مہسا امینی کی موت (انگریزی: Death of Mahsa Amini) سے مراد ایک 22 سالہ ایرانی لڑکی کی الم ناک موت ہے جس کی وجہ سے پورے ایران میں خواتین کے احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ ایران کی اخلاقی پولیس گشت ارشاد کا جابرانہ رویہ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے ایک عوامی مقام پر مہسا کے سر سے نقاب نادانستہ طور پر کچھ ہٹ گیا تھا۔ اس ہر گشت ارشاد کے اہل کار فعال ہو گئے اور اس کی اصلاح کے لیے اپنے ساتھ لے جانے لگے۔ اس کے بھائی نے معاملے کو سمجھا بجھا کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی ان ظالموں کے تشدد کا شکار ہوا۔ حراست میں رہنے کے کچھ ہی عرصے بعد خبر رواں ہوئی کہ مہسا امینی دل کے دورے کی وجہ سے رحلت کر گئی ہے۔ مگر بعد ازاں ایک معالج ڈاکٹر کا ایک خفیہ ویڈیو میں دعوی تھا کہ مہسا کی موت دماغ پر زد و کوب کی وجہ سے ہوئی۔ اس واقعے کی وجہ سے پورے ایران میں سماجی میڈیا پر خواتین نے اپنے حجاب اور برقعوں کو جلانے کی تصویریں عام کرنا شروع کیا۔ جگہ جگہ حجاب سے اور گشت ارشاد سے آزادی کے احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے جس میں خواتین نے بے حجاب حصہ لیا۔ احتجاج اس قدر بڑھا کہ حکومت ایران واقعے کی مکمل تحقیقات پر مجبور ہوئی۔ 19 نومبر 2022ء تک کم از کم 300 احتجاجی مرد/ خواتین کی ہلاکت کی خبریں عام ہوئیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یگانگت کیا۔ اسی طرح پاکستان کی کئی مشاہیر خواتین جیسے کہ مریم نواز نے اس موقع پر اسی طرح ایرانی خواتین سے اظہار ہم دردی کی۔ اس واقعے کو بھارت جیسی مسلمانوں کی کثیر آبادی والے غیر مسلم ملک کی جنوبی ریاست کرناٹک میں شروع ہونے والے 2022ء کے حجاب کے اسکولوں اور کالجوں میں پہننے پر تنازع، مختلف ممالک کی جانب سے حجاب پر عائد پابندی کو جوڑ کر کئی لوگ دیکھنے لگے، جب کہ کچھ اور لوگ اس کے برعکس فلسفہ حجاب اور حجاب فوبیا جیسے پہلوؤں پر بحث کرنے لگے۔

تاریخ16 ستمبر 2022
نتیجہمہسا امینی کی موت پر احتجاج
تدفینسقزصوبہ کردستان،ایران
جرمنی میں مہسا امینی کی ناگہانی موت کے احتجاج میں حجاب کو مبینہ طور پر نذر آتش کیا گیا۔


مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم