ڈیجیٹل تقسیم (انگریزی: digital divide) سے مراد ان لوگوں کے بیچ کی وہ خلاء ہے جو جدید ڈیجیٹل دور سے استفادہ کرتے ہیں اور جو ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔[1][2] اس میں یہ فکر غالب ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس انٹرنیٹ اور جدید معلوماتی ٹیکنالوجی نہیں ہے وہ لوگ خسارے میں رہیں گے کیوں کہ وہ اس قابل نہیں ہے یا ان کے پاس ڈیجیٹل معلومات دست یاب نہیں ہے۔ یہ لوگ آن لائن خریداری نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی کئی جمہوری عمل در آمد سرگرمیوں حصہ لے سکیں گے جو آن لائن ہوں۔ اسی طرح یہ لوگ آن لائن صلاحیتوں کی تربیت لے سکیں گے اور نہ ہی اپنے کوئی ہنر کو آن لائن دکھا سکیں گے۔ ڈیجیٹل تقسیم کے ان پہلوؤں پر غور و فکر کی وجہ سے ان جدید آلات تک رسائی نہیں رکھنے والے لوگوں تک کمپیوٹر فراہم کیے گئے ہیں اور اسی طرح ان لوگوں تک متعلقہ خدمات پہنچائی گئی ہیں۔

انڈونیشیا کی ایک خاتون ڈیجیٹل تقسیم کی ایک ذیلی شاخ ڈیجیٹل جنسی تقسیم کے بارے میں ایک پلے کارڈ تھامی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔ پلے کارڈ میں وہ جدید آلات سے وابستگی کے اپنے فوائد کو گنوا رہی ہیں۔ ان کے مطابق وہ محروم زمروں کی طاقت بن سکتی ہیں اور معاشی وسائل کی تقسیم میں جنسی نابرابری کر سکنے علاوہ کئی اور کام کر سکتی ہیں۔


خامیاں ترمیم

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی نہ رکھنے والے افراد جدید دور کی تازہ بہ تازہ ابھرتی ہوئی معاشی ، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پوری طرح سے حصہ لینے کے قابل نہیں ہیں۔ شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ مواصلات کے فرق میں پڑنے والے بچوں میں انٹرنیٹ پر مبنی فاصلاتی تعلیم جیسے جدید تعلیمی ٹکنالوجی تک رسائی نہیں ہے۔ روزمرہ کے عام کاموں میں صحت کی معلومات تک رسائی ، آن لائن بینکنگ ، رہنے کے لیے جگہ کا انتخاب ، نوکریوں کے لیے درخواست دینے ، سرکاری خدمات تلاش کرنے اور کلاسز لینے جیسے کاموں میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ تک رسائی روز بروز اہم ہو گئی ہے۔[3] مگر جو لوگ ڈیجیٹل تقسیم پچھڑ گئے ہیں وہ ان سہولتوں سے بالکلیہ محروم ہو چکے ہیں۔

اس مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ 2020ء کے کووڈ 19 سے جڑے بھارت میں ہونے والی تالا بندی سے لگایا جا سکتا ہے جب ایک لمبے عرصے تک تقریبًا سبھی تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور آن لائن ہدایات ہی تعلیم کا ایک ذریعہ رہ گیا تھا۔ کئی دیہی علاقہ جات کی طرح مہاراشٹر کے ڈونگری گاؤں کے ضلع پریشد کے اساتذہ نے اور ان کے ساتھیوں نے ایسے لوگوں کی تعداد نوٹ کی جن کے گھر میں اسمارٹ فون ہے۔ ان ٹیچروں کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس اساتذہ کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے، جہاں ہم بچوں کے لیے ضروری ہدایات اور نصاب کی پی ڈی ایف فائلیں یا ویڈیو شیئر کرتے ہیں‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ہم اسے ان لوگوں کو یہ فارورڈ کر دیتے ہیں، جن کے پاس گھر پر اسمارٹ فون ہے۔ ہم سرپرستوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بچوں کو اسمارٹ فون مہیا کرائیں۔ وہ کہتے ہیں، ہاں فون تو موجود ہے، لیکن یہ اچھی طرح سے کام نہیں کر رہا ہے۔‘‘ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یہ دوسری طرح کیسے کام کر سکتا ہے۔[4] اس واقعے سے پتہ چلتا ہے موبائل ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور بنیادی کمپیوٹر تعلیم کی کمی کی وجہ سے ایک گاؤں میں بچوں کی تعلیم کس قدر متاثر ہوئی ہے، خاص طور پر ایسے وقت جب روایتی تعلیم کے دروازے ایک عالمی وبا کی وجہ سے از خود بند ہو چکے تھے۔


مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Martin Hilbert (2011)۔ "The end justifies the definition: The manifold outlooks on the digital divide and their practical usefulness for policy-making"۔ Telecommunications Policy۔ 35 (8): 715–736۔ doi:10.1016/j.telpol.2011.06.012 
  2. Craig Warren Smith (2002)۔ Digital corporate citizenship : the business response to the digital divide۔ Indianapolis: The Center on Philanthropy at Indiana University۔ ISBN 1884354203 
  3. امریکا کی ڈیجیٹل تقسیم کو سمجھنا
  4. اسکولی بچے: ڈیجیٹل غیر برابری سے ڈیجیٹل تقسیم تک