وضو صفائی کے ایک عمل کا نام ہے جو مسلمانوں پر نماز یا قرآن کو چھونے سے پہلے واجب ہے۔ اس میں پانی کی مدد سے منہ ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اور مسح کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں وضو کے مختلف طریقے رائج ہیں مگر کم و بیش ایک جیسے ہیں اور اس کا بنیادی مقصد جسمانی و روحانی پاکیزگی ہے۔ قرآن میں ایک آیت آیۂ وضو کے نام سے موجود ہے جس میں وضو کے طریقہ پر روشنی پڑتی ہے۔

وضو کے فرائض اور سنتیں ترمیم

وضو کے ارکان اور فرائض چھ ہیں:

1- چہرہ دھونا، منہ اور ناک اس میں شامل ہیں۔

2- کہنیوں تک ہاتھ دھونا۔

3- سر کا مسح کرنا۔

4- ٹخنوں تک پاؤں دھونا۔

5- وضو کے اعضا دھوتے ہوئے ترتیب قائم رکھنا

6- وضو کے لیے تسلسل کے ساتھ اعضا دھونا، یعنی مطلب یہ ہے کہ اعضا کو دھوتے ہوئے درمیان میں لمبا فاصلہ نہ آئے۔

ان سب کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے: 

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ )

ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہرے، ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لو۔ [ المائدة:6]

مزید کے لیے دیکھیں : "الروض المربع مع حاشية ابن قاسم " (1/181-188)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: 

"مؤلف نے یہاں وضو کے فرائض سے مراد وضو کے ارکان لیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام  اپنی تحریروں میں تنوع پیدا کرنے کے لیے فرائض کو ارکان بھی کہہ دیتے ہیں اور اسی طرح ارکان کو فرائض سے موسوم کر دیتے ہیں" ختم شد

"الشرح الممتع" (1/ 183)

اس لیے وضو کے واجبات  ہی وضو کے ارکان اور فرائض ہیں، یعنی وہ افعال جن کے بغیر وضو ہو ہی نہیں سکتا۔

جبکہ وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے  کو امام احمد رحمہ اللہ واجب کہتے ہیں۔

جبکہ جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ بسم اللہ پڑھنا وضو کی سنتوں میں شامل ہے واجبات میں نہیں

دوم:

وضو کی سنتیں  متعدد اور کافی ہیں، چنانچہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:

وضو کی سنتیں یہ ہیں:

1- مسواک کرنا، اس کی جگہ کلی کے وقت ہے تا کہ مسواک اور کلی دونوں کے ذریعے عبادت کے لیے منہ صاف ہو جائے اور  قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے مناجات پیش کرنے کی تیاری ہو سکے۔

2- وضو کی ابتدا میں چہرہ دھونے سے قبل دونوں ہتھیلیوں کو تین بار دھونا ؛ کیونکہ یہ حدیث میں آیا ہے، نیز دونوں ہاتھ  وضو کے دیگر اعضا تک پانی پہنچانے کا ذریعہ ہے تو ابتدا میں انھیں دھونے سے پورے وضو  کی بہتری  ہے۔

3- چہرہ دھونے سے قبل کلی  کریں اور ناک میں پانی ڈال کا جھاڑیں ؛ کیونکہ حدیث میں یہ دونوں کام چہرہ دھونے سے پہلے ہیں، اگر روزہ نہ ہو تو ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا چاہیے۔

کلی میں مبالغہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ : پورے منہ میں اچھی طرح  پانی گھمائیں، ناک میں پانی چڑھانے  کے لیے مبالغہ یہ ہے کہ ناک کے اندر تک پانی لے جائیں۔

4- گھنی داڑھی میں پانی سے خلال کریں یہاں تک کہ پانی اندر تک پہنچ جائے، پھر ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں  کا بھی خلال کریں۔

5- بائیں ہاتھ  پاؤں سے قبل دائیں ہاتھ پاؤں کو دھوئیں ۔

6- چہرہ، ہاتھ اور پاؤں ایک سے زیادہ بار دھوئیں اور تین  بار تک دھوئیں۔" ختم شد

"الملخص الفقهي" (1/ 44-45)

جمہور علمائے کرام کے ہاں یہ بھی سنت ہے کہ کانوں کا مسح کریں، جبکہ امام احمد کانوں کے مسح کو واجب کہتے ہیں، اس کی تفصیلات پہلے فتوی نمبر:  (115246) میں گذر چکی ہے۔

وضو کے بعد یہ دعا پڑھنا مستحب ہے: 

