چھٹی حس یا ادراک ماوراءے حواس (Extrasensory perception) کی اصطلاح ان مواقع کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں کسی کو ایسی بات کا علم ہو جائے جو بظاہر وہاں موجود ہی نہیں ہے، مثال کے طور پہ کسی کو محسوس ہونے لگے کہ ٹرین میں اس کے سامنے بیٹھے شخص نے کوئی جرم کیا ہے یا کسی کو اچانک محسوس ہونے لگے کہ کوئی گڑبڑ یا نقصان ہونے والا ہے، جیسے کوئی ہنگامی حالات میں گهر سے نکلے تو اپنے بچے کو باورچی خانے کے فرش پہ کهیلتا چهوڑآیا تھا۔.

زینیر کارڈز، جنہیں 1930 کی دہائی میں ESP کے تجربات کے لیے استعمال کیا جانے لگا.

چهٹی حس ہونے کا مطلب ہرگز ایسا نہیں ہے جیسا ڈراموں یا فلموں میں مردہ لوگوں سے بات کرتے دکهایا جاتا ہے۔ چهٹی حس سے مراد یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی کو اس بات کا احساس ہو جائے کچھ بہت اچها یا بہت برا واقعہ ہونے والا ہے۔

چهٹی حس کی اصطلاح استعمال کرکے لوگ اپنی حسیات کی تعداد کو محدود کر دیتے ہیں حالانکہ یہ کہنا ایک غلطی ہے کہ انسان کے پاس صرف پانچ حسیں ہیں۔ مثال کے طور پر چند اضافی حسیات کے نام یہ ہیں:

  • نوسیسپشن: درد محسوس کرنے کی صلاحیت۔
  • تهرموسپشن: درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلی کو محسوس کرنے کی صلاحیت۔
  • پروپریسپشن: جسم میں موجود جوڑوں کے جسم سے تعلق کو محسوس کرنے کی صلاحیت۔
  • ایکیولبریسپشن: توازن کا احساس، وقت کا کا احساس

ایک اور اہم صلاحیت یہ ہے کہ انسان سوس کر نے لگے ے کہ اس کا وزن کم ہو رہا ہے یا محسوس کرے کہ پیٹ بھر گیا ہے اور مزید کھانے کی حاجت نہیں۔ پیٹ جو بظاہر ایک حقیقی چیز ہے۔ لیکن اس کی حس الگ طرح سے کام کرتی ہے۔

انسا نوں میں سے ہر ایک میں یہ قابلیت اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی باقی حسیات سے ایک اور حس تخلیق کر سکیں۔ لیکن حواسِ خمسہ کے بغیر یہ ہرگزممکن نہیں ہے۔

کشف یا الہام ترمیم

بعض مذہبی حلقوں میں، چهٹی حس کو بطور خدا یا فرشتوں کی موجودگی کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے اندرونی کشف اور الہام کہتے ہیں کہ جب بهی انسان کو کو کسی چیز یا آنے والے وقت کے بارے میں عجیب محسوس ہوتا ہے۔

جانوروں میں چھٹی حس ترمیم

تجربات اور مطالعہ کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دیگر جانوروں اور پرندوں میں جو حس، چهٹی حس کے طور پہ جانی جاتی ہے وہ ہے زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرنا ہے۔ حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انسان میں چهٹی حس موجود ہے جو انسان کو مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے میں مدد دیتی ہے اور اس مقناطیسی میدان میں تبدیلی لا کر پرندوں یا جانوروں کو ان کے راستے سے بهٹکایا بهی جا سکتا ہے۔

