مثنیٰ ابن حارثہ ان جلیل القدر کمانڈروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی ذہانت اور شجاعت کے زور پر ایرانی سلطنت کے حدود میں کئی معرکے سر کیے اور کسریٰ (شاہان ایران) کی کمر توڑ دی۔ دراصل ایران کی فتوحات کا تذکرہ مثنیٰ ابن حارثہ کے تذکرے کے بغیر شروع ہی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ سب سے پہلے مثنیٰ ابن حارثہ نے ہی خلیفۂ اول سیدنا ابو بکرؓ صدیق کی توجہ ایران کی طرف مبذول کی۔

مثنی ابن حارثہ
معلومات شخصیت
پیدائش 7ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نجد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

مثنی نام ،باپ کا نام حارثہ تھا، نسب نامہ یہ ہے، مثنیٰ بن حارثہ بن سلمہ بن ضمضم بن سعد بن مرہ بن ذیل بن شیبان بن ثعلبہ بن عکابہ بن صعب بن علی بن بکر بن وائل، رابعی،شیبانی

ابن حارثہ مدینہ میں ترمیم

مثنیٰ ابن حارثہ دو مرتبہ مدینہ آئے، ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے دور خلافت میں جب کہ ایران میں اسلام پر مظالم ڈھائے جا رہے تھے اور دوسرے حضرت عمر رضی الله عنہ کے زمانے میں جب کہ کسریٰ پر آخری ضرب لگانے کے لیے کمک کی ضرورت تھی۔ دونوں ہی دفعہ ان کی بات مانی گئی اور ایران کی سرحد میں فوج بھیجی گئی۔

وطن ترمیم

مثنی ابن حارثہ کا وطن ایران کا وہ علاقہ تھا جو آج عراق ہے، ان کا تعلق قبیلۂ شیبان سے تھا۔ مسلمان تھے لیکن حالت ایمان میں حضرت محمد ﷺ کی زیارت کی ہو اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ مبلغ اور مجاہد تھے

قبول اسلام سے پہلے ان کا اثر ترمیم

مثنیٰ اپنے قبیلہ کے ممتاز رؤساء میں تھے، دعوتِ اسلام کے آغاز میں جب آنحضرتﷺ نے تبلیغ اسلام کے لیے قبائل عرب میں دورہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ مثنیٰ کے قبیلۂ بنی شیبان میں بھی تشریف لے گئے اور کلام اللہ کی یہ آیات۔ قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ [1] ترجمہ: کہدو اے محمد آؤ میں تمھیں پڑھ کر بتاؤں جو چیزیں تمھارے رب نے تم پر حرام کی ہیں۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى [2] ترجمہ: اللہ تعالی تم کو انصاف ،احسان اور قرابت داروں کو داد ودہش کا حکم دیتا ہے۔

پیش کرکے بنی شیبان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی،روسائے قبیلہ میں اس وقت مثنیٰ،مفروق اورہانی وغیرہ موجوہ تھے، ان سب نے بالاتفاق کلامِ ربانی کی سحر آفرین بلاغت اوراس کی تعلیمات کی پاگیزگی کا اعتراف کیا، مثنی نے کہا جیسی پاکیزہ تعلیم ہے ویسی ہی پاکیزہ کلام بھی ہے،پھر آنحضرتﷺ سے مخاطب ہوئے کہ میں نے تمھاری گفتگو سنی،تمھاری باتیں خوب ہیں اورتمہار اکلام نہایت حیرت انگیز ہے ،لیکن افسوس اس وقت ہم اس کو قبول کرنے سے مجبور ہیں،اس لیے کہ ہم میں اور کسریٰ میں معاہدہ ہے کہ ہم نہ کسی جدید تحریک کو قبول کریں گے اورنہ کسی مجدد کو پناہ دیں گے، ممکن ہے جس چیز کو تم پیش کر رہے ہو، وہ کسریٰ کے خلاف ہو، اس لیے اس وقت ہم اسے نہیں قبول کرسکتے، اس کے لیے البتہ ہم تیار ہیں،کہ عرب کے قرب وجوار کے فرمان رواؤں کے مقابلہ میں تمھاری حفاظت اور اعانت کریں۔ گو مثنیٰ کلام پاک کی سحر آفرینی اوراس کی تعلیمات سے پورے طور پر متاثر ہوئے؛ لیکن تقدم فی الاسلام کا شرف ان کے مقدر میں نہ تھا،اس لیے اس وقت اسلام کے شرف سے محروم رہ گئے، آنحضرتﷺ نے ان کی کمزوری پر ان کی اخلاقی امداد قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا اعترافِ حق کے بعد اس سے ابا کیسا، خدا کا دین محض اس کا ایک شعبہ قبول کرنے سے قبول نہیں ہوتا، جب تک اسے کل نہ قبول کیا جائے۔

