معاشرتی عدم مساوات

معاشرے میں وسائل کی غیر مساوی تقسیم

معاشرتی عدم مساوات اس وقت پائے جاتے ہیں جب ایک دیے ہوئے معاشره میں وسائل کو عام طور پر مختص کرنے کے معیار کے ذریعہ غیر مساوی طور پر تقسیم کیا جاتا ہے ، جو افراد کے معاشرتی طور پر بیان کردہ زمرہ کے خطوط کے ساتھ مخصوص نمونوں کو فروغ دیتا ہے۔ معاشرہ میں طاقت ، مذہب ، قرابت ، وقار ، نسل ، صنف ، عمر ، جنسی رجحان اور طبقے کے ذریعہ پائے جانے والے معاشرتی سامان تک رسائی کی یہ تفریق پسندی کی ترجیح ہے۔ معاشرتی عدم مساوات کا نتیجہ عام طور پر نتائج کی برابری کی کمی پر ہوتا ہے ، لیکن موقع تک رسائی کی مساوات کی کمی کے معاملے میں متبادل طور پر تصور کیا جا سکتا ہے۔[1]معاشرتی حقوق میں مزدوروں کی منڈی ، آمدنی کا ذریعہ ، طبی نگہداشت اور آزادی گفتار ، تعلیم ، سیاسی نمائندْگی اور شرکت شامل ہیں۔[2]

عالمی نقشہ 2014ء میں عدم مساوات سے متعلق انسانی ترقی اشاریہ کو دکھایا جا رہا ہے۔
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

معاشی عدم مساوات :  معاشی عدم مساوات کا مطلب ہے کہ مالی نا برابری

معاشرے میں جب معاشی تقسیم کی برابری نہ ہو جہاں غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہوں اور امیر امیرتر۔وہاں غربت کے لکیر کے نیچے رہنے والے انسان خود کو انسانی حیثیت سے کم سمجھ کر اپنے زندگی کے مختلف ضروریات پورا کرنے کیلے کئی جرائم اور غیر قانونی واقعات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کو متعدد معاشی مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے خارجہ پالیسی کو خود مختارانہ طریقے سے آگے بڑھانا مشکل ہو چکا ہے ۔ اس سے داخلی ساجی و معاشی عدم مساوات بڑھی اور لوگوں میں مایوسی پھیلی۔معیشت کے دو باہمی طور پر وابستہ پہلوؤں نے پاکستان کی معاشی بدحالی کو تیز تر کر دیا ہے ۔ بیرونی مالیاتی ذرائع پر انحصار بہت زیادہ ہے جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور مختلف ممالک سے انفرادی قرضے ، مالی امداد اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر قومی معیشت اتنے وسائل پیدا نہیں کرتی کہ بیرونی ذرائع پر پاکستان کے انحصار کوکم کیا جا سکے ۔ دوسرا پہلولوگوں کے مسائل سے متعلق ہے ۔ آ پریشنل سطح پر معیشت نے عوام کے معاشی مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے ۔ انسانی و معاشرتی ترقی کے لیے وسائل کے ناقص اختصاص کی روایت بھی ایک وجہ ہے ۔ موجودہ معاشی چیلنج جو عام آدمی کو پریشان رکھتا ہے تمام ضروری اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مارکیٹ فورسز کو یوٹیلیٹیز ، خصوصی طور پر ایندھن اور بجلی کی قیمتوں کی آڑ میں من مرضی سے قیمتیں بڑھانے کی مکمل آزادی ہے ۔ عام سرکاری وضاحت یہ ہوتی ہے کہ ایندھن ، پام آئل اور دیگر اشیا جو در آمد کی جاتی ہیں کی مقامی قیمتیں بین الاقوامی منڈیوں میں ان چیزوں کی قیمتوں پر مبنی ہوتی ہیں جہاں میں مصنوعات مہنگی ہو چکی ہیں ۔ دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ایندھن اور روزمرہ استعال کی دیگر اشیا پاکستان میں پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں اب بھی ستی ہیں ۔ ان دلائل میں کچھ سچائی ہے تاہم کسی ملک کی سیاست کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ دوسرے ممالک کی قیمتوں کی فہرستیں نہیں بلکہ قیمتوں میں اضافے کے اکثریتی آبادی پر سماجی و معاشی اثرات ہیں ۔ یہ کہ آیا معاشی تفاوت بڑھا ہے یا لوگوں کے پاس قیمتوں میں اضافے کو جذب کرنے کی مالی صلاحیت ہے ؟ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی ناہمواری پہلے ہی بہت زیادہ ہے قیمتوں میں اضافے نے اس عدم مساوات کو بڑھا دیا ہے (3)۔معاشی عدم مساوات کو ماپنے کے لیے “جنی کوفیشنٹ” نامی پیمانے کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس کی ویلیو (قیمت) صفر سے ایک تک ہوتی ہے۔ ایک سے مراد یہ ہے کہ ملک میں انتہائی عدم مساوات ہے جبکہ صفر کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں مکمل مساوات ہے۔ وہ ممالک جن کی یہ ویلیو 0.50 سے زیادہ ہو وہ عدم مساوات والے ممالک شمار ہوتے ہیں۔ دنیا کے سب ممالک میں سے کسی بھی ملک میں اس جنی کوفیشینٹ کی ویلیو 0.75 سے زیادہ نہیں جبکہ دوسری طرف کہیں بھی 0.20 سے کم بھی نہیں۔ پاکستان میں اس کی ویلیو0.33ہے(4)

حوالہ جات ترمیم

  1. R. W. Caves (2004)۔ Encyclopedia of the City۔ Routledge۔ ISBN 9780415252256 
  2. Robert H. Wade (2014)۔ "The Piketty phenomenon and the future of inequality" (PDF)۔ Real World Economics Review (69–7): 2–17۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جون 2017 

https://dunya.com.pk/index.php/author/dr-hassan-askri-rizvi/2021-10-25/37175/2351164