نقوش (جریدہ)

اردو ادبی جریدہ

نقوش لاہور، پاکستان سے شائع ہونے والا ایک ادبی جریدہ ہے جس کا اجرا مارچ 1948ء میں ہوا۔ اس جریدہ کے اولین مدیر اردو کے نامور شاعر، نقاد اور صحافی احمد ندیم قاسمی اور معروف افسانہ نگار ہاجرہ مسرور تھے۔ نقوش کے پہلے شمارے کی لوح پر تحریر تھا "زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کا نمائندہ"۔[1][2]

مدیراحمد ندیم قاسمی
ہاجرہ مسرور
شعبہاردو ادب
دورانیہماہنامہ
ملک پاکستان
مقام اشاعتلاہور
زباناردو

نقوش کے پہلے شمارے میں جن ادیبوں کی تخلیقات شامل تھیں ان میں کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، ہاجرہ مسرور، عزیز احمد، حفیظ جالندھری، سیماب اکبرآبادی، یوسف ظفر، قیوم نظر، قتیل شفائی، اثر لکھنوی، اختر شیرانی، فراق گورکھپوری، حفیظ ہوشیار پوری، علی سردار جعفری، عبد الحمید عدم، خالد حسن قادری، مختار صدیقی، سیف الدین سیف اور عبد العزیز فلک پیما کے نام شامل تھے۔[2]

یکم ستمبر، 1948ء کو حکومت پنجاب نے نقوش اور دیگر دو جرائد ادب لطیف اور سویرا پر پابندی لگا دی۔[3] اس پابندی کا خاتمہ 31 جنوری، 1949ء کو ہوا۔[4]

اس رسالے کا اجرا مارچ 1948ء میں ہوا۔

اور’’ زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کا ترجمان‘‘ کے الفاظ اس کی پیشانی پر درج تھے۔ نقوش کو اپنی زندگی میں مختلف مدیر وں کی سرپرستی حاصل رہی اسی لحاظ سے اس کے ادوار کا تعین کیا جا سکتا ہے جو چار ادوار پر مشتمل ہے ۔

پہلا دور ۔ مارچ 1948ء تا اپریل 1950ء احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور کی زیر ادارت صرف ابتدائی دس شمارے شائع ہوئے ۔ دونوں ابتدائی مدیر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اس وابستگی کا اظہار نقوش کے ابتدائی شماروں کی تحریروں میں نظر آنے لگا اور اسے سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں چھ ماہ کی جبری پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

دوسرا دور ۔ مئ 1950ء تا مارچ 1951ء سید وقار عظیم کے زیرادارت صرف آٹھ شمارے منظر عام پر آئے۔ سید صاحب نے رسالے کو سیاست سے نکال کر زندگی کے ساتھ اس کا تعلق جوڑ دیا۔ اس مختصر سے دور میں نقوش نے بڑے بڑے کام کیے ۔

’’ وقار عظیم صاحب نے اس مختصر سے دور میں نقوش کی کایا پلٹ دی۔اب اس میں ایسے ادیبوں کو جگہ دی گئی جو جمالیاتی قدروں کی پاسبانی کرتے تھے اور ادب کی روایتوں کے امین تھے۔ان کے عہد ادارت میں جو مقالات چھپے ان میں سے نیاز فتح پوری کا اندلس میں آثار علمیہ، نصیرالدین ہاشمی کا قدیم اُردو کی رزمیہ مثنویاں ،ممتاز شیریں کا اُردو ناول ،صوفی تبسم کا اُردو شاعری کی طرف پیش قدمی ہیں۔ 1951 میں ایک ناولٹ نمبر بھی پیش کیا جس میں انتظار حسین کا ناولٹ ا ﷲ کے نام پر ،اے حمید کا جہاں برف گرتی ہے ،اشفاق احمد کا مہمان بہار ،شوکت تھانوی کا سسرال،اور سعادت حسن منٹو کا کٹاری شایع ہوئے ‘‘

تیسرا دور ۔ اپریل 1951ء تا ستمبر 1986ء رسالے کے مالک محمد طفیل نے خود ادارت کی یہ دور طویل ترین اور اہم ترین دور ہے۔ طفیل طلوع کے عنوان سے اداریہ لکھتے تھے ۔ اداریہ نویسی کرتے کرتے وہ خود ادیب بن گئے اور خاکہ نگاری کے میدان میں نو مجموعوں کا انبار لگا دیا جو جناب،صاحب،آپ،محترم،مکرم،معظم،مخدومی،محبی اور محو قلم کا بیاں کے نام سے چھپ کر قارئین سے داد تحسین وصول کر چکے ہیں۔

