مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف، دور جاہلیت میں بنو نوفل کا سردار تھا اس نے حرب الفجار اپنے قبیلے کی قیادت کی تھی۔ حضرت جبیر بن مطعم کا باپ تھا حالت کفر میں غزوہ بدر سے پہلے فوت ہوا۔حضرت وحشی (قاتل امیر حمزہ)اسی مطعم کے غلام تھے۔

حمایت از نبی اکرم ترمیم

جب نبی اکرم نخلہ (طائف)سے واپس ہوکر کوہ حرا پر تشریف لائے اوریہاں مقیم ہوکررسول اللہﷺ نے بعض سردارانِ قریش کے نام پیغام بھیجا، مگر کوئی شخص آپ ﷺکو اپنی ضمانت اور آپ کو پناہ میں لینے کے لیے تیار نہ ہوا، مطعم بن عدی کے پاس جب آپ ﷺکا پیغام پہنچا تو وہ بھی اگرچہ مشرک اورکافر تھا مگر عربی شرافت اورقوی حمیت کے جذبہ سے متاثر ہوکر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اورآنحضرت ﷺ کے پاس سیدھا کوہ حرا پر پہنچ کر اور آپ کو اپنے ہمراہ لے کر مکہ میں آیا،مطعم کے بیٹے ننگی تلواریں لے کر خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو گئے، آنحضرت ﷺنے خانہ کعبہ کا طواف کیا اس کے بعد مطعم اوراس کے بیٹوں نے ننگی تلواروں کے سائے میں آپ ﷺ کو اپنے گھر تک پہنچادیا، نبی اکرم نے رات انہی کے گھر گزاری۔ قریش نے مطعم سے پوچھا کہ تم کو محمد ﷺسے کیا واسطہ ہے؟

تو مطعم نے جواب دیا کہ مجھ کو واسطہ تو کچھ نہیں لیکن میں محمدﷺ کا حمایتی ہوں، جب تک وہ میری حمایت میں ہیں کوئی نظر بھر کر ان کو نہیں دیکھ سکتا،مطعم کی یہ ہمت اور حمایت دیکھ کر قریش کچھ خاموش سے ہو کر رہ گئے[1]

رسول اللہﷺ نے مطعم بن عدی کے اس حسنِ سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا، چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہوکر آئی اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے حضرت جبیر بن مطعمؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا :
اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا (جو کفر کی حالت میں مر گیاتھا)اور وہ مجھ سے ان ناپاکوں کے متعلق کہتا تو میں ان لوگوں کو صرف اس کی خاطرانہیں (فدیہ لیے بغیر) رہا کردیتا۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ابن ہشام 1/381 مختصراً، زاد المعاد 2/46، 47
  2. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 402