھی موجود ہے، قلعہ کی شمال کی جانب برگد کا ایک بہت قدیم درخت ہے جس کے نیچے چند پرانی قبریں ہیں اور ایک بیٹھک بھی بنی ہوئی ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت داتا گنج بخش، البیرونی اور سخی سبزواری بھی یہاں سے گزرتے ہوئے قیام پزیر ہوئے۔

گکھڑ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے اس حوالے سے تاریخ میں مختلف روایتیں ملتی ہیں۔ جنرل کنگھم کے خیال میں گکھڑ کشمیری بادشاہ ابھی سائرس اول کے ماتحت تھے جن کی سلطنت موجودہ پوٹھوہار سے کشمیر تک پھیلی ہوئی تھی۔ تاہم خود گکھڑوں کی اپنی تاریخ ’کیگوہرنامہ‘ از دُنی چند 1720ء کے مطابق وہ سلطان کید بن گوہر کی اولاد ہیں جو اصفہان میں کیان کا رہنے والا تھا۔ اس نے تبت اور بدخشاں کو تسخیر کر کے ایک سلطنت کی بنیاد رکھی۔

جبکہ [[لیپل گریفن] کی کتاب ’چیفس آف پنجاب‘ کے مطابق سلطان کید کا خاندان دس پشتوں تک کشمیر کے علاقے کا حکمران رہا اور سلطان رستم خان جب ایک بغاوت میں مارا گیا تو اس کے بیٹے قابل خان نے ناصر الدین سبکتگین کے پاس پناہ لی۔ جس کا بیٹا گکھڑ شاہ اپنے قبیلے کے ہمراہ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ 1001ء میں ہندوستان آیا جن کو سلطان محمود نے پوٹھوہار کا علاقہ دیا جس کے ثبوت کے طور پر سلطان محمود غزنوی کے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک وثیقہ بھی پیش کیا جاتا ہے جس میں ’درمیان اٹک و جہلم‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے حالانکہ اس زمانے میں دریائے سندھ کو اٹک نہیں بلکہ نیلاب کہتے تھے۔

تاریخ فرشتہ میں گکھڑوں کو ایک وحشی قبیلہ قرار دیا گیا ہے جو پنجاب میں 682 سے آباد ہے جس میں کثیر شوہری کی روایت بھی تھی اس قبیلے نے 13ویں صدی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن گکھڑوں کا کہنا ہے کہ تاریخ فرشتہ کے مصنف محمد قاسم فرشتہ نے 1612 میں بیجا پور میں بیٹھ کر جو تاریخ لکھی اس میں گکھڑوں کے حوالے سے اس لیے بغض برتا گیا کیونکہ محمد قاسم کے جد امجد ہندو شاہ کو لاہور میں شیخا گکھڑ نے ذلیل کیا تھا جس کا بدلہ اس نے تاریخ کی کتاب میں اتارا۔

الفنسٹن اپنی کتاب ’ہسٹری آف انڈیا‘ کے صفحہ 329 میں لکھتا ہے کہ سیالکوٹ کے راجہ رسالو کا حریف راجہ ہوڈی بھی گکھڑ تھا۔ واضح رہے کہ راجا رسالو کا عہد پہلی صدی عیسوی کا ہے۔ لیکن مستند تاریخ میں محمود غزنوی اور پرتھوی راج کی 1008ء میں لڑی جانے والی لڑائی کا ذکر ہے جس نے آنے والے ایک ہزار سال کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ یہ لڑائی اٹک میں چھچھ کے مقام پر لڑی گئی۔ شاید اسی فتح کی خوشی میں سلطان محمود غزنوی نے جنگی حوالے سے انتہائی اہم علاقہ کیے گوہر کو سونپ دیا ہو۔

1205ء میں جب گکھڑوں نے خوارزم کے خلاف بغاوت کی اور لاہور تک کے علاقے پر قابض ہو گئے تو شہاب الدین غوری نے فوراً ہندوستان میں داخل ہو کر گکھڑوں کو شکست دی۔ لیکن جب وہ واپس جا رہا تھا اور دریائے جہلم کے کنارے خیمہ زن تھا تو گکھڑوں کے ایک ٹولے نے آدھی رات کو دریا پار کر کے شہاب الدین غوری کو ہلاک کر دیا۔