(أشْهَدُ أنْ لا إله إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيك لَهُ، وأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَوَّابِينَ، واجْعَلْني مِنَ المُتَطَهِّرِينَ، سُبْحانَكَ اللَّهُمَّ وبِحَمْدِكَ، أشْهَدُ أنْ لا إلهَ إِلاَّ أنْتَ، أسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ)

ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں یا اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں میں بنا دے اور مجھے پاکیزہ رہنے والوں میں شامل فرما، پاک ہے تو یا اللہ! تیری ہی حمد ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، میں تجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتا ہوں اور تیری جانب ہی رجوع کرتا ہوں۔

[1] وضوء دو طرح سے ثابت ہے:

پہلا: واجب كردہ طريقہ:

اول:

پورا چہرہ ايك بار دھونا، اس ميں كلى كرنا اور ناك ميں پانى ڈالنا بھى شامل ہے۔

دوم:

دونوں بازو كہنيوں تك ايك بار دھونے۔

سوم:

سارے سر كا مسح كرنا، اس ميں كانوں كا مسح بھى شامل ہے۔

چہارم:

دونوں پاؤں ٹخنوں سميت ايك بار دھونا، ايك بار دھونے سے مراد يہ ہے كہ سارا عضو دھويا جائے۔

پنجم:

ترتيب كے ساتھ اعضاء كا دھونا۔ يعنى پہلے چہرہ دھويا جائے، پھر دونوں بازو اور پھر سر كا مسح اور پھر دونوں پاؤں۔

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس ترتيب كے ساتھ وضوء كيا تھا۔

ششم:

موالاۃ يعنى: اعضاء كو مسلسل دھونا كہ ايك عضو دھونے كے بعد دوسرا عضو دھونے ميں زيادہ وقت فاصلہ نہ ہو، بلكہ ايك عضو كے بعد دوسرا عضو دھويا جائے۔

يہ وضوء كے فرائض ہيں جن كے بغير وضوء صحيح نہيں ہوتا۔

ان فرائض كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

﴿ اے ايمان والو جب تم نماز كے ليے كھڑے ہوؤ تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك ہاتھ دھو ليا كرو اور اپنے سروں كا مسح كرو اور دونوں پاؤں ٹخنوں تك دھويا كرو اور اگر تم جنابت كى حالت ميں ہو تو پھر طہارت كرو اور اگر تم مريض ہو يا سفر ميں يا تم ميں سے كوئى ايك پاخانہ كرے يا پھر بيوى سے جماع كرے اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو اور اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح كرلو، اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى نہيں كرنا چاہتا، ليكن تمہيں پاك كرنا چاہتا ہے اور تم پر اپنى نعمتيں مكمل كرنى چاہتا ہے، تا كہ تم شكر كرو ﴾المآئدۃ ( 6 ).

دوسرا طريقہ: يہ مستحب ہے۔

جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں وارد ہے، اس كى تفصيل درج ذيل ہے:

1 - انسان طہارت كرنے اور ناپاكى دور كرنے كى نيت كرے اور يہ نيت زبان سے ادا نہيں ہو گى، كيونكہ نيت كى جگہ دل ہے اور يہ دل سے ہوتى اور اسى طرح باقى سب عبادات ميں بھى نيت دل سے ہوگى.

2 - پھر بسم اللہ پڑھے۔

3 - تين بار دونوں ہاتھ دھوئے۔

4 - پھر تين بار كلى كرے ( كلى يہ ہے كہ مونہہ ميں پانى ڈال كر گھمائے) اور تين بار ناك ميں پانى ڈال كر بائيں ہاتھ سے ناك جھاڑے۔

5 - اپنا چہرہ تين بار دھوئے، لمبائى ميں چہرہ كى حد سر كے بالوں سے ليكر تھوڑى كے نيچے تك اور چوڑائى ميں دائيں كان سے بائيں كان تك ہے، مرد كى داڑھى اگر گھنى ہو تو وہ داڑھى كو اوپر سے دھوئے اور اندر كا خلال كرے اور اگر كم ہو تو سارى داڑھى دھوئے۔

6 - پھر اپنے دونوں ہاتھ كہنيوں تك تين بار دھوئے، ہاتھوں كى حد انگليوں كے ناخنوں سے ليكر بازو كے شروع تك ہے، اگر دھونے سے قبل ہاتھ ميں آٹا يا مٹى يا رنگ وغيرہ لگا ہو تو اسے اتارنا ضرورى ہے، تا كہ پانى جلد تك پہنچ جائے۔

