ابو ہمدان قنبر علی ابن ابی طالب کے خادم اور غلام اور خاص اصحاب میں سے تھے۔ اور قنبر غلام علی، مولا علی سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ اور قنبر ایک متقی اور پرہیزگار آدمی تھے، علم والے اور بیان والے تھے۔ جنگ صفین میں امام علیؑ کی فوج کے ایک دستے کے پرچم دار تھے۔ وہ حجاج بن یوسف ثقفی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔[1][2][3]

نسب ترمیم

ان کے سلسلہ نسب اور باپ دادا کے سلسلہ میں معلومات دسترس میں نہیں ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ شہر بیہق (سبزوار کے قریب) میں زندگی گزاری ہے۔[4] ان کی کنیت ابو شعناء نقل ہوئی ہے۔[5] ابو شعناء یعنی الجھے بالوں والا بزرگ دانشور۔[6]

مقام و منزلت ترمیم

قنبر امام علی (ع) کے خاص صحابی، غلام اور دربان تھے۔[7] اسی طرح سے وہ امام حسن مجتبی (ع) کے دربان بھی تھے۔[8] شیخ طوسی نے انھیں امام علی (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔[9]

امام جعفر صادق کے نقل ہوا ہے کہ قنبر حضرت علی (ع) سے بہت الفت رکھتے تھے۔[10] جب بھی حضرت رات میں گھر سے باہر نکلتے تھے قنبر ان کی محافظت کرتے تھے بغیر اس کے کہ حضرت متوجہ ہوں۔[11] اسی طرح سے حضرت بھی ان خیال رکھتے تھے۔ ایک روز حضرت نے دو لباس، اس میں سے ایک کی قیمت 3 درہم اور دوسرے کی قیمت 2 درہم تھی، خریدے اور مہنگا والا قنبر کو عطا کر دیا۔[12]

امام علی (ع) کے دور میں ترمیم

تاریخی مصادر میں قنبر کے بارے میں مختلف اور منتشر اطلاعات و معلومات ذکر ہوئی ہیں:

  • جنگ صفین میں حضرت علی (ع) نے انھیں عمرو بن عاص کے غلام کے مقابلہ میں جو اپنے ساتھ بلند پرچم لے کر آیا تھا، ایک علم عطا کیا تا کہ یہ بلند کریں۔[14][15] اس جنگ میں قنبر نے معاویہ کے غلام حرب کو قتل کیا۔[16]
  • نقل ہوا ہے کہ ایک دن حضرت علی نے اپنی زرہ ایک یہودی مرد کو پہنے ہوئے دیکھی تو اس کی شکایت کرنے قاضی شریح کے پاس گئے۔ قاضی شریح نے آپ سے گواہ طلب کیے تو آپ نے امام حسن (ع) اور قنبر کو پیش کیا۔[17]
  • یہ بھی نقل ہوا ہے کہ ایک روز امام علی (ع) نے قنبر کو حکم دیا کہ وہ ایک شخص پر حد جاری کریں۔ قنبر نے اسے جذبات میں تین کوڑے زیادہ مار دیے تو حضرت نے اس شخص کو حکم دیا کہ وہ قنبر کو تین کوڑے مارے۔[18]
  • زاذان کہتے ہیں: جیسے ہی سلمان فارسی کا انتقال ہوا۔ میں گھر سے بایر آیا تو دیکھا کہ حضرت علی اور قنبر گھوڑے سے اتر رہے ہیں۔[19]
  • اشعث بن قیس کسی کام سے حضرت علی (ع) کے پاس آیا تو قنبر نے اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تو اس نے قنبر کے منہ پر ایک گھونسا مارا جس سے ان کی ناک سے خون بہنے لگا۔[20]
  • جب ایک شخص نے قنبر سے بد تمیزی کی اور انھوں نے اس سے انتقام لینا چاہا تو امام امیرالمومنین (ع) نے انھیں صبر کی تلقین کرکے ان کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ یہ تلقین شیعہ کتابوں میں اس طرح سے وار ہوئی ہے: مَہْلًا یا قَنْبَرُ دَعْ شَاتِمَک مُہَانًا۔ قنبر! صبر کرو اور جس نے تمھاری اہانت کی ہے اس کی توہین نہ کرو۔[21]
  • قنبر نے بیت المال سے سونے و چاندی کے ظروف سے بھرا کچھ کھیسہ چھپا دیا تا کہ حضرت اسے تقسیم نہ کر سکیں جب بیت المال کی تقسیم کے بعد قنبر نے حضرت کو ان کے بارے میں بتایا تو آپ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو قنبر نے کہا: اے امیر المومنین آپ نے سب تقسیم کر دیا اور کچھ بھی اپنے لیے نہیں بچایا۔ میں انھیں آپ کے لیے بچا لیا ہے۔ حضرت نے ان سب کو بیت المال کی طرف پلٹا کر لوگوں میں تقسیم کر دیا۔[22]

شہادت ترمیم

قنبر کو حجاج بن یوسف ثقفی کے حکم سے قتل کیا گیا۔ البتہ ان کے قتل کی کیفیت کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔[23] ایک روایت میں ان کے قتل کی کیفیت اس طرح سے بیان ہوئی ہے:

جب انھیں حجاج کے پاس لے جایا گیا تو حجاج نے ان سے پوچھا: علی کے پاس کیا کرتے تھے؟ قنبر نے کہا: میں ان کے لیے وضو کا پانی فراہم کرتا تھا۔ حجاج نے کہا: وہ وضو کے وقت کیا پڑھتے تھے؟ قنبر نے کہا: جب وہ وضو سے فارغ ہوتے تھے تو سورہ انعام کی چوالیسویں اور پینتالیسویں آیت کی تلاوت فرماتے تھے۔ حجاج کہتا ہے: میرا خیال یہ ہے کہ وہ ان آیات کی تاویل ہمارے خلاف کرتے تھے۔ قنبر نے کہا: ہاں۔ حجاج کہتا ہے کہ اگر میں تمھیں قتل کر دوں تو کیا کرو گے؟ قنبر نے کہا کہ اس صورت میں خوش نصیب اور تم بد نصیب ہو جاؤ گے۔ حجاج نے حکم دیا کہ انھیں قتل کر دیا جائے۔[24] حجاج نے ان کے ایک بیٹے کو بھی قتل کر دیا۔[25]

ان کے مزار کے بارے حمص یا کوفہ کا نام ذکر ہوا ہے۔[26] بغداد میں بھی ایک زیارت گاہ قنبر سے منسوب ہے جس کا نام قنبر علی ہے۔ جو اسی نام کے بازار اور اسی نام کے محلہ میں رصافہ (دریائے دجلہ کے مشرق میں) کے علاقہ میں واقع ہے۔[27]

نیشاپور میں بھی ایک بارگاہ قنبر اور ان کی اولاد سے منسوب ہے۔ علی بن زید بیہقی کی کتاب، تاریخ بیہق میں قنبر کے سلسلہ میں اس طرح سے ذکر ہوا ہے:

ان کی تربت نیشاپور میں مسجد ہانی کے مقام پر ہے۔ ہانی جن سے یہ مسجد منسوب ہے وہ ان کے بیٹوں میں سے ہیں۔ ہانی بن قنبر اور ان کی اولاد میں سے دو افراد، 1۔علی بن جمعہ بن ہانی اور 2۔ سلیطیان ہیں جو نیشاپور میں مدفون ہیں۔[28]

اولاد ترمیم

ان کے بیٹوں اور آل میں سے بعض کا نام راویوں میں شمار ہوا ہے:

  • ابی جبیر بن قنبر:اپنے والد سے روایات کے راوی ہیں۔[29]
  • سالم بن قنبر[30]
  • ابو الفضل العباس بن الحسن بن خشیش قنبری۔[31]
  • نعیم بن سالم بن قنبر۔[32]
  • محمد بن علی قنبری نامی شاعر: ہمدان میں رہتے تھے۔[33]

ایران میں دو مساجد: مسجد ہانی نیشاپور اور مسجد شادان سبزوار قنبر کے بیٹوں کے نام سے منسوب ہیں۔[34]

عوامی ثقافت میں ترمیم

عوام الناس کی نظر میں قنبر کا شمار حضرت علی کے با وفا ساتھی کے طور پر ہوتا ہے۔ لہذا شیعہ ثقافت میں قنبر کا ذکر بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔

قنبر خوانی ترمیم

ماضی میں ایران کے اکثر شہروں خاص طور پر ریاست خراسان میں حضرت علی (ع) کی شہادت کے موقع پر 21 رمضان کے شب و روز میں قنبر خوانی کے نام سے ایک رسم منائی جاتی تھی۔[35]