جب بابر 1519ء میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا ان دنوں یہ علاقہ دو حصوں میں منقسم تھا ایک پر تاتار خان اور دوسرے پر ہاتھی خان کی حکمرانی تھی۔ دونوں چچا زاد تھے۔ تاتار گکھڑوں کا صدر مقام پھروالہ قلعہ تھا جبکہ کوہستانی علاقے پر ہاتھی خان کی حکمرانی تھی۔ جن دنوں بابر یہاں سے گذر کر بھیرہ میں قیام پزیر تھا ان دنوں ہاتھی خان نے تاتار کو قتل کر کے اس کا علاقہ بھی ہتھیا لیا۔ تاتار کے داماد منوچہر نے بابر کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ ادھر کوہستان نمک کے پار جنجوعہ سرداروں نے بھی ہاتھی خان کی شکایت کی کہ مسافروں کو لوٹتا ہے جس پر بابر نے بھیرہ سے کوچ کیا اور پھروالہ پہنچ کر قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ سخت لڑائی کے بعد ہاتھی خان قلعہ سے فرار ہو گیا۔ 15 مارچ 1519ء کو بابر تاتار محل میں فروکش ہوا۔ بعد ازاں ہاتھی خان کی صلح نامے کی درخواست پر بابر نے اسے معاف کر دیا اور اسے سلطان کے لقب سے نوازا۔ یہیں سے مغلوں اور گکھڑوں کی دوستی شروع ہوئی۔

1525ء میں ہاتھی خان کو اس کی بیوی نے زہر دے دیا جس کے بعد تاتار خان کا بیٹا سلطان سارنگ خان حاکم بنا۔ 1526ء میں جب بابر نے ابراہیم لودھی کے خلاف پانی پت میں مقابلہ کیا تو سارنگ خان کے بھائی آدم خان 12 ہزار گکھڑ سپاہی لے کر شریک ہوئے۔ فتح مند ہونے پر بابر نے گکھڑوں کو پوٹھوہار کی حکمرانی سونپ دی۔ اسی زمانے میں پھروالہ کے ساتھ انھوں نے دان گلی میں ایک اور قلعہ بنایا۔

1541ء میں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران کی طرف بھاگ گیا۔ شیر شاہ کو معلوم تھا کہ گکھڑ مغلوں کے وفادار ہیں اس لیے اس نے جہلم میں روہتاس کے مقام پر ایک بہت بڑا قلعہ بنوایا۔ مگر سلطان سارنگ خان نے شیر شاہ کی فوج پر چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں جن سے تنگ آ کر 1548ء شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد اس کے بیٹے سلیم نے گکھڑوں پر فوج کشی کی جس میں سلطان سارنگ خان اور ان کے 16 بیٹے مارے گئے جن کی قبریں روات کے قلعے میں موجود ہیں۔ بعد میں سلطان آدم خان نے ہمایوں کو دہلی کا اقتدار دوبارہ دلوانے میں بھرپور مدد کی۔

1553ء میں پھروالہ قلعہ کے در و دیوار ایک دلخراش واقعہ کے عینی شاہد ہیں جب ایک مغل شہزادے کی آنکھیں یہاں نکال دی گئیں۔ ہوا یوں کہ جولائی 1553ء میں ہمایوں کا باغی بھائی کامران مرزا پناہ کی غرض سے گکھڑوں کے پاس آیا۔ انھوں نے پناہ تو دی مگر ہمایوں کو اطلاع کر دی۔ جب ہمایوں پھروالہ پہنچا تو سلطان آدم خان نے اس شرط پر کامران کو ہمایوں کے حوالے کیا کہ اسے جان سے نہیں مارا جائے گا۔ مگر ہمایوں کے امرا کا اتفاق تھا کہ اسے مار دیا جائے۔ چونکہ ہمایوں آدم خان سے وعدہ کر چکا تھا اس لیے اسے مارا تو نہیں گیا مگر اس کی آنکھیں نکال دی گئیں۔

’پوٹھوہار‘ مطبع 1978ء از عزیز ملک کے صفحہ 154 پر درج ہے کہ اکبر اعظم کے عہد میں 1563ء میں آدم خان اور سارنگ خان کے بیٹوں میں تنازع اٹھ کھڑا ہوا جس کی وجہ سارنگ کے بیٹے علاول خان کی بیوی تھی جس پر آدم خان کا بیٹا لشکر خان عاشق ہو گیا اور علاول خان کو قتل کروا دیا۔ جواباً علاول خان کے بھائی نے لشکر خان کو مار دیا۔ اس واقعہ پر علاقے میں افراتفری پھیل گئی جس پر اکبر نے مداخلت کی اور روہتاس قلعہ میں اکبر اعظم نے گکھڑوں میں صلح کروا کر علاقے کو تقسیم کر دیا۔

آدم خان کے پوتے جلال خان کو روہتاس، سلطان پور، موضع دان گلی سمیت 453 گاؤں دیے گئے۔

کمال خان کے بیٹے مبارز خان کو پھروالہ سمیت 333 گاؤں دیے گئے۔

آدم خان کے ایک اور بیٹے شیخ گنگا کو تخت پڑی کا علاقہ اور 242 گاؤں دیے گئے۔

ایک برس بعد مبارز خان کی وفات پر پھروالہ بھی جلال خان کو مل گیا جو ایک جیالا فوجی تھا جس نے کوہاٹ، بنوں اور یوسف زئی قبیلے کے خلاف شاہی افواج کی قیادت بھی کی تھی۔

