نوفل بن حارث

محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کے چچازاد بھائی اورصحابی

نوفل بن حارث محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور صحابی تھے۔[1] آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر کے بعد مشرف باسلام ہوئے ۔مدینہ ہجرت فرمائی ، غزوات میں فتح مکہ میں شامل ہوئے اور اس کے بعد دیگر تمام غزوات میں شریک تھے۔حصرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں 15ھ میں وفات پائی ۔

نوفل بن حارث
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام وفات مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد حارث بن نوفل،  مغیرہ بن نوفل  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد حارث بن عبدالمطلب  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں فتح مکہ،  غزوہ حنین،  غزوہ طائف  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب ترمیم

نوفل نام، ابو حارث کنیت، نسب نامہ یہ ہے، نوفل بن حارث بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی قرشی ہاشمی،[2] ماں کا نام غزیہ تھا، نانہالی شجرہ یہ ہے، غزیہ بنت قیس بن طریف بن عبد العزی بن عامرہ بن عمیرہ بن ودیعہ بن حارث بن فہر، نوفل۔

ابوسفیان بن حارث اور ربیعہ بن حارث اور عبد شمس ان کے بھائی تھے۔[3][4] نوفل آنحضرت کے چچازاد بھائی تھے۔

غزوہ بدر ترمیم

دعوت اسلام کے زمانہ میں محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے عزیز قریب بھی آپ کے دشمن ہو گئے ؛لیکن نوفل کے خون میں ہمیشہ یکساں برادرانہ محبت قائم رہی؛چنانچہ حالت شرک میں بھی آپ سے مقابلہ کرنا پسند نہ کرتے تھے، بدر میں جب طوعا کہ رہا مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کو نکلے، اس وقت یہ پر خلوص اشعار ورد زبان تھے۔[2]

حرام علي حرب أحمد إني أرى أحمد مني قريبا أواصره
وإن تك فهر أَلَّبَتْ وتجمَّعت عليه فإن الله لا شك ناصره

مجھ پر احمد سے جنگ کرنا حرام ہے وہ میرے قریبی عزیز ہیں۔ [2]

اسلام ترمیم

غزوہ بدر میں جب مشرکین کو شکست ہوئی تو دوسرے قیدیوں کے ساتھ یہ بھی گرفتار ہوئے، محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، نوفل فدیہ دے کر رہا ہوجاؤ، عرض کیا یا رسول اللہ!میرے پاس فدیہ کے لائق کوئی چیز نہیں، فرمایا جدہ والے نیزے فدیہ میں دے دو، اس کے جواب میں انھوں نے آپ کی رسالت کا اعتراف کیا اور ہزارنیزے فدیہ میں پیش کیے اور ذیل کے اشعار میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ الیکم الیکم اننی لست منکم تبرات من دین الشیرخ الاکابر دور ہو، دور ہو، میں تمھاری جماعت میں نہیں ہوں، میں قریش کے بڑے بوڑھوں کے دین سے بیزار ہوں۔ شہدت علی ان النبی محمد اتی بالھدی من ربہ والبصائر میں نے شہادت دی ہے کہ محمد نبی ہیں اور خدا کی جانب سے وہ ہدایت اوربصیرت لائے ہیں وان رسول اللہ یدعواالی التقی وان رسول اللہ لیس لشاعر اور رسول اللہ تقویٰ کی طرف بلاتے ہیں اور رسول اللہ شاعر نہیں ہیں علی ذلک احیی ثم لبث موقتا واثوی علیہ متیتا فی المقابر میں اسی پر زندہ رہوں گا اور اسی پر میں قبر میں موت کی حالت میں سوؤں گا اور پھر اسی پر قیامت کے دن اٹھوں گا۔ اسلام کے بعد پھر مکہ واپس چلے گئے، غزوۂ خندق یا فتح مکہ کے زمانہ میں عباس کے ساتھ مدینہ کے قصد سے روانہ ہوئے، ابواء پہنچ کر ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب نے لوٹنے کا ارادہ کیا، نوفلؓ نے کہا اس شرک کدہ میں کہاں جاتے ہو، جہاں کے آدمی رسول اللہ سے لڑتے اوران کی تکذیب کرتے ہیں، اب اللہ نے رسول اللہ کو عزت دی ہے اوران کے ساتھی بھی زیادہ ہو گئے ہیں، ہمارے ساتھ چلے چلو، چنانچہ یہ قافلہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچا۔نوفل اور عباس سے قدیم تعلقات تھے ،اس لیے آنحضرت نے ان دونوں میں مواخات کرادی اور قیام کے لیے دو مکان مرحمت فرمائے ،ایک مکان رحبۃ القضا میں مسجد نبوی کے متصل تھا اور دوسرا بازار میں تینۃ الوداع کے راستہ پر۔ [5][1]

غزوات ترمیم

مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے فتح مکہ میں شریک ہوئے، پھر طائف و حنین وغیرہ میں داد شجاعت دی، خصوصاً حنین میں نہایت شجاعت و پامردی سے مقابلہ کیا اور اس وقت بھی جب مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں اور وہ بے ترتیب ہو گئے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی، [6] اس غزوہ میں انھوں نے مسلمانوں کی بڑی گراں قدر مدد کی تھی، 3 ہزار نیزے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے، آپ نے مدحیہ فرمایا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارے نیزے مشرکوں کی پیٹھ توڑ رہے ہیں۔ [7][8] [9]

وفات ترمیم

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ ہونے کے ایک سال 3 ماہ بعد مدینہ منورہ میں وفات پائی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں سپرد خاک کیا۔[10]

اولاد ترمیم

حضرت نوفل بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات کے بعد متعدد اولادیں چھوڑیں، عبد اللہ ،عبد الرحمن، ربیعہ، سعید، مغیرہ، نوفل کی اولاد مدینہ منورہ، بصرہ اور بغداد میں بکثرت پھیلی، عبد اللہ، امیر معاویہؓ کے زمانہ میں مدینہ کے قاضی اور سعید فقیہ تھے۔ [11]

عام حالات ترمیم

آنحضرت وقتاً فوقتاً ان کی خبر گیری فرمایا کرتے تھے، ان کو شادی کی ضرورت ہوئی تو آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت سے شادی کرادی،ان کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابورافع اور ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی اور اس کے بدلے تیس صاع جولے کر عطا کی۔ [12][3][4]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب "سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان اللہ عليهم» نوفل"۔ 03 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2017 
  2. ^ ا ب پ "الطبقات الكبرى لابن سعد - نَوْفَلُ بْنُ الحارث(1)"۔ 09 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2017 
  3. ^ ا ب "الطبقات الكبرى لابن سعد - نَوْفَلُ بْنُ الحارث(2)"۔ 14 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2017 
  4. ^ ا ب "أسد الغابة في معرفة الصحابة - نوفل بن الحارث"۔ 28 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2017 
  5. (اسد الغابہ:5/46)
  6. مستدرک حاکم:3/246
  7. الإصابة في تمييز الصحابة - نوفل بن الحارث (1) آرکائیو شدہ 2020-01-09 بذریعہ وے بیک مشین
  8. الإصابة في تمييز الصحابة - نوفل بن الحارث (2) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین
  9. الطبقات الكبرى لابن سعد - نَوْفَلُ بْنُ الحارث(3) آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین
  10. ابن سعد، جزء4، ق1:30
  11. (ابن سعد،جزو4،ق1:31)
  12. (مستدرک حاکم:3/246)