مرزا غیاث بیگ – اعتماد الدولہ میرزا غیاث بیگ طہرانی (وفات: 1622ء) مغلیہ سلطنت کے صدرِ اعظم، ملکہ نورجہاں اور ابوالحسن آصف خان معروف بہ آصف جاہ کے والد تھے۔ مرزا غیاث بیگ کا خاندان شروع سے ہی مغل شہنشاہوں کے ساتھ وفادار رہا تھا جس کے باعث مرزا غیاث بیگ بھی مغلیہ سلطنت کے اہم ترین وزیر کی حیثیت سے صدرِ اعظم مقرر ہوئے تھے۔

مرزا غیاث بیگ
 

معلومات شخصیت
پیدائش 16ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قزوین   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1622ء (120–121 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کانگرا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ اعتماد الدولہ ،  آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ عصمت بیگم   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد نورجہاں ،  ابوالحسن آصف خان   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
وکیل مطلق صدر اعظم مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
مئی 1611  – 1622 
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

خاندان ترمیم

مرزا غیاث بیگ کی پیدائش قزوین میں ہوئی تھی۔ سال پیدائش کسی بھی ماخذ یا ہم عصر مؤلف و مصنف نے نہیں لکھا۔ مرزا غیاث کے والد خواجہ محمد شریف تھے جنھوں مغل شہنشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کو ہرات میں عہدِ جلاوطنی کے دوران اِستقبال کیا تھا تاکہ وہ ایران میں داخل ہوسکیں۔ خواجہ محمد شریف تاتار سلطان محمد خاں شرف الدین اوغلی کا وزیر مقرر ہو گیا تھا جو خراسان کا بیگلربیگی تھا۔ خواجہ محمد شریف کی ذہانت و فراست کے سبب محمد خان نے کارہائے سلطنت و اِنتظاماتِ حکومت اِس کے سپرد کر رکھے تھے۔ محمد خان کی وفات کے بعد اُس کے فرزند قزاق خاں نے خواجہ محمد شریف کو اپنے حکومتی معاملات میں مختار بنا دیا۔قزاق خاں کے اِنتقال کے بعد شاہ طہماسپ صفوی نے خواجہ محمد شریف کو یزد کی ہفت سالہ وزارت پر مقرر کر دیا۔ جہاں خواجہ نے بڑی شائستگی سے نظام حکومت چلایا۔ بعد ازاں اصفہان کی وزارت دے دی گئی اور وہیں 984ھ میں خواجہ محمد شریف کا انتقال ہو گیا۔[1]

دربار اکبری میں رسائی ترمیم

984ھ میں خواجہ محمد شریف کی وفات کے بعد دربارِ ایران میں خواجہ کی اولاد سے ویسا سلوک نہ برتا گیا جس کے وہ لائق تھے۔ مرزا غیاث بیگ اپنے والد کے اِنتقال کے بعد زمانے کی ناسازگاری کی وجہ سے اپنے دونوں بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ ایران سے ہجرت کرتے ہوئے ہندوستان کے لیے عازمِ سفر ہوا۔ یہ غالباً 1577ء کے اوائل کی بات ہے۔ ہندوستان کا سفر کچھ اچھا ثابت نہ ہوا اور قزاقوں نے مال و متاع بھی لوٹ لیا۔ حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ صرف دو سواریاں ہی باقی بچ گئیں جس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ قندھار پہنچنے پر راستے میں ایک لڑکی بنام مہرالنساء پیدا ہوئی جو بعد میں مغلوں کی عظیم ملکہ نور جہاں کہلائی۔ ملک مسعود تاجر قافلہ باشی‘ جو مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر سے متعارف تھا، جب مرزا غیاث کے احوال سے مطلع ہوا تو اچھے سلوک سے پیش آیا اورفتح پور سیکری پہنچتے ہی مرزا غیاث کا تعارف جلال الدین اکبر سے کروایا جہاں مرزا کو شاہی ملازمت دے دی گئی۔ مرزا اپنی نیک سیرت اور حسن خدمت سے تین صدی کے منصب تک پہنچ گئے اور چالیسویں سالِ جلوسِ اکبری میں کابل کے دیوان مقرر ہوئے اور اِس کے بعد آہستہ آہستہ یک ہزاری منصب اور دیوانی بیوتات پر فائز ہوئے۔[2]

 
آگرہ میں واقع مقبرہ اعتماد الدولہ

عہد جہانگیری میں مقام و منزلت ترمیم

اکتوبر 1605ء میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی وفات پر نور الدین جہانگیر تخت نشین ہوا تو مرزا غیاث بیگ کو جلوسِ سلطنت کے آغاز پر ہی اعتماد الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا اور مرزا جان بیگ‘ وزیر الممالیک کے ساتھ دیوانی سرکار میں شریک کر لیا گیا۔ 1607ء میں مرزا غیاث کے لڑکے محمد شریف نے باغی مغل شاہزادے خسرو کو قید سے نکالنے کی کوشش کی تو جلد ہی یہ بات جہانگیر تک پہنچ گئی۔ جہانگیر نے محمد شریف کو باغیوں سمیت قتل کروا دیا اور مرزا غیاث بیگ نے دیانت خاں کے مکان میں حالت محبوس ہوکر دو لاکھ روپئے کے عوض مغل شہنشاہ سے رہائی کا پروانہ حاصل کیا۔ مئی 1611ء میں ملکہ نور جہاں سے ازدواج کے بعد مرزا غیاث بیگ کا مرتبہ و منزلت دوبارہ بحال ہو گئی۔ مرزا کو وکالتِ کُل یعنی وکیل مطلق (صدرِ اعظم سلطنت)‘ شش ہزاری ذات اور سہ ہزاری سوار کے منصب‘ عَلَم و نَقارہ بھی عطاء ہوئے۔[3]

وفات ترمیم

مرزا غیاث بیگ نے 1622ء میں کانگڑہ کے قریب وفات پائی۔ میت کو آگرہ لا کر دفن کیا گیا جہاں بعد میں مقبرہ اعتماد الدولہ تعمیر کیا گیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. صمصام الدولہ شاہنواز خان: مآثر الامراء، جلد 1، صفحہ 94۔
  2. صمصام الدولہ شاہنواز خان: مآثر الامراء، جلد 1، صفحہ 95۔
  3. صمصام الدولہ شاہنواز خان: مآثر الامراء، جلد 1، صفحہ 95۔