7 - اس كے بعد نئے پانى كے ساتھ سر اور كانوں كا ايك بار مسح كرے ہاتھوں كے بچے ہوئے پانى سے نہيں، سر كے مسح كا طريقہ يہ ہے كہ اپنے دونوں ہاتھ پيشانى كے شروع ميں ركھے اور انہيں گدى تك پھيرے اور پھر وہاں سے واپس پيشانى تك لائے جہاں سے شروع كيا تھا، پھر دونوں انگشت شہادت كانوں كے سوراخوں ميں ڈال كر اندر كى طرف اور اپنے انگوٹھوں سے كانوں كے باہر كى طرف مسح كرے۔

عورت اپنے سر كا مسح اس طرح كرے كہ وہ پشانى سے ليكر گردن تك لٹكے ہوئے بالوں پر مسح كرے، اس كے ليے كمر پر لٹكے ہوئے بالوں پر مسح كرنا ضرورى نہيں۔

8 - پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تك تين بار دھوئے، ٹخنے پنڈلى كے آخر ميں باہر نكلى ہوئى ہڈى كو كہتے ہيں۔

مندرجہ بالا طريقہ كى دليل درج ذيل حديث ہے:

عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے غلام حمران بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے وضوء كا پانى منگوايا اور اپنے ہاتھ تين بار دھوئے پھر كلى كى اور ناك ميں پانى ڈالا اور پھر اپنا چہرہ تين بار دھويا، پھر اپنا داياں ہاتھ كہنى تك تين بار دھويا اور پھر باياں ہاتھ بھى اسى طرح، پھر سر كا مسح كيا اور پھر اپنا داياں پاؤں ٹخنے تك تين بار دھويا، پھر باياں بھى اسى طرح دھويا اور فرمانے لگے:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اسى طرح وضوء كرتے ہوئے ديكھا جس طرح ميں نے يہ وضوء كيا ہے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے ميرے اس وضوء كى طرح وضوء كيا پھر اٹھ كر دو ركعت ادا كيں جن ميں وہ اپنے آپ سے باتيں نہ كرے تو اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 331 ).

وضوء كى شروط:

اسلام: كافر كا وضوء صحيح نہيں ہوگا۔

عقل: اس طرح پاگل اور مجنون كا وضوء صحيح نہيں۔

تمييز: چھوٹے بچے اور جو تميز نہ كر سكے اس كا وضوء صحيح نہيں۔

نيت: بغير نيت وضوء صحيح نہيں، مثلا كوئى شخص ٹھنڈك حاصل كرنے كے ليے وضوء كرے تو اس كا وضوء صحيح نہيں۔

وضوء كرنے كے ليے پانى طاہر ہونا بھى شرط ہے، كيونكہ اگر پانى نجس ہو تو اس سے وضوء صحيح نہيں۔

اسى طرح اگر جلد يا ناخن پر كوئى چيز لگى ہو جس سے پانى نيچے نہ پہنچے تو اسے اتارنا بھى شرط ہے، مثلا عورتوں كى نيل پالش وغيرہ۔

جمہور علما كرام كے ہاں بسم اللہ پڑھنا مشروع ہے، ليكن اس ميں اختلاف ہے كہ آيا يہ واجب ہے يا سنت، وضوء كے شروع ميں يا درميان ميں ياد آجانے كى صورت ميں بسم اللہ پڑھنا ضرورى ہے۔

مرد اور عورت كے وضوء كے طريقہ ميں كوئى اختلاف نہيں۔

وضوء سے فارغ ہونے كے بعد درج ذيل دعا پڑھنى مستحب ہے:

" أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبد ه ورسوله " ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے اس كا كوئى شريك نہيں اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں .

اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان ہے:

" جو كوئى بھى مكمل وضوء كرے اور پھر وہ يہ كلمات كہے:

" أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبد ه ورسوله " ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں اور وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں۔

تو اس كے ليے جنت كے آٹھوں دروازے كھول ديے جاتے ہيں، جن ميں سے چاہے جنت ميں داخل ہو جائے "

صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 345 ).

اور ترمذى شريف كى روايت ميں درج ذيل الفاظ زيادہ ہيں:

" اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين " اے اللہ مجھے توبہ كرنے والوں ميں سے بنا اور مجھے پاكيزگى اختيار كرنے والوں ميں شامل كر"

سنن ترمذى كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 50 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 48 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے۔

ديكھيں: اللخص الفقھى للفوزان ( 1 / 36 ).

اور آپ كا يہ كہنا:

حوالہ جات ترمیم

وضو سے پہلے اور بعد کی دعاآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ azofficial.org (Error: unknown archive URL)