پارگلی ابراہیم پاشا (Pargalı Ibrahim Pasha) (ترکی زبان: Pargalı İbrahim Paşa) جسے فرنگ ابراہیم پاشا (مغربی)، مقبول ابراہیم پاشا جو توپ قاپی محل میں اس کی موت کے بعد مقتول ابراہیم پاشا ہو گیا۔ وہ سلطنت عثمانیہ کا پہلا وزیر اعظم تھا جسے سلیمان اول نے یہ مرتبہ عطا کیا۔

پارگلی ابراہیم پاشا
(ترکی میں: Pargalı İbrahim Paşa ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تفصیل= ابراہیم پاشا
تفصیل= ابراہیم پاشا

وزیر اعظم سلطنت عثمانیہ
مدت منصب
27 جون 1523 – 14 مارچ 1536
(مدت حکومت: 12 سال 8 ماہ 16 دن شمسی)
حکمران سلیمان اول
پیری محمد پاشا
ایاز محمد پاشا
عثمانی گورنر مصر
مدت منصب
1525 – 1525
حکمران سلیمان اول
گوزیلجے قاسم پاشا
گوزیلجے قاسم پاشا
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1495ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پارگا  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 مارچ 1536ء (40–41 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول[2]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات گلا گھونٹنا  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ (1500ء کی دہائی–)
جمہوریہ وینس (1493–1500ء کی دہائی)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام، سابقہ راسخ العقیدہ مسیحیت
اولاد خانم سلطان
عالمہ سلطان
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان،  فوجی افسر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اطالوی،  عثمانی ترکی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری سلطنت عثمانیہ  ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ پاشا
فوجی افسر
سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسلی تعلق یونانی

ابراہیم پارگا کا پیدائشی مسیحی تھا جسے بچن میں ہی غلام بنا دیا گیا۔ وہ اور سلیمان اول بچپن سے ہی گہرے دوست بن گئے تھے۔ سلطان سلیمان نے 1523ء وزیر اول پیری محمد پاشا کو جسے اس کے والد سلیم اول نے وزیر اول مقرر کیا تھا، تبدیل کر کے ابراہیم پاشا کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ ابراہیم تیرہ سال تک اس عہدے پر فائز رہا۔ لیکن 1536ء میں سلطان نے ابراہیم پاشا کو سزائے موت کا حکم دیا اور اس کی جائداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔

زندگی ترمیم

ابراہیم نسلا یونانی تھا جو پارگا، اپیروس، شمالی یونان میں جو اس وقت جمہوریہ وینس کا حصہ تھا، میں ایک یونانی آرتھوڈوکس مسیحی خاندان میں پیدا ہوا۔[3][4][5][6][7][8]

وہ پارگا کے ایک ملاح کا بیٹا تھا، جسے بحری قزاقوں نے غلام بنا کر مغربی اناطولیہ کے مانیسا محل جہاں عثمانی شہزادوں کی تربیت ہوتی تھی، میں فروخت کر دیا۔ یہاں اس کی دوستی ولی عہد شہزادہ سلیمان سے ہوئی۔ یہیں اس کی تربیت بھی ہوئی اور وہ ماہر کثیر لسانی (Polyglotism) اور ماہر کثیر علوم (Polymath) بن گیا۔

1520ء میں سلیمان اول کے تخت نشین ہونے کے بعد اسے مختلف عہدے ملے، جس میں سب سے پہلے وہ مصاحب خاص بنا۔

