محاصرہ قسطنطنیہ 717ء تا 718ء

عرب محاصرہ قسطنطنیہ 717ء تا 718ء، امیہ خلافت کے عربوں کی طرف سے زمین اور سمندر کے ذریعے بازنطینی سلطنت کے دار الحکومت قسطنطنیہ کو لینے کے لیے ایک مشترکہ کوشش تھی۔ بیس سال کی لگاتار مہم اور بازنطینی سرحدوں پر بتدریج عرب تجاوز و حملوں اور بازنطینی سیاسی بحران کی وجہ سے اس مہم کو شروع کرنے میں امیہ خلافت کو مدد ملی۔ عربوں نے مسلمہ بن عبدالملک کی قیادت میں 716ء میں بازنطینی روم پر حملہ کر دیا۔ اگرچہ ابتدا میں عرب، بازنطینی امیر لیو ایسوریائی اور ثیودوسیوس تریہم کے درمیان جاری بازنطینی کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کی امید کر رہے تھے، لیو نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جب وہ بازنطینی تخت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

دوسرا محاصرہ قسطنطنیہ
سلسلہ عرب بازنطینی جنگیں
Geophysical map of the Marmara Sea and its shores, with main settlements of medieval times
بازنطینی دور میں قسطنطنیہ کے مضافات کا نقشہ
تاریخ15 جولائی/اگستa[›] 717 – 15 اگست 718
مقامتھریس، Bithynia اور بحیرہ مرمرہ
نتیجہ فیصلہ کن بازنطینیبلغار فتح
عرب بازنطینی جنگوں کا اہم موڑ
مُحارِب
خلافت امویہ بازنطینی سلطنت
بلغاری خانیت
کمان دار اور رہنما
Maslama ibn Abd al-Malik
Sulayman ibn Mu'ad
Umar ibn Hubayra
Leo III
Tervel
طاقت
120,000 مرد[1]
2,560 بیڑے[2]
نامعلوم

پس منظر ترمیم

محاصرہ قسطنطنیہ 674ء تا 678ء کے بعد، عربوں اور بازنطینیوں میں زیادہ مدت کے لیے امن قائم نہ رہا۔ 692ء میں مسلم خانہ جنگی امیہ فتح کے ساتھ ختم ہوئی، تو خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اسلامی دنیا میں پہلی مرتبہ نیا سکہ جاری کیا، جس پر سورة الإخلاص کی آیت "لَمۡ یَلِدۡۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ" تحریر تھا، جس پر بازنطینی روم کے قیصر، جستینی دوم کو شدید اختلاف تھا۔ اس اختلاف کے نتیجے میں جنگ سباستوپولیس 692ء میں لڑی گئی۔ بازنطینیوں کی جنگ میں لئونتیوس نے قیادت کی تھی اور انھیں اسلاو کے ایک بڑے دستے کے انحراف کے بعد خلیفہ کی جانب سے فیصلہ کن شکست دی گئی۔ اسلامی سکہ پھر مسلم دنیا میں واحد سکہ رائج کر دیا گیا تھا۔

نتیجے میں بازنطینیوں نے آہستہ آہستہ آرمینیا اور قفقاز قلمرو کو کھو دیا اور مسلمان عربوں نے بازنطینی زمین پر بتدریج تجاوز کا سلسلہ جاری رکھا۔ سال ہا سال، خلافت کے امرا، عام طور پر امیہ کے خاندان کے ارکان، بازنطینی علاقے میں چھاپے مار قبضہ کر لیا کرتے تھے۔ بازنطینی رد عمل زیادہ سے زیادہ کمزور بن گیا۔ بازنطینی دفاعی نظام میں بحران و داخلی عدم استحکام کی طویل مدت بعد جس میں اس وقت بازنطینی تخت سات بار تشدد انقلابات کی نظر ہوئی، عربوں نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔

