امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے مکاتیب جو مکتوبات امام ربانی کے نام سے معروف ہیں، علوم و معارف اور حقیقت و معرفت کا بحرِ زخار ہے جو اس قدر مشکل اور اَدق ہیں کہ بقول امام ربانی مجدد الف ثانی علما کے علوم اور اولیاء کے معارف سے وراء ہیں جو مشکوٰۃ نبوت سے مقتبس ہیں اور الف ثانی کے مجدد کے ساتھ خاص ہیں۔ نیز یہ علوم و معارف کشف صحیح اور الہام صریح سے ثابت ہیں جو کتاب و سنت کے عین مطابق اور اہلسنت کے عقائد و آراء کے بالکل موافق ہیں۔
انقرہ،(ترکی) کے جلیل القدر فاضل العلام سید عبد الحکیم بن المصطفے الآرواسی فرماتے ہیں: "قرآن پاک اور احادیث نبویہ کے بعد کتب اسلامیہ میں سب سے افضل کتاب مکتوبات امام ربانی ہے جس کی سینہ گیتی پر کوئی مثال نہیں"۔

مضامین بسلسلہ

تصوف

مکتوبات کی ترتیب و تعداد ترمیم

مجدد الف ثانی کے مکتوبات آپ کے حین حیات ہی مرتب و مدون ہو کر کامل شہرت حاصل کر چکے تھے۔

  • پہلا دفتر دار المعرفت کے تاریخی نام سے موسوم ہے۔ اس میں 313 مکتوبات ہیں۔ اس دفتر کو خواجہ یار محمد جدید بدخشی طالقانی، جو امام ربانی مجدد الف ثانی کے مرید تھے، نے 1025ھ میں جمع کیا۔ اس جلد کے مکاتیب کی تعداد امام ربانی مجدد الف ثانی کے حکم پر اصحاب غزوہ بدر کی تعداد کے مطابق 313 رکھی گئی۔ اسی سال آپ کے فرزند اکبر خواجہ محمد صادق سرہندی کا وصال ہوا۔ ان کے تین عریضے بنام مجدد اس جلد میں بطور ضمیمہ منقول ہیں۔
  • دوسرا دفتر نورا لخلائق کے تاریخی نام سے موسوم ہے۔ اس میں99 مکاتیب ہیں۔ اس دفتر کو خواجہ عبد لحئی بن خواجہ چاکر حصاری نے خواجہ محمد معصوم کے حکم پر 1028ھ کو جمع کیا۔ اس کے مکتوبات کی تعداد اسماء اللہ الحسنیٰ کے مطابق 99 رکھی گئی۔
  • تیسرا دفتر ثالث کے تاریخی نام سے موسوم ہے۔ اس میں 114 مکتوبات ہیں۔ اس دفتر کو خواجہ محمد ہاشم کشمی ب رہان پوری نے 1031ھ میں مرتب کیا۔ اس کے مکتوبات کی تعداد قرآن کریم کی سورتوں کی تعداد کے مطابق 114 رکھی گئی تھی لیکن تکمیل کے بعد چند اور مکاتیب ملے۔ اب عام طور پر اس جلد میں 124مکتوبات پائے جاتے ہیں۔ مختلف مطبوعہ ایڈیشنوں میں ان کی تعداد بھی مختلف ہے لیکن خواجہ محمد معصوم کی تصریح کے مطابق اس کا نسخہ مرتبہ مولانا نور احمد امرتسری میں اس کی تعداد 124 ہی ہے۔[1]

تحریری تشریحات ترمیم

مکتوبات امام ربانی کے بعض دقیق مسائل کی فہم و تفہیم کے حوالے سے مجدد الف ثانی کے حین حیات ہی سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ آپ نے نہ صرف ان مشکل مطالب کی تشریح فرمائی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بعض حاسدین اور کم فہم اصحاب کے ان مکتوبات پر کیے جانے والے اعتراضات کے مدلل جوبات بھی مرحمت فرمائے۔ آپ کے حالات پر دو معاصر کتب زبدۃ المقامات اور حضرات القدس میں بھی اس کی جھلکیاں ملتی ہیں۔
آپ کے وصال کے بعد فہم و تفہیم کی یہ ان کوششوں میں اولین کردار آپ کے صاحبزادگان کی تشریحات کی صورت میں سامنے آیا۔
آپ کے فرزند خواجہ محمد سعید نے اپنے مکتوبات میں کئی مقامات پر آپ کے کلام کی توضیحات پیش کی ہیں۔
آپ کے دوسرے صاحبزادے خواجہ محمد معصوم نے بھی مکتوبات معصومیہ میں بڑے اہتمام سے مکتوبات امام ربانی اور دیگر معارفِ مجدد الف ثانی کی توضیحات پیش کی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ حضرات شیخین مکتوبات امام ربانی کے فہم و تفہیم کے حوالے سے درس مکتوبات کا بھی خاص اہتمام فرماتے تھے۔
ان حضراتِ شیخین کے بعد انہی کے فرزندان گرامی نے اپنے اپنے مجموعہ مکتوبات میں یہی اہتمام کیا۔ شیخ عبد الاحد وحدت کے مجموعہ مکاتیب گلشن وحدت، محمد نقشبند ثانی حجۃ اللہ کے مکتوبات وسیلۃ القبول الی اللہ و الرسول، خواجہ عبیداللہ مروج الشریعت کے مکتوبات خزینۃ المعارف اور خواجہ سیف الدین کے مکتوبات سیفیہ میں بھی مکتوبات امام ربانی کے بعض مشکل مقامات کی تشریحات ملتی ہیں۔ شیخ عبد الاحد وحدت جو خواجہ محمد سعید کے فرزند اور امام ربانی مجدد الف ثانی کے پوتے تھے، آپ نے شرح کلمات قدسی آیات تالیف کی۔[2]
البینات شرح مکتوبات کے نام سے محمد سعید احمد مجددی نے پہلی اردوشرح لکھی جو مئی 2002ء میں طبع ہوئی جسے تنظیم الاسلام پبلیکیشنزگوجرنوالہ نے شائع کیا۔[3]

درس مکتوبات ترمیم

مجدد الف ثانی کے صاحبزادگان خواجہ محمد سعید و خواجہ محمد معصوم مکتوبات امام ربانی کو سمجھانے کا بڑا اہتمام فرماتے بالخصوص خواجہ محمد معصوم مکتوبات امام ربانی کے ساتھ ہی ساتھ مکتوبات معصومیہ کا مدرسہ سرہند میں باقاعدہ درس ارشاد فرماتے۔[4]خواجہ محمد معصوم کے بعض بزرگ خلفاء بھی مکتوبات امام ربانی کا درس دیتے تھی۔ ان میں سے چند نمایاں نام حسب ذیل ہیں:

خواجہ محمد معصوم کے ان خلفاء کے علاوہ خواجہ محمد زبیر سرہندی جو محمد نقشبند ثانی حجۃ اللہ کے فرزند اور خواجہ محمد معصوم کے پوتے تھے، آپ مکتوبات امام ربانی کے درس کا اہتمام فرماتے۔ 1119ھ میں جب آپ نے لاہور میں کافی دیر تک قیام کیا تو یہاں مجالس سکوت کے علاوہ مکتوبات امام ربانی کے درس کا بھی خصوصی التزام کیا۔ آپ اپنی باطنی توجہ سے اس کے مطالب سامعین پر بھی القاء کرتے تھے۔[5] معروف ترک خطاط اور عالم مستقیم زادہ سعد الدین سلیمان نقشبندی نے 1165-1162ھ کو مکتوبات معصومیہ کا ترجمہ ترکی زبان میں کیا۔ علاوہ ازیں نقشبندیہ سلسلہ کے افکار پر ترکی زبان میں آپ کی کئی قابل توجہ کتابیں ترکی کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔[6]مستقیم زادہ نے مکتوبات امام ربانی کا بھی ترکی زبان میں ترجمہ کیا جو 1277ھ/1860ء کو استنبول سے شائع ہوا۔

مکتوبات امام ربانی کے خطی نسخے ترمیم

مکتوبات امام ربانی کے دنیا بھر میں بہت سے خطی نسخے پائے جاتے ہیں لیکن امام ربانی کے حین حیات کا مکتوبہ کوئی خطی نسخہ تاحال نہیں مل سکا۔ ایرانیوں نے مکتوبات شریف کے پاکستان میں موجود 71 قلمی نسخوں کی نشان دہی کی ہے۔ ان میں قدیم ترین نسخہ 1056ھ کا مکتوبہ ہے۔[7]امام ربانی مجدد الف ثانی کے مکتوبات اور رسائل کا ایک مجموعہ بصورت کلیات مکتوبہ 1079ھ اورنٹئیل انسٹی ٹیوٹ لائبریری تاشقند میں ہے۔

اشاعت وطباعت ترمیم

مکتوبات امام ربانی کے فارسی متن کے اب تک کئی ایڈیشن طبع ہو چکے ہیں جن میں سے چند اشاعتیں حسب ذیل ہیں:

عربی تراجم ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. البینات شرح مکتوبات، شارح ابو البیان محمد سعید احمد مجددی، مقدمہ از پروفیسر محمد اقبال مجددی صدر شعبہ تاریخ، اسلامیہ کالج لاہور سول لائنز، لاہور۔ ص57-58
  2. عمدۃ المقاما ت، حاجی محمد فضل اللہ قندھاری (بسال 1233ھ) لاہور1355ھ۔
  3. عالمی ادارہ تنظیم الاسلام » Blog Archive » البینات شرح مکتوبات امام ربانی مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ -جلد دوم[مردہ ربط]
  4. نتائج الحرمین، مولانا محمد امین بدخشی، جلد سوم، خطی مخزونہ کتاب خانہ انڈیا آفس لندن نمبر 652۔
  5. روضۃ القیومیہ، کمال الدین محمد احسان
  6. تحفۃ الخطاطین،مستقیم زادہ۔ ص6
  7. فہرست مشترک، احمد منزوی
  8. ^ ا ب الکشاف عن مخطوطات خزائن الاوقاف، محمد اسعد اطلس ،ص136-148