سلیمان کی فوج کے ایک ماہر کماندار ہونے کے باوجد فارسی صفوی سلطنت کے خلاف جنگ میں وہ سلطان کی نظروں سے گر گیا۔ عثمانی-صفوی جنگ (1532-55) کے دوران اس نے اپنے نام کے ساتھ سلطان بھی شامل کر لیا، جسے سلیمان نے اپنے لیے سنگین توہین گردانا۔[9] اس کے علاوہ ابراہیم اور اس کے سابقہ ناصح سکندرچلبی کے مابین صفوی جنگ کے دوران بار بار فوجی قیادت اور پوزیشنوں پر جھڑپیں ہوئیں۔ ان واقعات کی بنا پر 1536ء میں اسے سزائے موت دی گئی ( سکندرچلبی کو ایک سال قبل 1535ء میں سزائے موت دے دی گئی)۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابراہیم پاشا سلیمان اول کی بیوی خرم سلطان کی سازشوں کا شکار ہوا۔ ابراہیم شہزادہ مصطفی جو ماہ دوراں سلطان اور سلیمان اول کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور تخت کا ظاہری وارث بھی تھا کو سلطان بنانا چاہتا تھا مگر خرم سلطان اپنے بیٹے کو سلطان بنانا چاہتی تھی۔ شہزادہ مصطفی کو 6 اکتوبر، 1553ء کو سلطان نے غداری کے جرم میں موت کی سزا سنائی، جس کے لیے خرم سلطان نے عرصے سے سازشوں کا جال بن رکھا تھا۔

اگرچہ ابراہیم پاشا نے طویل عرصے قبل اسلام قبول کر لیا تھا لیکن مسیحی سے اپنے کچھ تعلقات کو برقرار رکھے۔ یہاں تک کہ اپنے مسیحی والدین کو عثمانی دار الحکومت اپنے ساتھ لا کر رکھا۔[10]

چونکہ سلیمان اول نے ابراہیم پاشا کی جان نہ لینے کا عہد کر رکھا تھا، اس لیے ایک مقامی مذہبی رہنما سے فتوی حاصل کیا گیا، جس نے عہد وفا نہ کرنے کی پاداش میں قسطنطنیہ میں ایک مسجد کی تعمیر کروانے کا کہا۔ بعد میں ابراہیم پاشا کی سزائے موت کے فیصلے پر سلطان سلیمان نے افسوس کا اظہار کیا جس کی جھلک اس کی نظموں میں نظر آتی ہے۔

تصاویر ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. https://studfile.net/preview/5133612/
  2. ربط : https://d-nb.info/gnd/1035676397  — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  3. Margaret Rich Greer, Walter Mignolo, Maureen Quilligan. "Ibrahim%20Pasha,%20his%20intimate%20and%20grand%20vezir,%20a%20Greek%20from%20Parga%20in%20Epirus"&f=false Rereading the Black Legend: the discourses of religious and racial difference in the Renaissance empires., University of Chicago Press, 2007. ISBN 978-0-226-30722-0, p. 41: "Ibrahim Pasha, his intimate and grand vezir, a Greek from Parga in Epirus"
  4. Willem Frederik Bakker."Ibrahim%20was%20the%20son%20of%20a%20Greek%20fisherman%20from%20the%20Epirot%20town%20of%20Parga"&f=false Studia Byzantina et Neohellenica Neerlandica. BRILL, 1972. ISBN 978-90-04-03552-2 ,p. 312
  5. Roger Bigelow Merriman."He%20was%20by%20birth%20a%20Christian%20Greek,%20the%20son%20of%20a%20sailor%20from%20the%20town%20of%20Parga%20on%20the%20Ionian%20Sea."&f=false Suleiman the Magnificent 1520-1566. READ BOOKS, 2008. ISBN 978-1-4437-3145-4, p. 76
  6. Walter G. Andrews, Najaat Black, Mehmet Kalpaklı."Born%20a%20Greek%20near%20Parga"&f=false Ottoman lyric poetry: an anthology. University of Washington Press, 2006. ISBN 978-0-295-98595-4, p. 230.
  7. Machiel Kiel. "Ibrahim+Pasha+(son+of+a+Greek+fisherman+of+Parga)"#search_anchorStudies on the Ottoman architecture of the Balkans. Variorum, 1990. ISBN 978-0-86078-276-6, p. 416.
  8. Robin Ostle (2008-10-14)۔ Sensibilities of the Islamic Mediterranean: self-expression in a Muslim culture from post-classical times to the present day۔ I.B. Tauris۔ صفحہ: 75۔ ISBN 978-1-84511-650-7۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2011 
  9. Kinross, 230.
  10. Walter G. Andrews, Najaat Black, Mehmet Kalpaklı.Ottoman lyric poetry: an anthology. University of Washington Press, 2006. ISBN 978-0-295-98595-4, p. 230.