ایک تجربہ ترمیم

سائنسدانوں نے ایک تجربہ میں پهلوں کے باغ کی مکهی میں انسانی آنکھ کے ریٹینا کا پروٹین داخل کیا گیا تحقیقاتی ماہرین کے مطابق مکهی نے اپنی پرواز کے راستے تبدیل کر لیے تهے جبکہ ابهی مکهی کی آنکھ میں بهی کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی گئی تهی۔ اِس تجربہ سے اخذ کیا گیا کہ انسان میں بهی یہ چهٹی حس موجود ہے لیکن ہم اس سے لاعلم رہتے ہیں۔ دیگر جانور اس حس کا استعمال ہجرت کے دوران طویل فاصلوں کا پتہ لگانے کے لیے کرتے ہیں جبکہ پرندے یہ دیکهنے کے لیے کہ وہ ان طویل راستوں میں کہاں اور کس طرف جا رہے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایسی چیزوں کو محسوس کر سکتے ہیں جنہیں وہ دیکھ بهی نہیں سکتے جیسا کہ کسی شخص کی ظاہری شکل میں تبدیلی یا اس کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات وغیرہ۔. آسٹریلیا میں میلبورن یونیورسٹی سے تعلق رکهنے والے ایک بصری سائنس دان پیرز ہووی کا کہنا ہے یہ کسی قسم کا جادو یا چهٹی حس نہیں ہے۔ اس احساس کی مکمل وضاحت ” معلوم بصری عوامل” visual processing کی شرائط میں کی جا سکتی ہے۔ نیچر کمیونیکیشنز میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عموماً جس قسم کی چهٹی حس کا ہم دعوی کرتے ہیں وہ حقیقت نہیں ہے۔ اگر چهٹی حس قرار دیا جانا چاہئیے تو وہ زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ سائنسی جریدے “جرنل” کے مطابق جو لوگ چهٹی حس سے محسوس کرتے ہیں وہ دراصل ان کے بصری و سماعتی نظام کو محسوس ہونے والی اس تبدیلی کا احساس ہے جس کی وضاحت وہ خود بهی نہیں کر سکتے کہ انھیں کیسے اس بات کا پتہ چلا ہے۔ بہت سے امریکی اس بات پہ یقین رکهتے ہیں کہ بہت سی غیبی قدرتی طاقتیں موجود ہیں۔ ایک سروے میں یہ بهی پتہ چلا ہے کہ ایک تہائی لوگ اضافی ادراکی حسیات پہ یقین رکهتے ہیں اور دو تہائی افراد نے غیر معمولی آسیبی تجربات سے گزرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ چند سائنسی مطالعات نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ چند لوگ دعوی کرتے ہیں کہ کچھ درپیش ہونے سے پہلے وہ مستقبل بینی کر سکتے ہیں۔ مزید مطالعہ سے اخذ کیے جانے والے نتائج سے معلوم ہوا کہ یہ مستقبل کے اعدادوشمار سے اخذ شدہ نتائج کی ایک ناقص رائے پیش کرنے جیسا عمل ہے۔ پیرز ہووی نے سائنسی جریدے لائیو سائنس کو بتایا کہ اس کی دلچسپی اس وقت بڑهی جب ایک طالبہ نے دعوی کیا کہ اس کہ پاس جادوئی قسم کی چهٹی حس ہے۔ اس نے دعوی کیا کہ وہ ایسی چیزیں بهی محسوس کر لیتی ہے جنہیں وہ دیکھ نہیں سکتی، جیسا کہ کسی دوست کو حادثہ پیش آنا وغیرہ… پیرز ہووی اور میلبورن یونیورسٹی کے ماہر نفسیات مارگریٹ ویب نے نے اپنے شبہات کی تصدیق کے لیے اس طالبہ کی چهٹی حس کا ٹیسٹ لینے کا فیصلہ کیا۔