مختصر تذکرہ ترمیم

شاہان ایران کے مظالم سے پریشان ہو کر مثنیٰ ابن حارثہ نے سب سے پہلے تو تبلیغ دین کے ذریعے مسلمانوں کی قوت میں افراد کا اضافہ کیا اس کے بعد باقاعدہ چھاپہ مار جنگی کارروائیوں کے ذریعے ایران کو فوج کو آخری حد تک پریشان کیا اور اس کے بعد ابو بکرؓ صدیق کے پاس آ کر تمام حالات کا تذکرہ کیا۔ خلیفۃ المسلمین ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے جب تمام حالات کو سنا تو سیف اللہ خالد ابن ولید کو ایران بھیجا اور وہیں سے مثنیٰ ابن حارثہ نے سپہ سالار اعلیٰ خالد ابن ولید کی قیادت میں سلطنت ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور عوام الناس کو کسریٰ کے ظلم و ستم سے نجات دلائی۔

فتوحات عراق ترمیم

مثنیٰ نے بہت آخری زمانہ میں اسلام قبول کیا اوراس کے چند ہی دنوں کے بعد رسالت کا بابرکت زمانہ ختم ہوگیااس لیے اس عہد کا کوئی واقعہ ذکر کے قابل نہیں ہے، ان کے کارناموں کا آغاز عہد صدیقی سے ہوتا ہے،مثنیٰ کا قبیلہ اُن ستم کش قبائل میں تھا جو مدتوں سے حکومتِ ایران کا تختہ مشق بنتے چلے آ رہے تھے،جس کا ثبوت کسریٰ اوران کے قبیلہ کا معاہدہ ،حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب ایران میں سیاسی انقلابات ہوئے،اورایک عورت بوران وخت تخت پر بیٹھی اور ایرانیوں کی قوت کمزور پڑی،تو ان قبائل کو جنہیں ایرانی حکومت عرصہ سے تختہ مشق بناتی چلی آرہی تھی،ایرانیوں سے انتقام لینے کا موقع ملا؛چنانچہ مثنیٰ نے جو اسی تیر کے زخم خوردہ تھے، حضرت ابوبکرؓ کو لکھا کہ اس وقت ایران کی حالت نہایت ابتر ہے،اندرونی انقلابات کی وجہ سے ان میں مدافعت کی قوت نہیں ہے،اس سے بہتر فوج کشی کا موقع نہیں مل سکتا۔ [3] یہ اطلاع بھیجنے کے بعد خود بھی مدینہ پہنچے اورحضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو میں اپنے قبیلہ کو لے کر ایرانیوں کے مقابلہ میں نکلوں، اپنی ہمت کے لیے تنہا میں کافی ہوں، ان کی مستعدی دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے اجازت دے دی (مثنیٰ نے اجازت تولے لی، مگر سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ ان کے قبیلہ کا بڑا حصہ ابھی اسلام سے بیگانہ تھا، مثنیٰ نے پہلے اس کو مشرف باسلام کیا۔ [4] قبیلہ کو مسلمان بنانے کے بعد اسے ساتھ لے کر ایرانیوں کے مقابلہ میں نکلے، لیکن اتنی بڑی مہم سرکرنا تنہا ان کے بس میں نہ تھا، اس لیے مثنی کے جانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے خالد ابن ولید کو فوجین دیکر مثنیٰ کی مدد کے لیے روانہ کیا اور مثنیٰ کو لکھا کہ خالد کی ماتحتی میں اس کام کو کرو ،خالد عراق پہنچ کر مثنیٰ سے مل گئے اور حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت بھر خالدؓ کے دستِ راست رہے،مثنیٰ ایرانیوں کے قومی خصائص اورمحاذ جنگ کے نقشوں سے اچھی طرح واقف تھے،اس لیے عجم کی فتوحات میں ان سے بڑی قیمتی مدد ملی، اوروہ شروع سے آخر تک قریب قریب ہر معرکہ میں پیش پیش رہے،سیر الصحابہ حصہ پنجم میں حضرت خالدؓبن ولید کے حالات میں عراق کی فتوحات کی تفصیلات لکھی جاچکی ہیں، اس لیے اس موقع پر انھیں قلم انداز کیا جاتا ہے ۔ ابھی عراق کی مہم نا تمام تھی کہ شام پر فوج کشی ہوئی حضرت ابوبکرؓ نے خالد ؓبن ولید کوعراق چھوڑ کر شام جانے کا حکم دیا وہ یہ حکم پاتے ہی عراق کے انتظامات مثنیٰ کے ہاتھوں میں دیکر شام چلے گئے،اسی زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ کا انتقال ہو گیا اورحضرت عمرؓ مسند آرائے خلافت ہوئے،خالد کے شام چلے جانے کے بعد سے عراق کی مہم رک گئی تھی،اس لیے حضرت عمرؓ نے تخت نشین ہونے کے ساتھ سب سے پہلے ادھر توجہ کی ،اوران تمام مسلمانوں کو جمع کرکے جو بیعتِ خلافت کے سلسلہ میں عرب کے مختلف حصوں سے مدینہ آئے ہوئے تھے،ان کے سامنے جہاد پر وعظ کہا،لیکن کچھ ایرانیوں کے خلاف اورکچھ اس خیال سے کہ بغیر خالد ؓبن ولید کی موجود گی کے وہ عراق کی تسخیر ناممکن سمجھتے تھے،سب خاموش رہے، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، حضرت عمرؓ تین دن تک برابر مسلمانوں کو ابھارتے رہے، چوتھے دن کچھ گرمی پیدا ہوئی،مثنی نے اٹھ کر کہا،مسلمانو عراق سے اس قدر خوف زدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں میں نے مجوسیوں کو خوب آزمالیا ہے ،وہ اس میدان کے مرد نہیں ہیں، ہم نے سوا عراق کا بہترین حصہ تسخیر کر لیا ہے،انشاء اللہ ایک دن پورا عراق زیر نگیں ہوگا، اس کے علاوہ دوسرے حاضرین نے بھی تقریریں کیں، اس تقریروں نے مسلمانوں کو گرمادیا اورلوگ جو ق در جوق جہاد کے لیے آمادہ ہو گئے،حضرت عمرؓ نے بنی ثقیف کے سردار ابو عبید ثقفی کو سپہ سالار مقرر کیا [5] اور عراق کی فوج کشی کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر جاری ہو گیا اس سلسلہ میں وہی واقعات لکھے جائیں گے جن کا تعلق حضرت مثنیٰ کی ذات سے ہے۔ عربوں کی گذشتہ فتوحات نے ایرانیوں کو ان کی جانب سے ہوشار کر دیا تھا اس لیے اس مرتبہ بوران وخت نے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ایران کے نامور بہادر جابان کو ایرانی افواج کا سپہ سالار اعظم بنایا اور وہ ایرانیوں کا ٹڈی دل لے کر مثنیٰ کی طرف جو اس وقت حیرہ میں تھے چلا، مثنیٰ اس خیال سے کہ ایرانی عقب سے حملہ آور نہ ہوجائیں حقان چلے آئے تھے،یہاں ابو عبید بھی مل گئے اورنمارق میں فریقین کا مقابلہ ہوا ایک خون ریز جنگ کے بعد ایرانیوں نے شکست کھائی،اورجابان مسطر بن فضہ کے ہاتھوں گرفتار ہوا، مسطر اس کو پہچانتے نہ تھے،اس نے مسطر سے