پھروالہ کے قلعے میں ایک اور تاریخ بھی رقم ہوئی جب ایک گکھڑ سردار شادمان خان نے 1650ء میں قلعے سے پیرا گلائیڈنگ کرتے ہوئے اڑان بھری۔ شادمان خان اورنگ زیب کے دربار میں ملک الشعرا تھا اور صاحب دیوان تھا۔ اس نے پہاڑی کی چوٹی پر پھروالہ قلعہ کی دیوار سے دریائے سواں کی جانب پیراگلائیڈنگ کا مظاہرہ کیا اس طرح انھوں وہ ایشیا کے اولین ہوا باز قرار پاتا ہے۔ تاہم بتایا جاتا ہے کہ پیرا گلائیڈنگ کرتے ہوئے ایک بار وہ اپنی ٹانگ بھی تڑوا بیٹھا تھا۔

مغلوں اور گکھڑوں کی قربت کا اندازہ ان کی باہم شادیوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ سلطان سارنگ خان کی پوتی جہانگیر کے عقد میں آئی۔ علی قلی خان کی بیٹی اورنگ زیب کے چوتھے بیٹے شہزادہ اکبر سے بیاہی گئی۔

مغلوں کے زوال کے ساتھ ہی جب مرہٹے دہلی کی طرف بڑھنے لگے تو احمد شاہ ابدالی نے سلطان مقرب خان کی مدد سے متھرا اور پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دی۔ مقرب خان ایک بہادر جرنیل تھا اس نے یوسفزئی افغانوں اور قلی خان رئیس خٹک کو شکست دی تو اپنی سلطنت گکھڑ منڈی تک پھیلا دی۔ احمد شاہ ابدالی نے سندھ سے چناب تک کا علاقہ مقرب خان کو دے دیا۔ آخر کار 1765ء میں سکھوں کی بھنگی مثل کے سردار گوجر سنگھ بھنگی نے بڑی فوج کے ساتھ چڑھائی کی تو مقرب خان نے گجرات سے نکل کر اس کا مقابلہ کیا مگر پسپائی اختیار کرتے ہوئے پھروالہ آ گیا۔

لیکن گکھڑوں کے ایک اور سردار رئیس ڈومیلی، ہمت خان نے مقرب خان کو دغا بازی سے قید کر کے مار ڈالا۔ مقرب خان کی وفات کے بعد اس کے دوبڑے بیٹوں نے پھروالہ اور دو چھوٹے بیٹوں نے دان گلی کا قلعہ لے لیا لیکن گوجر سنگھ نے ان کو نہ صرف تمام علاقوں سے محروم کر دیا بلکہ پھروالہ پر چڑھائی کر کے قلعہ کو تباہ بھی کر دیا۔ گکھڑ سرداروں کو قید کر کے جموں بھیج دیا گیا۔ سکھوں نے گکھڑوں کے سر کی قیمت ایک روپیہ لگا دی جس پر کئی شہزادے، اورسردار مارے گئے اور جو بچ گئے وہ یا ہجرت کر گئے یا پھر اپنی ذاتیں بدل کر رہنے لگے۔ اسی زمانے میں گکھڑ راجے اور کیانی کہلانے لگے۔ پھروالہ قلعہ کی تباہی سے گکھڑوں کا کم و بیش ساڑھے سات سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔

پھروالہ کا قلعہ گکھڑوں کی ہی نہیں بلکہ پوٹھوہار کی ایک پوری تاریخ کا گواہ ہے۔ مگر اس اہم تاریخی ورثے کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قلعے کی دیواریں چند جگہوں پر ہی باقی ہیں دروازے شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ عام لوگ تو درکنار آج کے گکھڑ خود بھی یہ نہیں جانتے کہ دریائے سندھ سے جہلم تک ان کے اجداد نے ساڑھے سات سو سال حکمرانی کی ہے۔ گکھڑ قبیلے کے سربراہ کرنل سلطان ظہور اختر نے 28 ستمبر 1980ء کو یہ قلعہ فیڈرل آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا تھا مگر انھوں نے بھی کبھی پلٹ کر خبر نہیں لی۔

معروف گلوکارہ حدیقہ کیانی بھی کرنل (ر) راجہ سلطان ظہور اختر کی بھتیجی اور محمود اختر کیانی کی بیٹی ہیں جن کا شجرہ بیسویں پشت میں گکھڑوں کے سردار گکھڑ شاہ سے جا کر ملتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. GeoNames.org
  2. "پھروالہ قلعہ"۔ 25 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 فروری 2017 
  3. "قلعہ پھروالہ محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ کا منتظر/راجا ساجدجنجوعہ"۔ 05 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 فروری 2017