جنیزہ یا مدفن (یہودیت) دفن کرنے کی جگہ، عربی میں لفظ جنیزہ اور عبرانی لفظ جنزہ (גניזה) ہے جسے انگریزی میں اپنا کے لفظ genizah بنایا گیا۔ اہلِ اسلام کی طرح اہلِ یہود کا دستور تھا (اور یہ دستور دورِ حاضرہ میں بھی مروج ہے) کہ کتُبِ مُقدسہ کے نسخے جو کِسی وجہ سے قابلِ استعمال نہ رہتے، بڑے ادب سے دفن کر دیے جاتے تھے تاکہ خدا کا کلام بے ادبی سے محفوظ رہے۔

کولکتا، بھارت میں موجود ایک مَدْفَن۔
سمرقند، ازبکستان میں کنیسہ کا ایک مدفن

چنانچہ ہر یہودی عبادت خانے کے ساتھ ایک مدفن ہوتا تھا جہاں معمولی عیوب کی وجہ سے بھی نُسخے دفن کر دیے جاتے تھے۔ مثلاً اگر کسی صفحہ پر کاتب کی دو سے زیادہ غلطیاں مل جائیں تو وہ صفحہ احتیاطاً دفن کر دیا جاتا۔ اِسی طرح زیادہ استعمال شدہ نُسخے جو روزانہ تلاوت کی وجہ سے بھٹ جاتے دفن کریئے جاتے تھے۔ اہلِ یہود میں دستور تھا جس حصہ کو پڑھتے اُس کے شروع کے اور آخر کے الفاظ کو بوسہ دیتے تھے اور اس طرح کچھ مدت کے بعد یہ الفاظ مٹ جاتے یا بخوبی نظر نہ آتے، ایسے نسخے بھی دفن کر دیے جاتے تھے۔

ایک مدفن سے دریافت کیے گئے نسخے۔

1890ء میں قاہرہ کی ایک پرانی یہودی عبادت گاہ کے مَدْفَن سے چند نایاب اور بڑے پرانے نسخے ملے جو غالباً نویں صدی عیسوی سے بھی قدیم تھے۔ انیسویں صدی تک یہ عہدِ عتیق کے سب سے پرانے نسخے تھے لیکن بحیرہ مردار کے طومار جو 1947ء میں قمران کی غار سے مِلے ان سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. صحتِ کتب مُقدسہ۔ برکت اللہ۔ پنجاب رلیجس بُک سوسائٹی لاہور 1952ء بار دوم۔ صفحہ 52