کہا میں اپنے بدلہ میں تم کو دو غلام دیتا ہوں تم مجھے رہا کردو، مسطر نے غلام لے کر چھوڑدیا،لیکن بعد میں مسلمانوں نے پہچان کر پھر گرفتار کر لیا اور ابو عبید کے پاس قتل کے لیے لائے،انھوں نے کہا جس کو ایک مسلمان چھوڑ چکا اس کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ [6] نمازرق میں شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ ایرانی فوجیں کسکر میں جمع ہوئیں یہاں ایک ایرانی بہادر نرسی پہلے سے موجود تھا، اس دوران میں بوران وخت نے جابان کی شکست کی خبر سن کر ایران کے ایک اور نامور بہادر جالینوس کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا، ابو عبید کو معلوم ہوا تو انھوں نے کسکر آکر ایرانیوں کو شکست دی اورمثنیٰ نے بار دہماجاکر جالینوس کو بھگایا۔ ان پیہم شکستوں نے ایرانیوں میں آگ لگادی اوررستم نے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن مروان شاہ بہمنی کو ایک لشکر جرار کے ساتھ بھیجا اورمقام قس ناطف میں دونوں کا نہایت زبردست مقابلہ ہوا،اس مقابلہ میں ابو عبید کی غلطی سے مسلمانوں کو سخت نقصان اُٹھانا پڑا،خود ابو عبید کو ہاتھیوں نے پیروں سے مسل کر شہید کرڈالا، ان کے بعد سات آدمیوں نے علم سنبھالا اورسب یکے باد دیگرے شہید ہوئے،آخر میں مثنیٰ نے علم لیا،اس وقت مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہو چکی تھی، آگے ہاتھیوں کی دیوار تھے اورپیچھے دریا تھا دریاکا کل پل ٹوٹ چکا تھا، اورمسلمان نہایت بدحواسی سے بھاگ بھاگ کر دریا میں غرق ہو رہے تھے، ایسی نازک حالت میں مثنیٰ نے نہایت دانشمندی اوربہادری سے باقی فوج کو بچالیا،خود چند مسلمانوں کو لے کر ایرانیوں کے مقابلہ میں ڈٹ گئے اور عروہ بن زید طائی کو شکستہ پل کی طرف متعین کیا (اخبار الطوال :119) دونوں ناکوں کی حفاظت کے بعد مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ اب بھاگنے کی ضرورت نہیں ،ڈوب کر جان نہ دو،میں پوری حفاظت کررہا ہوں،انھیں اطمینان دلانے کے بعد پل کی طرف لائے اوراس کو درست کراکے سب کو پار اتاردیا۔ [7] پھر اس شکست خوردہ اورتباہ حال فوج کو لے کر جس میں کل 3 ہزار مسلمان بچ رہے تھے مقام ثعلبیہ آئے اوریہاں سے عروہ بن زید کو خبر کرنے کے لیے دار الخلافۃ روانہ کیا،عروہ نے جاکر حضرت عمر کو یہ واقعات سنائے،حضرت عمرؓ سن کر زار وقطار رونے لگے اور عروہ سے کہا واپس جاکر مثنیٰ کو اطمینان دلادو،بہت جلد امدادی فوجیں پہنچتی ہیں،عروہ کو واپس بھیجنے کے بعد عرب کے قبائل کو جمع کرکے عبد اللہ بن جریر کی ماتحتی میں انھیں مثنیٰ کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ [8] ادھر مثنیٰ نے بھی اپنے طور پر انتظامات کرلیے تھے اور قرب وجوار کے عرب قبائل میں ہر کار ے دوڑاکر بہت سے آدمی جمع کرلیے تھے،ان کی دعوت پر انس بن بلال نصرانی بھی اپنے قبیلہ کو لے کر آیا اورکہا اس وقت قومیت کا سوال ہے،اس لیے ہم لوگ بھی تمھارے پہلو بہ پہلو لڑیں گے۔ [9] ایرانیوں کو ان تیاریوں کی خبر ملی تو بوران وخت نے بارہ ہزار منتخب بہادر مہران بن مہرویہ کی ماتحتی میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیے،مقام بویب میں دونوں کا سامنا ہوا،ایک طرف مسلمان تھے،دوسری طرف ایرانی ،بیچ میں دریا حائل تھا، مہران نے کہلا بھیجا یا تم دریا کو عبور کرکے بڑھو یا ہم کو اجازت دو، مثنیٰ کو جسر کے واقعہ میں دریاپار کرنے کا تلخ تجربہ ہو چکا تھاکے دوسری جانب ساحل پر اتری اور دونوں فریق صف آرائی میں مشغول ہو گئے،ایرانیوں نے اپنی فوج کو مختلف حصوں اورصفوں میں تقسیم کیا، ہر صف کے ساتھ ایک ہاتھ تھا، اورایرانی اس کے سامنے نعرہ لگا رہے تھے،مثنی نے نعرہ سن کر مسلمانوں سے کہا، یہ شور و شغب نامردی ہے،ادھر کان نہ دھرو، خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں مشغول رہو، فوجیں مرتب کرنے کے بعد اس کے چاروں طرف چکر لگایا، ہر علم کے پاس کھڑے ہوکر جوش دلاتے تھے کہ خبردار آج ایرانی تمھارے مقابلہ میں کامیاب نہ ہونے پائیں، فوجوں کو تیار کرنے کے بعد آخر میں ہدایت کی کہ میں چار تکبیریں کہوں گا، پہلی تین تکبیروں پر تیار ہوجانا، چوتھی پر حملہ کردینا، یہ ہدایت لے کر جیسی ہی پہلی تکبیر کہی ایرانی حملہ آور ہو گئے، مسلمانوں نے بے قابو ہوکر جوابی حملہ کر دیا، اس حملہ میں بنی عجل کا دستہ پھت گیا، مثنیٰ یہ دیکھ کر عنسہ سے بے تاب ہو گئے اوراپنی داڑھی ہاتھوں سے پکڑ کے کہا خدا کے لیے آج تو مسلمانوں کو رسوانہ کرو، مثنی کی زبان سے یہ طعنہ سن کر مسلمان دفعۃً رک گئے اوربقیہ تکبیروں کا انتظار کرنے لگے اور چوتھی تکبیر پر باقاعدہ حملہ کیا اس کے بعد دونوں فوجیں آپس میں گتھ گئیں ،مثنیٰ نے انس بن بلال نصرانی کے ساتھ مل کر اس زور کا حملہ کیا کہ مہران کے مینہ تک گھستے چلے گئے اوردنوں فوجں کے قلب آپس میں اس طرح خلط ملط ہو گئے کہ غبار کی کثرت میں ایک دوسرے کی شناخت مشکل ہو گئی۔ [10] دوسری طرف سے جریر نے حملہ کیا،ایرانیون نے برابر کا جواب دیا، اسلامی فوجیں پھٹ کر پراگندہ ہوگئیں،ان کے بے ترتیبی دیکھ مثنیٰ نے داڑھی دانتوں میں دبا کر للکارا کہ مسلمانو!کدھر جاتے ہو میں مثنیٰ ادھر ہوں،اس للکار پر مسلمان سنبھل گئے اور ہر طرف سے سمٹ کر نہایت زور شور سے حملہ آور ہوئے،اس حملہ میں مثنی کے بھائی مسعود شہید ہوئے،لیکن مثنیٰ کے استقلال میں کوئی فرق نہ آیا، انھوں نے پکار کر کہا شرفا ایسے ہی جان دیا کرتے ہیں علم کو بلند رکھو [11] اس ولولہ انگیز جملہ نے مسلمانوں کو اورزیادہ گرمادیا،عدی بن حاتم اورجریر بن عبد اللہ بجلی نے اپنے اپنے دستوں کو ابھار کر آگے بڑھایا اورمسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر جم گئے اورسب نے چاروں طرف سے سمٹ کر نہایت زور کا حملہ کیا اسے روکنے کے لیے مہران خود آگے بڑھا اوردیر تک جم کر لڑتا رہا اور لڑتے ہوئے مارا گیا مہران کے گرتے ہی ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اوروہ پل کی طرف بھاگنے لگے،مسلمانوں نے تعاقب کیا،مگر ان کے پہنچتے پہنچتے ایرانی پار نکل گئے،جو ادھر رہ گئے تھے وہ گرفتار ہو گئے اور مسلمان فاتحانہ اپنی فرودگاہ پر واپس ہوئے [12] اس جنگ میں ایک لاکھ آدمی کام آئے، اوسطاً ایک ایک مسلمان نے دس دس ایرانیوں کا کام تمام کیا ([13]اس کے بعد مسلمانوں نے حیرہ کسکر،سور،بربیسما ،صراۃ،جاماسب،عین التمر،حسن بلیقیا اوردجلہ وفرات کے درمیانی علاقوں میں فوجیں پھیلادیں ۔ حیرہ والوں نے مثنیٰ کو خبر دی کہ قریب ہی ایک قریہ ہے ،جہاں بہت بڑا بازار لگتا ہے،اس میں فارس،اہواز،اورتمام دور دراز کے علاقوں کے تاجر اپنا مال لے کر آتے ہیں، اگر تم اس پر حملہ کرو تو بہت مال غنیمت ہاتھ آئیگا ؛چنانچہ مثنیٰ خشکی کے راستہ سے بڑھے، اورراستہ میں انبار کا محاصرہ کیا،اوراس کے حاکم سے کہا بھیجا کہ ہم تم کو امان دیتے ہیں،تم آکر تخلیہ میں ہم سے مل جاؤ، اس پیام پر انبار کا مرزبان آیا، مثنیٰ نے اس سے کہا کہ ہم سوق بغداد پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے،جو رہنمائی بھی کریں اور فرات پر پل بھی بنائیں، مرزبان نے اپنے رہنما ان کے ساتھ کر دیے، مثنیٰ ساتھ لے کر سوق بغداد کی طرف بڑھے اور فرات پر ان سے پل بنواکر اس کو پارکرکے سوق بغداد پر حملہ کر دیا، اہل بازار بالکل غافل تھے،اس لیے وہ اس ناگہانی حملہ سے بالکل بدحواس ہو گئے اور کل سامان تجارت چھوڑ کر بھاگ گئے یہ تمام سامان مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ [14]

وفات ترمیم

مثنیٰ ابن حارثہ، ان عظیم الشان با حوصلہ لوگوں میں سے تھے جو ظلم و ستم سے آزادی خواب ہی نہیں دیکھتے بلکہ آزادی حاصل بھی کرتے ہیں۔ مثنیٰ ابن حارثہ نے بھی وہ آزادی حاصل کی لیکن افسوس کہ ایران کی پوری سلطنت میں قیام اسلام کے خواب کی تعبیر وہ نہ دیکھ سکے اور مدائن کی فتح سے پہلے ہی وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (الانعام:151)
  2. (النحل:90)
  3. (اخبار الطوال :117)
  4. (فتوح البلدان بلاذری:250)
  5. (ابن اثیر:2/233)
  6. (ابن اثیر:2/328)
  7. (ابن اثیر:2/238)
  8. (اخبار الطوال:119)
  9. (ابن اثیر:2/339)
  10. (ابن اثیر:2/340)
  11. (اخبار الطوال:110)
  12. (اخبار الطوال:130)
  13. ابن اثیر:2/341)
  14. (اخبار الطوال:122)

[1]

  1. خلفائے راشدین، ٤٣؃۔ تاریخ یعقوبی، ج ٢، ٤٧؃۔