محمد طفیل نے نامساعد حالات میں نقوش کی ادارت مجبورً اختیار کی بقول محمد طفیل۔ ’’جب نقوش ہمکنے اور ٹوں ٹاں کرنے لگا تو اس کی پرورش میرے سپرد ہوئی۔۔۔بیماری سمیت اس وقت اس کی عمر اڑھائی برس ہوگی۔یہ بہت بڑی ذمہ د اری تھی،میری راتوں کی نینداچٹ گئی،میں سوچتا تھا اتنا خوب صورت اور ہونہار بچہ۔۔۔اگر میری نگرانی میں پنپ نہ سکا تو کتنی جگ ہنسائی ہوگی،میں تو لاجوں مرتا رہامرے مالی حالات زیادہ اچھے نہ تھے مگر میں چاہتا تھا اسے ولایت تک بھیجوں،حوصلے اتنے۔۔۔۔وسائل محدود‘‘ (4)

چوتھا دور دسمبر1986ء؁جاوید طفیل نے ادارت سنبھالی۔ نقوش کے 148 شمارے شائع ہو چکے ہیں اس کی پوری فائل جی سی یو نیورسٹی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نقوش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مجلہ کسی ایک دبستان خیال سے وابستہ نہیں بلکہ ہر دبستان خیال کا ادیب و شاعر اس کے صفحات پر اظہار خیال کر سکتا ہے یہ درست ہے کہ نقوش کو کلاسیکی روایات عزیز ہیں لیکن یہ تجدید کا مخالف نہیں لہذا یہ کلاسیکی اورجدید روایات کے درمیان ایک پُل کا کام دیتا ہے کہنے کو نقوش ایک ماہنامہ ہے لیکن ادب کے مختلف موضوعات پر اس کے ضخیم خاص نمبر مستقل کتابوں کی خیثیت رکھتے ہیں۔غزل نمبر،افسانہ نمبر،مکاتیب نمبر،شخصیات نمبر،طنزومزاح نمبر ،پطرس نمبر،شوکت تھانوی نمبر،منٹو نمبر،میر انیس نمبر،اقبال نمبر،آپ بیتی نمبر۔رسول نمبر ،لاہور نمبر وغیرہ۔یہ تمام خاص نمبر علم و ادب کے ایسے انمول ذخیرے ہیں جن سے نہ صرف دور حاضر کے ادیب،نقاد اور طالب علم استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ ان میں تاریخی اہمیت کے جو بیش قیمت معلومات یک جا کر دی گئی ہیں ان سے آنے والی نسلوں کے لکھنے والے اسکالر تذکرہ نگار اور مورخ بھی مسلسل فیض یاب ہوتے رہیں گے۔یقینا یہ اردو ادب کی ایک عظیم خدمت ہے اور اپنے ان تحقیقی کارناموں کی وجہ سے نقوش کا نام اردو ادب کی تایخ میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔ ڈاکٹر عبد السلام خورشید نقوش کے خاص نمبروں کے بارے میں لکھتے ہیں ۔

’’ یہ نمبر اپنے اپنے موضوع پر انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان میں ضخامت کو محدود کرنے کی کوئی شعوری کوشش کی جاتی تو ان کی جامعیت میں فرق آجاتا۔ضخامت اور مواد کے اعتبار سے یہ مستقل  تصانیف اور تالیفات کا مقام حاصل کر چکے ہیں جو کام نقوش نے کر دکھایاہے وہ ایک معجزے سے کم نہیں کتاب ،انسائیکلو پیڈیا اور مجلے کو ایک جگہ سمو کر اور اُسے حسن بخش کر نقوش نے مجلاتی صحافت کو چار چاند لگا دیے ہیں ‘‘

محمد طفیل نے متعدد سالنامے اور افسانہ نمبر چھاپنے کے بعد نومبر 1957؁ ء میں دو جلدوں میں مکاتیب نمبر شایع کیا۔اس نمبر میں 155 شخصیات کے 1552 مکاتیب شایع ہوئے۔اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں کسی نے خطوط شایع نہیں کیے تھے ۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم