علامہ محمد تقی مجلسی جن کا نام محمد تقی بن مقصود علی اصفہانی ہے اور شہرت مجلسی اول ہے۔ گیارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم اور فقیہ تھے اور معروف عالم ومحدث علامہ محمد باقر مجلسی کے والد تھے۔

محمد تقی مجلسی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1594ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصفہان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 22 اپریل 1660ء (65–66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت صفویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل تشیع: اثنا عشریہ
فقہی مسلک جعفریہ
اولاد محمد باقر مجلسی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ملا عبد اللہ شوشتری ،  شیخ بہاء الدین عاملی ،  میر داماد ،  امیر اسحاق استرآبادی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد باقر مجلسی ،  ملا صالح مازندرانی ،  نعمت اللہ الجزائری ،  آقا حسین خوانساری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت اور ذاتی سیرت ترمیم

ان کی ولادت 1003 ہجری میں صفوی سلطنت کے دار الحکومت اصفہان میں پیدا ہوئی[1] اور ان کی وفات 11 شعبان، 1070 ہجری میں اصفہان میں ہوئی۔ ان کے والد ملا علی مجلسی کا شمار بھی برجستہ شیعہ علما میں ہوتا ہے۔ مجلسی اول نے ابتدائی تعلیم اصفہان میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کی خاطر نجف اشرف کا رخ کیا۔ نجف اشرف سے واپس لوٹ کر اصفہان میں درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔ ان کا حلقہ تدریس جامع مسجد اصفہان میں ہوا کرتا تھا۔ شیخ بہائی اور میر داماد کے بعد انھوں نے جامع مسجد میں امام جمعہ کے فرائض بھی انجام دیے۔[2]

اولاد ترمیم

مجلسی اول کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں جن میں سب سے مشہور علامہ محمد باقر مجلسی ہیں جو مشہور کتاب بحار الانوار کے مولف ہیں۔ دیگر فرزندان میں عبد اللہ اور عزیز اللہ ہیں اور بیٹیوں میں سے آمنہ بیگم کا نام تاریخ ذکر کیا۔ آمنہ بیگم مشہور عالم اور محدث ملا صالح مازندرانی کی زوجہ تھیں۔[3]

علمی آثار ترمیم

ان کی تالیفات میں روضۃ المتقین، لوامع صاحبقرانی، صحیفہ سجادیہ کی شرح ریاض المومنین، چہل حدیث، زیارت جامعہ کی شرح، شرح خطبہ ھمام اور فقہ میں حلیۃ المتقین، قابل ذکر ہیں۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. روضات الجنات، ج2، ص123
  2. روضات الجنات، ج2، ص122؛ اعیان الشیعه، ج9، ص192
  3. روضات الجنات، ج2، ص88، ص119؛ اعیان الشیعه، ج9، ص193
  4. ریاض العلماء، ج5، ص47