واثلہ بن اسقع ایک صحابی رسول اور اصحاب صفہ میں شمار ہوتا ہے۔

واثلہ بن اسقع
معلومات شخصیت

نام ونسب ترمیم

واثلہ نام، ابو قرضاضہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، واثلہ بن اسقع بن عبد لعزیٰ ابن عبد یالیل بن ناشب بن غزہ بن سعد بن لیث بن بکر بن کنانہ کنانی۔

اسلام ترمیم

میں غزوۂ تبوک سے چند دن پہلے قبولِ اسلام کے ارادہ سے مدینہ آئے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا جاؤ پانی اور بیر کی پتیوں سے نہاؤ اور زمانہ کفر کے بالوں کو صاف کراؤ، یہ کہہ کر ان کے سر پر دستِ شفقت پھیرا۔[1]

غزوۂ تبوک ترمیم

ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی غزوۂ تبوک کی تیاریاں شروع ہوئیں تمام مجاہدین اپنا اپنا سامان درست کر رہے تھے، واثلہ بھی تیاری کرنے کے لیے گھر گئے یہاں کچھ نہ تھا، اس لیے واپس آئے، ان کی واپسی تک مجاہدین کا قافلہ روانہ ہو چکا تھا اور ان کے شرکت کی بظاہر کوئی صورت باقی نہ تھی، لیکن ذوق جہاد بے تاب کیے ہوئے تھا؛ چنانچہ انھوں نے مدینہ کی گلیوں میں پھر پھر کر آواز لگانا شروع کی کہ کون مجھ کو میرے مالِ غنیمت کے بدلہ میں تبوک لے چلتا ہے؟ اتفاق سے ایک انصاری بزرگ بھی باقی رہ گئے تھے، انھوں نے کہا، میں لے چلوں گا کھانا میں دوں گا اور اپنی سواری پر بٹھاؤں گا، خدا کی برکت پر بھروسا کر کے تیار ہو جاؤ، واثلہ کو تیاری ہی کیا کرنی تھی، فورا ساتھ ہو گئے، انصاری بزرگ نے نہایت حسن سلوک اور شریفانہ طریقہ سے انھیں رکھا اور وہ غزوۂ تبوک میں شریک ہوئے، وعدہ کے مطابق وہ مالِ غنیمت میں ملی اونٹنیوں کو انصاری بزرگ کے پاس لائے، انھوں نے ان اونٹنیوں کی چال ڈھال وغیرہ کو دیکھنے کے بعد کہا تمھاری یہ سب اونٹنیاں نہایت اچھی ہیں، واثلہ نے کہا تمھیں مبارک ہوں، انھیں لے جاؤ، میرا مقصد صرف ثواب آخرت تھا۔[2]

بیت المقدس میں قیام ترمیم

بصرہ آباد ہونے کے بعد کچھ دنوں یہاں رہے، پھر شام منتقل ہو گئے اور دمشق سے تین کوس کی مسافت پر بلاط نامی گاؤں میں اقامت اختیار کرلی اور شام کی لڑائیوں میں شریک ہوتے رہے، آخر میں بیت المقدس میں سکونت اختیار کرلی تھی۔[3]

وفات ترمیم

83ھ میں 105 سال کی عمر میں وفات پائی، واقدی کے بیان کے مطابق 85ھ میں انتقال کیا اور 98 سال کی عمر تھی۔[4] آخر عمر میں بصارت جاتی رہی تھی ۔

فضل وکمال ترمیم

واثلہ اصحابِ صفہ میں تھے۔[5]اصحاب صفہ کا مشغلہ تعلیم و تعلم تھا، اس لیے واثلہ کا بھی یہی شغل تھا ،اس کے علاوہ وہ آنحضرتﷺ کی خدمت گزاری کی بھی سعادت حاصل کرتے تھے[6] گو اس سعادت کی مدت سال سوا سال سے زیادہ نہ تھی تاہم اس تقریب سے انھیں خدمت نبویﷺ کی حاضر باشی اور استفادہ کا موقع مل جاتا تھا، اس لیے بہت سی احادیث نبویﷺ ان کے حافظہ میں محفوظ تھیں؛ چنانچہ ان کی مرویات کی مجموعی تعداد 56 ہے ان میں سے ایک میں بخاری اور ایک میں مسلم منفرد ہیں، ان سے ان کی لڑکیوں فسیلہ، جمیلہ اور اسماء نے روایت کی اور دیگر روات میں بسر بن سعد، بسر بن عبید اللہ ،مکحول ،عبد اللہ بن عامر اور شداد بن عمارہ وغیرہ نے روایتیں کی ہیں۔[7]

روایتِ حدیث میں واثلہ کا اصول ترمیم

روایتِ حدیث میں واثلہ الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تھے، بلکہ روایت بالمعنی یعنی صرف حدیث کا صحیح مفہوم اور منشا بیان کر دینا کافی سمجھتے تھے ان کی حدیث دانی کی وجہ سے شائقین حدیث ان کے پاس سماع کے لیے آیا کرتے تھے، ایک مرتبہ مکحول نے آکر کہا ابو الاسقع کوئی ایسی حدیث سنائیے، جس میں آپ کو کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو، نہ اس میں کوئی زیادتی ہو اور نہ کچھ بھولے ہوں، یہ شرائط سن کر واثلہ نے حاضرین سے سوال کیا، تم میں سے کسی نے گذشتہ شب کو قرآن پڑھا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں لیکن ہم حافظہ میں محفوظ نہیں رکھ سکتے اور اس میں تم کو کمی بیشی ہو جانے کا خوف رہتا ہے، تو حدیثیں جن کو بیشتر حالتوں میں ہم نے صرف ایک ہی مرتبہ سنا ہے، بجنسہا کیونکر یاد رہ سکتی ہیں، روایت حدیث میں تمھارے لیے اتنا کافی ہے کہ حدیث کا مفہوم اور اس کے صحیح معنی بیان کر دو۔[8]

عبادت ترمیم

واثلہ اوراد و وظائف ماثورہ نہایت پابندی کے ساتھ پڑہتے تھے، ان کی صاحبزادی اسماء کا بیان ہے کہ والد نمازِ فجر کے بعد سے طلوعِ آفتاب تک قبلہ رخ بیٹھ کر وظیفہ پڑھتے تھے اور اس وقت جب کبھی میں ان سے کسی ضرورت سے بات کرنا چاہتی تو بولتے نہ تھے ایک دن میں نے پوچھا آپ بولتے کیوں نہیں، فرمایا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص نماز کے بعد بغیر کسی سے بات کیے ہوئے سو مرتبہ قل ہو اللہ تلاوت کرے تو اس کے اس سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

فیاضی ترمیم

ابتدا میں نہایت نادار تھے، اس لیے اصحاب صفہ کے زمرہ میں شامل ہو گئے تھے بعد میں خدا نے فارغ البال کیا، فارغ البالی کے زمانہ میں نہایت فیاض اور سیر چشم تھے اور صبح و شام دونوں وقت برابر لوگوں کو بلا کر کھانے میں شریک کرتے تھے۔[9]

حوالہ جات ترمیم

  1. مستدرک حاکم:3/570
  2. ابوداؤد کتاب الجہاد باب الرجل کیری وابتر علی النصف والسہم
  3. اسد الغابہ:5/77
  4. ابن سعد، ج 7، ق 1، ص:121
  5. (ابن سعد جلد7، ق2، ص:129)
  6. (استیعاب:2/625)
  7. (استیعاب:2/625، تہذیب الکمال:419)
  8. (مستدرک حاکم:3/569)
  9. (ابن سعد، ج 7 ،ق 2، ص:129)