اسد اللہ وجہی غالب معروف بہ ملا وجہی (متوفی 1659ء) دکن کے مثنوی نگار اور داستان گو تھے۔ ملا وجہی نے اپنے مربی و سرپرست سلطان محمد قلی قطب شاہ کی طرح بہت سے تخلص استعمال کیے ہیں۔ اس کے بعد اشعار میں وجیہہ، وجمہا، وجہی اور وجمہی تخلص موجود ہیں۔ وجہی کو اردو ادب کے عظیم ناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

سوانح ترمیم

وجہی نے اپنے ایک فارسی شعر میں بتایا ہے کہ ان کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی لیکن اس کا آبائی وطن خراسان ہے۔ وجہی نے "قطب مشتری" میں دکن اور تلنگانہ کی بڑی تعریف کی ہے۔ اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دکن ہی ان کا مقام پیدائش ہو۔ وہ غالباً ابراہیم قطب شاہ کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔ وجہی نے گولکنڈہ سلطنت کے چار حکمرانوں ابراہیم قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور عبد اللہ قطب شاہ کا عہد دیکھا تھا۔ ان کی زندگی کا دورِ زریں محمد قلی قطب شاہ کا زمانہ حکومت تھا۔ وہ ملک الشعرا اور بادشاہ کے منظور نظر فنکار بن چکے تھے۔ وجہی نے شعر میں ”روح الامین“ کو اپنا استاد کہا ہے۔ ابراہیم قطب شاہ کے عہد میں روح الامین تخلص کا ایک فارسی شاعر بھی موجود تھا۔ لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ وجہی نے اس شعر میں خود کو فارسی شاعر روح الامین کا شاگرد کہا ہے یا روح الامین سے ان کی مراد جبرائیل ہیں۔ محمد قطب شاہ کے دور حکومت میں وجہی نے زندگی گوشہ گمنامی میں گزاری۔ نہایت عسرت اور تنگدستی کے ساتھ زندگی بسر کی۔

وجہی نے مثنوی "قطب مشتری" میں دعویٰ کیا ہے کہ میں نے اپنے پیشتر و ہم عصر شعرا کے خلاف ایک طبع زاد قصہ نظم کیا ہے۔ اس مثنوی کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں وجہی نے "در شرح شعر گوید" کے عنوان سے شعر و ادب سے متعلق اپنے تنقیدی خیالات ظاہر کیے ہیں۔ قطب مشتری کے ہیرو کو شاعر نے محمد قلی قطب شاہ کے نام سے پکارا ہے۔ لیکن اس مثنوی کے قصے کا محمد قلی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وجہی سے ایک اور مثنوی "ماہ سیما و پری رخ" بھی منسوب کی جاتی ہے۔ گارساں دتاسی نے اپنے خطبات میں اس کا ذکر کیا ہے۔ "سب رس" کو ادبی نثر کا پہلا نمونہ کہا جاتا ہے۔ اپنے منفرد اسلوب میں وجہی نے اس قصے کو ایک تمثیلی و رمزیہ معنویت کا پیرایہ عطا کیا ہے۔ مقفی و مسجع جملوں، اسلوب کی شیرینی ق شگفتگی اور انشاپردازی نے سب رس کو ایک سد ابہار تخلیق بنا دیا ہے۔ یہ کتاب تصوف کے مسائل پر ہے۔[1]

تصانیف ترمیم

حوالہ جات ترمیم