عام بصری پروسیسنگ ترمیم

عام بصری پروسیسنگ یا Normal visual processingٹسٹ کے دوران انھوں نے اپنے دوستوں کی ایک مخصوص انداز میں چند تصاویر بنائیں جن میں کمپیوٹر کے ذریعے ظاہری حلیہ میں معمولی تبدیلیاں کر دی گئیں۔ جیسا کہ ایک تصویر میں اس کے دوستوں نے عینکیں پہن رکهیں تهی جب کہ دوسری میں نہیں تهیں یا ایک تصویر میں لپ اسٹک لگائی ہوئی تهی جبکہ دوسری تصویر میں بغیر لپ اسٹک کے دوست موجود تهے۔ تجرباتی ٹیم نے 48 انڈر گریجویٹ طالب علموں کو پہلی تصویر 1.5 سیکنڈ کے لیے دکهائی اور ایک سیکنڈ کے وقفے کے بعد دوسری تصویر کو سامنے لایا گیا۔ اس کے بعد طالب علموں کو ان تصاویر میں فرق اور اگر وہ فرق ہیں تو ان کی نشان دہی کرنے کا کہا گیا۔ طالب علموں کو ایک فہرست دی گئی جس میں سے انتخاب کرنا تها کہ ان دونوں تصاویر میں کیا ممکنہ فرق موجود ہیں۔ حصہ لینے والے طالب علموں نے تصاویر میں موجود تبدیلیوں کو ضرور محسوس کر لیا تها۔ لیکن تمام طالب علم ان تصاویر میں موجود فرق اور تبدیلی کی نشان دہی کرنے میں اتنی اچهی کارکردگی نہیں دکها پائے حتی کہ بڑی تبدیلیوں مثلاً ایک دوست کہ سر پہ بڑی میکسیکن ٹوپی کی غیر موجودگی کی نشان دہی کرنے میں بهی ناکام رہے یا پهر ایسی تبدیلی بتائی جو موجود ہی نہیں تهی۔ یہی معما ان دوستوں کے ساتھ بهی پیش آیا جو تصاویر میں موجود تهے جب انھوں نے تبدیلیوں کو تو محسوس کیا لیکن وہ فہرست میں اس بات کی نشان دہی نہیں کر سکے کہ کونسی ممکنہ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ پیرز ہووی نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ دماغ مناظر کو سمجهنے کے لیے بصری پیمائش کو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ جیسا کہ اندهیرا، رنگ، عمودی یا اس کے برعکس حصہ، لیکن دماغ ہمیں یہ نہیں سمجها پاتا کہ ہم ان حصوں میں ہونے والی اس ممکنہ تبدیلی کو بیان کیسے کریں اور اس کی نشان دہی کس طرح کریں۔ دوسرے تجربے میں ٹیم نے طالب علموں کو سرخ اور سبز رنگوں کی ڈسک ایک لائن میں ترتیب کے ساتھ دکهائی گئی اور ایک بار پهر اس سلسلے کو دوبارہ سے پہلے سے مختلف ترتیب سے دوہرایا گیا، ایک بار پهر سے طالب علموں نے ترتیبی تبدیلی کو تو محسوس کر لیا لیکن ان کی نشان دہی کرنے سے وہ پهر بهی قاصر رہے۔ اور جب ٹیم نے ترتیب سے رکهی ہوئی تمام سرخ اور سبز ڈسکس میں سے چند ڈسکس کے رنگوں کو تبدیل کیا تو طالب علموں کی “چهٹی حس” مکمل طور پہ کام کرنا چهوڑ گئی۔.

اندها یقین رکهنے والے ترمیم

اندها یقین رکهنے والے یا Die-hard believers۔ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے مراحل میں چهٹی حس کے یقین کی اصلیت، جس میں وہ شخص سمجهتا ہے کہ اس نے الہامی طور پہ کسی ایسی چیز کی آگاہی حاصل کر لی ہے جو اس نے دیکهی ہی نہیں ہے۔ وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ یہ آگاہی انھوں نے کسی دیگر ذرائع سے محسوس کی یا دیکهی ہے جو بصری پیمائش کے معیار میں اختلافات کے باعث خیال کی صورت دماغ انھیں پیش کرتا ہے۔ ایسی کوئی بصری پیمائشی غلطی، حس نہیں کہلائے گی جو فزکس کے عام قوانین سے باہر ہو کر کام کرتی ہو۔ پیرز ہووی کی طالبہ کے معاملے میں شاید اس طالبہ نے بظاہر کہیں بہت معمولی سی تبدیلی کو اپنے اردگرد ماحول میں سے حواسِ خمسہ کے ذریعے ہی محسوس کیا ہو گا( جیسے چهوٹی خراشیں یا مرہم پٹی یا کوئی لفظ وغیرہ ) لیکن اسے خود بهی اس بات کا اندازہ نہیں ہوا ہو گا کہ وہ ایسی صورت حال میں سے اپنے الہام اور کشف کے لیے کسی ایک اشارے کو اپنی چهٹی حس کے طور منتخب کر چکی تهی کہ اس کے دوست کو حادثہ پیش آ چکا ہے۔. پیرز ہووی نے مزید کہا کہ اس موضوع پر مطالعہ کرنے کا مقصد ان لوگوں کو قائل کرنا تها جو ان دیکهی مخلوقات اور طاقتوں پر اندها یقین رکهتے ہیں۔ ہم اسے ثبوت کے طور پیش کر سکتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو سمجهتے ہیں کہ ان کے پاس چهٹی حس موجود ہے وہ اس پہ یقین کرتے رہیں۔ کیونکہ یہ خوش فہمی ہی ہے کہ ان کے پاس چهٹی حس جیسی کوئی صلاحیت موجود ہے۔ حواسِ خمسہ سے ہی معلوم نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کوئی جادوئی خوبی ہرگز نہیں ہے…!![1]

حوالہ جات ترمیم

بیرونی روابط ترمیم