مہم کی افتتاحی مراحل ترمیم

خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے زمانے میں سلطنت روم اندرونی خلفشار سے دوچار تھی۔ سلیمان نے اس موقع کو غنیمت جان کر رومی سلطنت کے دار الحکومت قسطنطنیہ پر حملہ کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران بازنطینی امیر لیو ایسوریائی اور ثیودوسیوس تریہم کے مابین خانہ جنگی جاری تھی تو عربوں نے احتیاط سے عسکری پیشگی شروع کی۔ لیو ایسوریائی نے جو ایشیائے کوچک میں رومی افواج کا ایک سپہ سالار تھا نے سلیمان کو اپنے تعاون کی پیش کش کی۔ چنانچہ 98 ھ میں بڑے زبردست پیمانہ پر جنگی تیاریوں کا آغاز کیا گیا۔ بیش از بیش افواج اس مہم میں شمولیت کے لیے منظم کی گئیں۔ سامان جنگ، اسلحہ، قلعہ شکن آلات اور سامان رسد کے ذخیرے جمع کیے گئے۔ ستمبر 715ء میں، سليمان بن معاذ کے تحت ہراول دستہ ایشیائے کوچک میں بذریعہ کلکیا داخل ہوئے اور راستے میں لولان کا قلعہ لینے میں کامیاب رہے۔ پھر آفق،ایک نامعلوم مقام میں، سردیوں کے دن گزارے۔ سليمان بن معاذ نے پھر 716ء میں دوبارہ چہل پہل شروع کی اور مرکزی ایشیائے کوچک میں داخل ہوا۔ ساتھ ہی میر بحر، عمر ابن هبيرہ نے کلکیا کے ساحل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھا جبکہ امیر مسلمہ بن عبدالملک بیشتر اکثر فوج کے ہمراہ، ان کی رفت کے متعلق خبر لینے کے لیے شام میں انتظار فرما تھا۔

امیر لیو ایسوریائی نے آخرکار مسلمہ بن عبدالملک کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔ یہ صحیح طرح سے معلوم نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان کیا طے پایا۔ فرانسیسی عالم روڈالف گیلانڈ کا کہنا ہے کہ لیو ایسوریائی نے خلافت کے ماتحت بحیثیت جاگیردار بننے کی پیشکش کی، اگرچہ لیو اپنے مقاصد کے لیے عربوں کو استعمال کر رہا تھا۔ مسلمہ اپنی جگہ کچھ اور سوچ رہا تھا۔ مسلمہ، لیو کی حمایت، اس چکر میں کر رہا تھا کہ اس سے بازنطینی روم میں الجھن اور سلطنت کمزور ہو جائی گی جس کے نتیجے میں وہ قسطنطنیہ کو آسانی سے فتح کر لے گا۔

سليمان بن معاذ نے عموریہ کا محاصرہ کر لیا، لیکن بجائے اسے فتح کرنے کے، وہاں کے مقامیوں سے اپنے حمایتی لیو ایسوریائی کے حق میں سمجھوتہ کرنے لگے کہ اگر وہ اسے اپنا قیصر تسلیم کر لیں تو وہ بخش دیے جائیں گے۔ عموریہ کے شہریوں نے تمام شرائط قبول کیں، لیکن پھر بھی عربوں کے لیے اپنے دروازے نہ کھولے۔ لیو خود، فورا فوجیوں کی ایک مٹھی بھر تعداد لے کر عموریہ کے ارد گرد آ پہنچا۔ کئی چالوں اور مذاکرات کے بعد وہ شہر میں 800 پیادوں کی ایک چوکی بنانے میں کامیاب ہوا۔ عربوں کو عموریہ کا محاصرہ کرکے کچھ نہ حاصل ہوا سوائے ضروری اشیاء میں کمی، جس کی وجہ سے وہ واپس لوٹ گئے۔ لیو خود آرٹاباسدوس کی مدد سے پیسیدیا فرار ہوا اور موسم گرما میں، وہ شہنشاہ بنا۔

لیو کی کامیابی بازنطینی روم کے لیے لیے خوش قسمتی کا سبب بنی۔ اس دوران کوہ طوروس کو پار کر کے عموریہ کی جانب بڑھتے ہوئے مسلمہ بن عبدالملک نئے حالات سے ناواقف تھا۔ وہ آرمینیا و اناطولیہ صوبوں پر قابض اس لیے نہ ہوا کہ وہ ان کو اب بھی اتحادی سمجھ رہا تھا۔ لیکن جب اس کا سامنا سليمان بن معاذ کی فوج سے ہوا تو اسے اصل معاملے سے آگاہی ہوئی۔ مسلمہ نے اپنے حملے کی سمت تبدیل کر لی اور افیون قره‌حصار پر حملہ آور ہوا اور پھر وہاں سے مغربی ساحلی زمین پر موسم سرما میں آرام کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے سارد اور پرگامون شہر تباہ کیے۔

لیو نے اس دوران اپنی کارروائی جاری رکھی۔ پہلے نیکومیدیا پر قبضہ کیا جہاں ثیودوسیوس کا بیٹا اس کی حراست میں آگیا اور بعد میں اسے استعمال کرکے، ثیودوسیوس تریہم کو تخت سے دستبردار ہونے کے لیے مجبور کیا۔ ثیودوسیوس اور اس کے بیٹے کو مسیحی خانقاہ میں باقی ایام گزارنے کی اجازت دے دی گئی جبکہ آرٹاباسدوس کی وفاداری کا انعام اپنی بیٹی آنا کی صورت میں اسے دیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Treadgold 1997, p. 346۔
  2. Treadgold 1997, pp. 346–347۔