نوح ناروی

اردو زبان کے شاعر۔

نوح ناروی : (18 ستمبر، 1879ء - 10 اکتوبر، 1962ء ) - ایک مشہور کہنہ مشق شاعر، داغ دہلوی کے جانشین تھے۔ ان کی ولادت بھارت کی ریاست اترپردیش، رائے بریلی ضلع، سلون تحصیل کے بھوانی پور گاؤں میں ہوئی، جو ان کا نانہال تھا۔

نوح ناروی
معلومات شخصیت
پیدائش 18 ستمبر 1879ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اتر پردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 اکتوبر 1962ء (83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

بچپن اور تعلیم ترمیم

اپنے نانا کا نام شیخ علم الہدیٰ صاحب تھا اور آپ یہیں پیدا ہوئے۔ تعلیم مختلف حضرات سے پائی جن میں اہم نام حافظ قدرت علی صاحب و مولوی یوسف علی صاحب۔ بعد ازاں حاجی عبد الرحمن صاحب جائسی کے پاس تعلیم حاصل کی۔ فارسی اور عربی تعلیم کے لیے میر نجف علی صاحب استاذ رہے۔ آپ کو انگریزی پڑھنے کا موقع بھی ملا۔

شعر و سخن کا شوق میر نجف علی صاحب کی صحبت مکی وجہ سے پیدا ہوا۔ آپ ابتدا میں شرف تلمذانہیں سے کیا کرتے تھے۔ پھر آپ جناب امیر مینائی سے کلام کا اصلاح لیا کرتے تھے۔ جناب جلال لکھنوی سے بھی شرف تلمذ رہا۔ اور آخر میں فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے۔ 1903ء کو حیدرآباد تشریف لے گئے۔

ادبی سفر ترمیم

کلاسیکی غزل کی آبیاری کرنے والوں میں نوح ناروی صاحب نام بھی شامل ہے، جنھوں نے نہایت ہی عمدہ اور خوبصورت شعر تخلوق کیے۔

ان کی مشہور غزل جس کو پنکج ادھاس نے گایا اور غزل گائکی دنیامیں اپنا مقام دائم کر لیا۔

آپ جن کے قریب ہوتے ہیں
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں
جب طبیعت کسی پہ آتی ہے
موت کے دن قریب ہوتے ہیں۔

نوح ناروی بلاشبہ اپنے عہد کے بہت بڑے شاعر تھے۔ جس کا اعتراف جدید نسل بھی بڑے ہی شان سے کرتی ہے۔

داغ دہلوی کی جانشینی ترمیم

داغ دہلوی کے انتقال کے بعد ان کی جانشینی کو لے کر کافی جھگڑے تھے۔ بی الآخر یہ طئے پایا کہ جانشینی کسی ایک کو نہیں بلکہ قابل اور مستحق شاگردوں کو جانشین قرار دیتے ہوئے اسناد پیش کیے گئے، جن میں اول نام نوح ناروی کا رہا۔

تصانیف ترمیم

  • سفینہ نوح
  • طوران نوح
  • اعجاز نوح

شاگرد ترمیم

آپ کے شاگرد تقریباً چار سو سے زیادہ ہیں۔ جن میں نور ناروی صاحب کے مطابق 40 تا 50 اچھے لکھنے والے تھے۔ اور اکثر میں سے خود صاحب دیوان و صاحب تلامذہ تھے۔

نمونہ کلام ترمیم

تاریخ کے اوراق میں گُم بیسویں صدی کے ایک بہت اچھے شاعر کا کلام آپ سب کے ذوقِ طبع میں حاضر ہے۔ نوح صاحب بحیثیت شاعر جس مرتبہ کے مستحق تھے ۔

  • اسیرانِ قفس کو واسطہ کیا ان جھمیلوں سے
چمن میں کب خزاں آئی چمن میں کب بہار آئی
  • قبروں کے مناظر نے کروٹ نہ کبھی بدلی
اندر وہی آبادی باہر وہی ویرانہ
  • ہر صدائے عشق میں اک راز ہے
نالئہ دل غیب کی آواز ہے
وُسعتِ تنظیمِ قدرت دیکھنا
ایک دل میں دو جہاں کا راز ہے
آپ جن کے قریب ہوتے ہیں
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں

حسن کا صدقہ اترنے دیجیئے دل مجھے قربان کرنے دیجیئے حسن میں حوروں سے وہ بڑھ جائے گا اک ذرا بننے سنورنے دیجیئے کیا تصور میں بھی آئیں گے نہ آپ مجھ کو آنکھیں بند کرنے دیجیئے

روز کا غم تو کہیں اے دلِ شیدا جائے وہ نہ آئیں نہ سہی موت مری آ جائے

لطف تو جب ہے تمنا کو بھی لیتا جائے آپ کا تیر مرے دل سے نہ تنہا جائے

شکوۂ ظلم و ستم شوق سے عشاق کریں مگر اتنا کہ وہ بے درد نہ گھبرا جائے

آپ بھر پائے گا کس واسطے روکے کوئی کوچۂ یار میں جائے دلِ شیدا جائے

تم جو کہہ دو تو ابھی ہنسنے لگیں غنچہ و گُل تم جو ہنس دو تو خزاں جائے بہار آ جائے

کچھ تجھے بھی تو ہو معلوم کہ اُلفت کیا ہے لطف آ جائے ترا دل جو کہیں آجائے

کیا اسی پردۂ غفلت میں ہے تکمیلِ حیات سانس لیتا رہوں میں وقت گزرتا جائے

نوح طوفانِ محبت سے یہ کچھ دُور نہیں بہتے بہتے کوئی نزدیک ترے آ جائے

بیرونی روابط ترمیم