مآخذ ترمیم

  • ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد أبوالفضل إبراہیم، ناشر: دارإحیاء الکتب العربیہ - عیسی البابی الحلبی وشرکاہ، مؤسسہ مطبوعاتی إسماعیلیان
  • ابن اعثم کوفی، الفتوح، ترجمہ محمد بن احمد مستوفی ہروی، تحقیق غلام رضا طباطبائی مجد، تہران، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، 1372ش
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ط الأولی، 1415ق/1995ء
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ط الأولی، 1410ق/1990ء
  • ابن شہر آشوب، المناقب، علامہ، قم1379ق
  • ابن قتیبہ دینوری، الإمامہ و السیاسہ المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، ط الأولی، 1410ق/1990ء
  • ابن مسکویہ، ابو علی رازی، تجارب الأمم، جلد 1: مترجم ابو القاسم امامی، تہران، سروش، 1369ش جلد 5 و6: علی نقی منزوی، تہران، توس، 1376ش
  • بحرانی، سید ہاشم، مدینۃ معاجز الأئمہ الاثنی عشر و دلائل الحجج علی البشر، مؤسسہ المعارف الإسلامیۃ، قم
  • بختیاری، علی اکبر، سیرجان در آینہ زمان، کرمان، 1378ش
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، الرجال، تہران: دانشگاہ تہران، بی‌تا
  • بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوہ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعہ، تحقیق عبدالمعطی قلعجی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ط الأولی، 1405ق/1985ء
  • بیہقی، علی بن زید، تاریخ بیہق، تہران، فروغی، 1361ش
  • پناہی سمنانی، محمد-احمد، علی در ترانہ ہای عامہ، کتاب ماہ و ہنر، 1383ش
  • ثقفی کوفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تحقیق جلال الدین حسینی ارموی، تہران، انجمن آثار ملی، 1353ش
  • ثقفی کوفی، الغارات و شرح حال اعلام آن، ترجمہ عزیز اللہ عطاردی، انتشارات عطارد، 1373ش
  • حافظ شیرازی، دیوان، باہتمام سید محمد رضا جلالی نائینی و نذیر احمد، تہران، امیر کبیر، 1361ش
  • حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، دارصادر، ط الثانیہ، 1995ء
  • حنبلی دمشقی، ابن عماد، شذرات الذہب فی اخبار من ذہب، تحقیق الأرناؤوط، بیروت، ‌دار ابن کثیر، ط الأولی، 1406ق/1986ء
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، ط الثانیۃ، 1413ق/1993ء
  • سمعانی، محمد بن منصور، الأنساب، تحقیق عبد الرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، ط الأولی، 1382ق/1962ء
  • شیخ طوسی، رجال الطوسی، ناشر: جامعہ مدرسین، قم، 1415 ق
  • شیخ مفید، الإختصاص، یک جلد، انتشارات کنگرہ جہانی شیخ مفید قم، 1413ق
  • شیخ مفید، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ناشر: کنگرہ شیخ مفید، قم، 1413 ق
  • قمی، عباس، سفینۃ البحار، کتابخانہ سنائی، تہران
  • کلینی، الکافی، دار الکتب الإسلامیۃ تہران، 1365ش
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، 1 جلد، انتشارات دانشگاہ مشہد، 1348ش
  • مجلسی، بحار الانوار، موسسہ وفاء، بیروت
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الإشراف، تصحیح عبد اللہ اسماعیل الصاوی، القاہرۃ، دار الصاوی، بی‌تا(افست قم: مؤسسۃ نشر المنابع الثقافۃ الاسلامیہ)
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرۃ، چ دوم، 1409ق
  • خامہ یار، احمد، قنبر غلام علی علیہ السلام، مشعر، تہران، 1393ش

حوالہ جات ترمیم

  1. "قنبر بن حمدان رضوان اللہ عليہ"۔ 13 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  2. "قنبر مولى أمير المؤمنين"۔ 1436-01-19۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  3. "قنبر"۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  4. بیہقی، دلائل النبوہ، ص93، پانویس۔
  5. ابن مسکویہ، تجارب الامم، ج6، ص88
  6. ابن مسکویہ، ترجمہ، تجارب الامم، ج6، ص88، پاورقی
  7. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص258
  8. مسعودی، تنبیہ والاشراف، ص261
  9. طوسی، رجال، ص79
  10. کلینی، کافی، ج2، ص59
  11. قمی، سفینہ البحار، ج2، ص‌167
  12. ثقفی کوفی، الغارات، ج1، ص106
  13. ذہبی، تاریخ الاسلام، ج3، ص459؛ ابن قتیبہ، الإمامہ و السیاسہ، ج1، ص62؛ مسعودی، مروج‌الذہب، ج2، ص345
  14. طبری، تاریخ، ج4، ص563
  15. ابن اثیر، الکامل، ج3، ص279
  16. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ص610
  17. ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، ج1، ص320؛ ثقفی کوفی، الغارات، ج2، ص722
  18. کلینی، کافی، ج7، ص260
  19. ابن شہرآشوب، المناقب، ج2، ص302؛ بحرانی، مدینۃ المعاجز، ج2، ص419
  20. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نیج البلاغہ، ج6، ص117
  21. مجلسی، بحارالانوار، ج64، ص424؛ مفید، امالی، ص111
  22. ثقفی کوفی، الغارات(ترجمہ)، ص45
  23. کشی، رجال، ص72؛ مجلسی، بحارالانوار، ج42، ص132؛ مفید، اختصاص، ص72؛ مفید، ارشاد، ج1، ص328
  24. ثقفی کوفی، الغارات (ترجمہ) ص535
  25. حموی، معجم البلدان، ج2، ص303
  26. حموی، معجم البلدان، ج4، ص303
  27. خامہ یار، قنبر غلام علی علیہ السلام، ص 81
  28. بیہقی، علی بن زید، تاریخ بیہق، 1361ش، ص25۔
  29. ابن حجر عسقلانی، الإصابہ، ج8، ص113
  30. حموی، معجم البدان، ج1، 310
  31. سمعانی، انساب، ج10، ص492
  32. حموی، معجم البلدان، ج1، ص310
  33. سمعانی، انساب، ج10، ص491
  34. بیہقی، علی بن زید، تاریخ بیہق، 1361ش، ص25
  35. قنبر خوانی